• Wed, 19 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہنوز بنگال دور است

Updated: November 19, 2025, 1:54 PM IST | Pervez Hafeez | mumbai

مودی جی کا یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ ’’بہار نے بنگال میں وجے کا راستہ بھی بنا دیا ہے‘‘ خوش فہمی ہے۔ ترنمول کانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ بنگال میں مضبوط بھی ہے اور فعال بھی جبکہ متعدد اضلاع میں خصوصاً جنوبی بنگال کے دیہی علاقوں میں بی جے پی تنظیمی طور پر ابھی کمزور ہے،ہاں اگر الیکشن کمیشن بہار کی طرح بنگال میں بھی کوئی چمتکار دکھادے تو پھر بات الگ ہے

INN
آئی این این
بہار میں  این ڈی اے کی ناقابل یقین کامیابی سے سرشار وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی جلد ہی بنگال میں  بھی اپنی فتح کا پرچم لہرانے والی ہے۔ نئی دہلی میں  پارٹی ہیڈ کوارٹر میں  ۱۴؍ نومبر کی شام اپنی وکٹری اسپیچ میں  مودی جی نے کہا کہ بہار نے بنگال میں  بی جے پی کی جیت کا راستہ ہموار کردیا ہے۔ بہار میں  این ڈی اے کی فتح کا جشن بہار کے بعد بنگال میں  سب سے بڑے پیمانے پر منایا گیا۔ بی جے پی ورکرز نے کلکتہ شہر میں  جگہ جگہ مٹھائیاں  تقسیم کیں  اور قائد حزب اختلاف شوبھیندو ادھیکاری تو بینڈ باجاکے ساتھ صوبائی اسمبلی کے باہر پہنچ گئے۔ انہیں  شاید یہ مغالطہ ہوگیا کہ بہار کے ساتھ ہمسایہ صوبہ بنگال کا راج پاٹ بھی بی جے پی کو مل گیا ہے۔ کسی نے جب انہیں  اطلاع دی کہ انتخابی سیاست میں  ’’بائی ون گٹ ون فری‘‘ والا آفر نہیں  چل رہا ہے تب کہیں  جاکر وہ اپنے گھر گئے۔
غلط، گمراہ کن یا غیر منطقی استدلال پر کوئی رائے قائم کرلینے کو انگریزی میں  fallacyکہتے ہیں ۔ وزیر اعظم اور بنگال بی جے پی لیڈروں  کے دعوؤں  میں  بھی یہی نقص دکھائی دیتا ہے۔حالیہ انتخابی نتائج سے مودی جی کا یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ ’’بہار نے بنگال میں  وجے کا راستہ بھی بنا دیا ہے‘‘ خوش فہمی ہے۔ بہار اور بنگال جغرافیائی، لسانی، تہذیبی اور سیاسی اعتبار سے دو بالکل مختلف صوبے ہیں ۔دونوں  صوبوں  کے عوام کا رہن سہن، لباس، کھانا پینا، عادات و اطواراور سوچنے سمجھنے کاڈھنگ بالکل الگ ہے۔ دونوں  صوبوں  کے سیاسی ماحول،سیاسی مزاج اور سیاسی منظرنامہ میں  بھی زمین آسمان کا فرق ہے۔ علاوہ ازیں  بہار میں  بی جے پی(این ڈی اے) الیکشن کے وقت اقتدار میں  تھی جبکہ بنگال میں  وہ اپوزیشن میں  ہے اور ترنمول کانگریس اقتدار میں  ہے۔ترنمول کانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ پورے صو بے میں  بے حد مضبوط بھی ہے اور فعال بھی۔ اس کے برعکس متعدد اضلاع میں  خصوصاً جنوبی بنگال کے دیہی علاقوں  میں  بی جے پی تنظیمی طور پر ابھی کمزور ہے۔
بہار میں  خواتین ووٹرز نے نتیش کمار کی اقتدار میں  واپسی میں  کلیدی کردار نبھایا۔ الیکشن سے ذرا قبل صوبے کی سوا کروڑ عورتوں  کو دس ہزار روپئے کی رقم فراہم کرنے کا این ڈی اے کا فیصلہ ماسٹر اسٹروک ثابت ہوا۔ دوسرے لیڈروں  کی طرح ممتا الیکشن سے ذرا قبل ووٹروں  میں  ’’ریوڑیاں ‘‘ تقسیم نہیں  کرتی ہیں ۔ بنگال میں  ممتا بنرجی پچھلے بارہ برسوں  سے عورتوں  کی فلاح وبہبود کی خاطر خصوصی اسکیموں  کے تحت بڑی کیش رقم اور ضروری سہولیات فراہم کررہی ہیں ۔ لڑکیوں  کی کم سنی میں  ہونے والی شادیوں  پر روک لگاکر انہیں  تعلیم یافتہ اور خود کفیل بنانے کی خاطر ممتا نے ’’کنیا شری اسکیم‘‘شروع کی تھی جو بے حد کامیاب رہی اور جسے اقوام متحدہ تک نے سراہا اور انعام سے نوازا۔ بنگال میں  ۲۰۲۱ء سے’’ لکشمی بھنڈار‘‘اسکیم کے تحت پچیس سے ساٹھ سال تک کی تمام عورتوں  کو ایک ہزار روپئے کا ماہانہ الاؤنس بھی دیا جارہا ہے جس سے دو کروڑ سے زیادہ عورتیں  فیض یاب ہورہی ہیں ۔بنگال کے ساڑھے سات کروڑ ووٹروں  میں  عورتوں  کا تناسب ۴۹؍ فیصد ہے۔ ۲۰۲۱ء میں  ترنمول کانگریس کو دو تہائی اکثریت دلانے اور ممتا کو تیسری بار راج سنگھاسن پر بٹھانے میں  خواتین کی بے پناہ حمایت کا ہاتھ تھا۔یہ کوئی راز نہیں  ہے کہ عورتوں  کے دلوں  میں  دیدی کا ایک خاص مقام ہے۔
بہار میں  جس طرح این ڈی اے نے نتیش کمار کو وزیر اعلیٰ کا چہرہ بناکر پیش کیا،بنگال میں  ممتا کے مقابلے میں  پیش کرنے کے لئے بی جے پی کے پاس کوئی ایسا معتبر اور قابل قبول چہرہ نہیں  ہے۔ چند سال قبل بی جے پی نے کرکٹ کپتان سورو گنگولی پر ڈورے ڈالے تھے لیکن وہ ممتا کا حریف بننے پر رضامند نہیں  ہوئے۔ مودی کی طرح ممتا بھی ایک گرانقدر سیاسی برانڈ ہیں  جنہیں  مودی کی طرح الیکشن جیتنے کا فن آتا ہے۔ تقریباً پندرہ برسوں  سے اقتدار میں  رہنے کی وجہ سے ممتا کی مقبولیت میں  کمی ضرور ہوئی ہے اور کرپشن کے متعدد معاملات میں  اہم ترنمول لیڈروں  کے ملوث ہونے کی وجہ سے عوام میں  ناراضگی بھی پائی جاتی ہے تاہم ترنمول سرکار کے خلاف anti-incumbency کی کوئی لہر نظر نہیں  آرہی ہے۔
 
مجھے مودی جی کے اس دعوے پر حیرت ہوئی کہ بی جے پی ’’بنگال سے بھی جنگل راج‘‘کا خاتمہ کرکے دم لے گی۔ سوال یہ ہے کہ جو چیز موجود ہی نہیں  ہے اس کا وہ خاتمہ کیسے کرسکیں  گے؟بنگال میں  قانون کی حکمرانی ہے۔ صوبے میں  آپ کو کہیں  بھی کسی قسم کا انتشاریابدامنی نظر نہیں  آئے گی۔ کلکتہ کی سڑکوں  پر دن دہاڑے لوگوں  کو گولی نہیں  ماری جارہی ہے اور نہ ہی اضلاع میں  معصوم لڑکیوں  کے گینگ ریپ اور قتل کے واقعات ہورہے ہیں ۔ قتل و غارت گری، دہشت گردی، جنسی جرائم اور ڈکیتی جیسے سنگین جرائم کی شرح یہاں  نسبتاً کم ہے۔نیشنل کرائم ریکارڈ ز بیورو کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے تمام شہروں  میں  کلکتہ وہ شہر ہے جہاں  قابل سماعت جرائم (cognizable offence)سب سے کم ہوتے ہیں ۔NCRB لگاتارچار برسوں  سے کلکتہ کو ملک کے ’’محفوظ ترین شہر‘‘ کا خطاب دے رہا ہے۔ میں  یہ تسلیم کرتا ہوں  کہ اقتدار دائمی نہیں  ہوتا اورہر عروج کا زوال بھی لازمی ہے اسی لئے کسی بھی سیاسی جماعت یا لیڈر کو ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم نہیں  پالنا چاہئے۔ ترنمول کانگریس کو بھی اقتدار سے بے دخل کیا جاسکتا ہے یہ بات ممتا سے بہتر کون جان سکتا ہے جنہوں  نے اپنی انتھک محنت اورثابت قدمی سے۳۴؍ برسوں  سے راج کررہے بایاں  محاذ کو ۲۰۱۱ء میں  اکھاڑ پھینکا تھا۔لیکن ترنمول کانگریس اور بی جے پی دونوں  پارٹیوں  کی تنظیمی طاقت، پارٹی لیڈروں  کی قابلیت اور مقبولیت، ووٹروں  کے موڈاور دیگر زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے مجھے نہیں  لگتا کہ ۲۰۲۶ء میں  بی جے پی بنگال کا قلعہ فتح کرلے گی۔ ہاں  اگر الیکشن کمیشن بہار کی طرح بنگال میں  بھی کوئی چمتکار دکھادے تو پھر بات الگ ہے۔ 
پس نوشت:مودی جی نے اپنی تقریر میں  یہ بھی کہا کہ گنگا ندی بہار سے بہتی ہوئی بنگال جاتی ہے مطلب یہ کہ اسی طرح بی جے پی بھی بہار کے بعد بنگال میں  حکومت بنالے گی۔پتہ نہیں  وزیر اعظم اس بات سے واقف ہیں  یا نہیں  کہ گنگا جب بہار سے مرشد آباد کے راستے بنگال میں  داخل ہوتی تو فرخا میں  وہ دو شاخوں  میں  تقسیم ہوجاتی ہے۔ایک شاخ جو بنگلہ دیش روانہ ہوجاتی ہے اس کا نام پدما ہے اور دوسری شاخ جو بنگال میں  رہ جاتی ہے وہ بھاگیرتھی کہلاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کلکتہ پہنچتے پہنچتے گنگا کا نام ایک بار پھر بدل جاتا ہے اور وہ ہوگلی بن جاتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK