• Sat, 20 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بنگلہ دیش: ہندو شخص کی لنچنگ کے الزام میں سات افراد گرفتار

Updated: December 20, 2025, 2:55 PM IST | Dhaka

ضلع میمن سنگھ میں ایک ہندو فیکٹری ورکر کو توہینِ مذہب کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں قتل کر دیا گیا، جس کے بعد سات ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے سخت کارروائی کا یقین دلایا ہے۔ یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب بنگلہ دیش پہلے ہی سیاسی اور سماجی بدامنی سے گزر رہا ہے۔

Picture: X
تصویر: ایکس

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے سنیچر کو بتایا کہ ضلع میمن سنگھ میں ایک ہندو شخص کو توہینِ مذہب کا الزام عائد کرنے کے بعد قتل کئے جانے کے واقعے میں سات افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ بی بی سی بنگلہ کے مطابق، بھالوکا پولیس اسٹیشن کے ڈیوٹی افسر نے بتایا کہ ۲۷؍ سالہ شخص کو جمعرات کی رات ایک ہجوم نے تشدد کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ بعد ازاں مبینہ طور پر اس کی لاش کو ایک درخت سے باندھ کر آگ لگا دی گئی۔ مقتول کی شناخت دیپو چندر داس کے طور پر ہوئی ہے، جو اسی علاقے کا رہائشی اور ایک فیکٹری میں ملازم تھا۔

یہ بھی پڑھئے: جنوبی کوریا: صدر کا ’بالوں کا جھڑنا‘ کو قومی صحت انشورنس میں شامل کرنے کا مطالبہ

اس سلسلے میں جن افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، ان میں ۱۹؍ سالہ محمد لمن سرکار، محمد طارق حسین، ۲۰؍ سالہ سالہ محمد مانک میاں، نجم الدین، ۳۸؍ سالہ عالمگیر حسین، ۳۹؍ سالہ ارشاد علی اور ۴۶؍ سالہ محمد معراج حسین اکون شامل ہیں۔ حکام کے مطابق یہ گرفتاریاں ریپڈ ایکشن بٹالین کی کارروائیوں کے دوران عمل میں آئیں۔ پولیس نے جمعہ کو دیپو چندر داس کی لاش برآمد کر کے پوسٹ مارٹم کیلئےمیمن سنگھ میڈیکل کالج اسپتال منتقل کر دی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد علاقے میں کشیدگی پھیل گئی تھی، تاہم امن و امان برقرار رکھنے کیلئے حفاظتی اقدامات کئے گئے ہیں۔ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ لنچنگ جیسے تشدد کیلئے نئے بنگلہ دیش میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس گھناؤنے جرم میں ملوث افراد کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھئے:اڈانی گروپ نے ایئر پورٹس کیلئے ایک لاکھ کروڑ مختص کئے

یاد رہے کہ یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب ملک میں طالب علم رہنما شریف عثمان بن ہادی کی موت کے بعد پہلے ہی بڑے پیمانے پر بدامنی پائی جا رہی ہے۔ شریف عثمان بن ہادی جمعرات کو سنگاپور کے ایک اسپتال میں گولی لگنے کے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے تھے۔ وہ ۲۰۲۴ء کے طلبہ احتجاج میں ایک نمایاں لیڈر تھے، جس کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا۔ ان واقعات کے بعد ڈھاکہ سمیت دیگر شہروں میں مظاہرے شروع ہو گئے، جن کے دوران عوامی لیگ سے وابستہ اخبارات اور املاک کے دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK