• Wed, 11 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بنگلہ دیش: طوفان گزرجانے کے بعد

Updated: August 14, 2024, 1:29 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت وجود میں آچکی ہے لیکن لاسمتی کے شکار بنگلہ دیش میں ابھی بھی لایقینی کی کیفیت ہے۔ اس ہمسایہ ملک کو جو انتہائی پسماندگی کی دلدل سے نکل کر ایشیا ءکی سب سے تیز رفتار معیشت بن گیا تھا، ایک بار پھر متعدد چیلنجز کا سامنا لا حق ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

پاکستان کے دو لخت ہونے کے چند برس بعد فیض احمد فیض نے ڈھاکہ کا دورہ کیا۔ وہاں  انہوں  نے طویل خانہ جنگی کے دوران ہونے والے قتل عام کی جوہولناک اور خونچکاں  داستانیں  سنیں  ان سے مضطرب اور مغموم ہوکر ایک نظم ’’ڈھاکہ سے واپسی پر‘‘ لکھی۔اس سانحہ عظیم پر اپنے دلی کرب کو فیض نے یوں  بیان کیا:’’ خون کے دھبے دھلیں  گے کتنی برساتوں  کے بعد۔‘‘
 خون کے وہ دھبے ابھی پوری طرح دھلے بھی نہیں  تھے کہ پچھلے ماہ بنگلہ دیش اپنے ہی لہو میں  ایک بار پھر نہا گیا۔ بنگلہ دیش کاجنم ایک خوفناک خونیں  انقلاب کی کوکھ سے ہوا تھا جس میں  لاکھوں  لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ افسوس بنگلہ دیش کو ۵؍ اگست کو ملی’’ دوسری آزادی‘‘ بھی اپنے بچوں  کے خون سے لہولہان ہوکر ہی حاصل ہوئی۔
پیر کے دن جب میں  یہ کالم لکھ رہا ہوں  حسینہ کی معزولی کومحض ایک ہفتہ ہی گزرا ہے لیکن ان سات دنوں  میں  ڈھاکہ میں  سیاسی اور معاشرتی منظرنامہ اتنی تیزی سے بدلا ہے کہ دنیا حیرت زدہ ہے۔دنیا پہلے جس خاتون کا سرخ قالین بچھاکر استقبال کرتی تھی اسی کو آج کہیں  سر چھپانے کی جگہ نہیں  مل رہی ہے۔ ۵؍ اگست کے دن حسینہ حکومت کے ڈرامائی زوال کے بعد ڈھاکہ میں  اقتدار اور گورننس کا ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا جس کی وجہ سے پورے ملک میں  لاقانونیت اورعدم استحکام پھیل گیا۔ لوٹ مار، قتل و غارتگری، تخریب اور تشدد کا بازار گرم ہوگیا۔ چار پانچ دنوں  تک بنگلہ دیش میں  ہر جانب انارکی نظر آرہی تھی۔ وحشیانہ کریک ڈاؤن میں  نوجوانوں  کی ہلاکتوں  کی وجہ سے عوام میں  پولیس کے خلاف بے حد برہمی تھی۔اسی لئے حسینہ کا تختہ الٹے جانے کے بعد مظاہرین کے عتاب کا سب سے زیادہ شکار پولیس ہوئی۔ تقریباً پچاس پولیس اہلکاروں  کو قتل کردیا گیا جس کی وجہ سے پوری فورس میں  دہشت پھیل گئی۔عوامی لیگ کے لیڈروں  اور ہندوؤں  کے گھروں  اور عبادت گاہوں  کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے ہندوؤں  پر ہونے والے حملوں  کو شرمناک قراردیا اور ان پر فوراً روک لگانے کی ہدایت دی۔عام مسلمانوں  اور مظاہرین طلبہ نے مندروں  اور ہندوؤں  کے گھروں  کے باہر پہرے دے کر ان کی حفاظت کی۔ لیکن ہندوستانی سوشل میڈیا اور گودی میڈیا نے فیک نیوز کے ذریعہ یہ پروپیگنڈہ کیا کہ حسینہ کی رخصتی کے بعد بنگلہ دیش میں  ہندوؤں  کا قتل عام ہورہا اور ان کی عورتوں  کی اجتماعی عصمت دری کی جارہی ہے۔ بی بی سی نے اس طرح کی متعدد گمراہ کن خبروں  کی قلعی کھول کررکھ دی ہے مثلاً بلوائیوں  نے کرکٹ کھلاڑی مشرف بن مرتضیٰ کا گھر جلا یا لیکن گودی میڈیا نے یہ فیک نیوز چلادی کہ وہ گھر ہندو کھلاڑی لیٹن داس کا تھا۔ چٹوگرام کے مندر کی آتشزنی کا ویڈیو خوب وائرل ہوا جبکہ حقیقت میں  آگ مندرمیں  نہیں  اس کے عقب میں  واقع عوامی لیگ کے دفتر میں  لگائی گئی تھی۔ بنگلور میں  ایک عورت کی عصمت دری کی ایک پرانی تصویر کویہ کہ کر اچھالا گیا کہ بنگلہ دیش میں  ہندو عورت کا ریپ ہورہا ہے۔
جب کوئی جابر حکمراں  عوامی بغاوت کے نتیجے میں  اقتدار سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے تو اس کے بعد ملک کا افرا تفری، تخریب کاری، تشدد اور جرائم کی لپیٹ میں  آجانا فطری ردعمل ہے۔ بنگلہ دیش میں  بھی ۵؍ اگست کے بعد یہی سب کچھ ہوا۔ امید ہے یہ اتھل پتھل عارضی ثابت ہوگی لیکن ہندوستان میں  گودی میڈیا ایک ایسا بیانیہ فروغ دے رہا ہے گویا حسینہ کے بعد بنگلہ دیش پر اسلامی انتہاپسندوں  کا تسلط قائم ہوجائے گا، جمہوریت ختم ہوجائے گی اور ہندوؤں  کا جینا دوبھر ہوجائے گا۔ عبوری حکومت ہندوؤں  کے تحفظ کے لئے خصوصی اقدام کررہی ہے۔کار گزار وزیر خارجہ توحید حسین نے غیرملکی سفارت کاروں  کو یقین دہانی کرائی کہ ہندوؤں  کے جان و مال کی سلامتی کا تحفظ عبوری حکومت کا ا ولین فرض ہے۔محمد یونس خود ہندوتنظیموں  کے لیڈروں  سے مل کر ان کے خدشات دور کر رہے ہیں ۔ بنگلہ دیش کے اہم روزنامہ ڈیلی اسٹارکے مدیرمحفوظ انعم نے پیر کے دن کرن تھاپر کو ایک انٹرویو میں  یہ دعویٰ کیا کہ بنگلہ دیش میں  ہندوؤں  پر حملے تھم گئے ہیں ۔ مدیر کے مطابق انہیں  ایسے کئی واقعات کا علم ہے جہاں  جماعت اسلامی کے ورکرز نے مندروں  کی حفاظت کی۔ بنگلہ دیش کے شہری حقیقی معنوں  میں  سیکولر اور روادار ہیں ۔وزیر داخلہ سخاوت حسین نے جنم اشٹمی کے تہوار پر سیکوریٹی کے سخت انتظامات کا حکم دے دیا ہے۔ عبوری حکومت درگا پوجا کے لئے تین دن کی سرکاری تعطیل کی تجویز پر غور کررہی ہے۔ 
 شورش زدہ بنگلہ دیش میں  لاء اینڈ آرڈر کے بریک ڈاؤن کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ پولیس منظر سے ہٹ گئی تھی۔معاشرے میں  ڈسپلن، امن اورقانون کی حکمرانی قائم رکھنے کی ذمہ داری پولیس کی ہوتی ہے۔پولیس کی عدم موجودگی میں  بنگلہ دیش میں  انتشار اور لاقانونیت کا راج قائم ہوگیا۔ فوج اور طلبہ نے ٹریفک کا نظم و نسق سنبھالنے کی کوشش کی لیکن وہ انتشار ختم کرنے میں  ناکام رہے۔ عبوری حکومت کی مسلسل یقین دہانی کے بعد قانون کے رکھوالوں  کا مورال بحال ہوا اور پولیس نے پیر کے دن سے اپنی ذمہ داریاں  دوبارہ سنبھال لی ہیں ۔
 ۸؍ اگست کے دن نوبیل انعام یافتہ ’’غریبوں  کے بینکر‘‘ محمد یونس کی سربراہی میں  جب ایک عبوری حکومت معرض وجود میں  آئی تو یہ امید جاگی کہ ملک کی گاڑی جو پٹری سے اتر گئی تھی، دھیرے دھیرے دوبارہ پٹری پر واپس آجائے گی۔ یہ سچ ہے کہ لاسمتی کے شکار بنگلہ دیش میں  ابھی بھی لایقینی کی کیفیت ہے۔ اس جنوبی ایشیا ئی ملک کوجو دنیا کے پس ماندہ ترین ملک سے ترقی کرتا ہوا ایشیا کی سب سے تیز رفتار معیشت بن گیا تھا، ایک بار پھر متعدد چیلنجز کا سامنا لا حق ہے۔ آئین کے مطابق پارلیمنٹ تحلیل کئے جانے کے تین ماہ کے اندر نئے انتخابات لازمی ہیں ۔پچھلی دو دہائیوں  سے اقتدار سے محروم سیاسی جماعتیں  صحیح وقت پر نئے انتخابات کا مطالبہ کررہی ہیں ۔ لیکن زمینی حقائق بتارہے ہیں  کہ عبوری حکومت کو ملک کے آئینی اداروں  کو دوبارہ فعال بنانے اور جمہوریت کو دوبارہ بحال کرنے کیلئے کم از کم تین سال کی مہلت درکار ہوگی۔ عبوری حکومت کو ملک کی اکانومی درست کرنے پر بھی فوری توجہ دینا ہوگی اور مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل کو حل کرنے کی سنجیدہ اور پر خلوص کوشش کرنی ہوگی۔ مذہبی انتہاپسندی، فرقہ وارانہ تعصبات اور سیاسی تشدد پر فوری لگام لگانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ہندوؤں  کو مکمل تحفظ کی فراہمی بھی عبوری حکومت کی اولین ترجیح میں  شامل ہونا چاہئے۔عبوری حکومت کو ایک اور اہم کام کرنا ہے: موقعے کا فائدہ اٹھا کر فوج کی براہ راست یا بیک ڈور سے اقتدار ہتھیانے کی ممکنہ کوشش کو ہر قیمت پر ناکام بنانا ۔بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ حسینہ شاید یہ بھول گئی تھیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK