• Sat, 13 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’بھیگے ہوئے پروں سے ہی پرواز کر کے دیکھ!‘‘

Updated: September 13, 2025, 2:36 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

گریٹا تھنبرگ کے حوصلے کی داد دی جانی چاہئے، اتنی کم عمری میں پہاڑ جیسا حوصلہ اس کی پہچان ہے جبکہ وہ آٹیزم کی متاثرہ ہے۔ آج نئی نسل اُسے اپنا آئیکون مانتی ہے بالخصوص وہ کمسن اور نوعمر جو آٹیزم کا شکار ہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

گریٹا  تھنبرگ (تصویر میں  دائیں  سے پہلی) سوچ سکتی تھی کہ غزہ کے لوگوں  کو ظلم و جبر کی جن قیامت خیز حالات سے دوچار کیا گیا، اُس کا افسوس ہے مگر یہ میرے اپنے ملک کے لوگ نہیں  ہیں ؟ اگر مَیں  ملک وقوم کی تفریق سے بالاتر ہوجاؤں  تب بھی میرے اور اُن کے درمیان اتنی مسافت ہے کہ مَیں  چاہ کر بھی اُن کی مدد نہیں  کرسکتی البتہ اپنے جذبۂ ہمدردی کو تسکین پہنچانے کیلئے اتنا کرسکتی ہوں  کہ مختلف ملکوں  کے جو رضاکار امدادی کشتیوں  کے قافلے ’’صمود‘‘میں  شامل ہوکر غزہ کیلئے رخت ِ سفر باندھ رہے ہیں  اُن کی اعانت کروں  اور اُن کی سلامتی کیلئے دُعا کروں ۔ کیا اتنا کردینا کافی نہیں  ہوگا؟ 
 گریٹا کے پیش نظر یہ بھی ہوسکتا تھا کہ اُس کا میدانِ عمل مختلف ہے۔ وہ تحفظ ِ ماحولیات کیلئے سرگرم رہتی ہے اور غزہ کے حالات کا ماحولیات سے کوئی تعلق نہیں  ہے تو کیوں  اتنا دردِ سر مول لے؟ کیوں  نہ ماحولیات کے اپنے مشن پر ہی قائم رہے؟ 
 گریٹا کے دل میں  یہ خیال بھی آسکتا تھا کہ پختہ عمر کے ایسے لوگ ہی اس قافلے میں  شامل ہوں  تو بہتر ہے جنہیں  بحری سفر کا تجربہ ہے، وہ تو ابھی صرف ۲۲؍ سال کی ہے، اتنا طویل بحری سفر اُسے راس آئے نہ آئے۔ خود کو مشقت میں  ڈالنا کیا ضروری ہے؟ 
 سویڈن کی یہ جواں  سال شہری ایسی کئی باتیں  سوچ سکتی تھی۔ کسی مقصد سے وابستہ نہ ہونے کے ہزار بہانے ہوتے ہیں ۔ دُنیا کے بیشتر لوگ خود کو انہی بہانوں  میں  بہا لے جاتے ہیں  اور کسی بڑے مقصد سے وابستگی کی سعادت سے محروم رہ جاتے ہیں  کیونکہ اُنہیں  ایسے مقاصد عزیز ہوتے ہیں  جن سے کوئی فوری فائدہ مل سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر صلاحیتیں  کوئی نقش قائم کئے بغیر بے اثر اور بے فیض ہوکر رہ جاتی ہیں ، لاکھوں  میں  کوئی ایک یا کروڑوں  میں  کوئی ایک ہی عزم، حوصلے، جرأت، بہادری اور کامیابی کی اعلیٰ منزلوں  تک پہنچتا ہے۔ایسا نہیں  کہ قدرت ہر دور میں  کم ہی لوگوں  کو مذکورہ غیر معمولی صلاحیتوں  سے نوازتی ہے۔ قدرت کا فیض تو عام ہے، بہتے دریا کی طرح ہے۔ انسان ہی فیصلہ نہیں  کرپاتا کہ اپنی کون سی صلاحیت کو پروان چڑھائے۔ وہ منفعت کے چکر میں  پھنس جاتا ہے یا پھنسنا پسند کرتا ہے۔ اسی لئے گریٹا، گریٹا ہے۔ وہی گریٹا جو کچھ نہ کرتی تب بھی کسی کو شکایت نہ ہوتی کیونکہ اس کا تعلق آٹیزم کا شکار لوگوں  کے قبیلے سے ہے۔ آٹیزم کی ایک خاص قسم ’’ایسپرجر‘‘ کہلاتی ہے۔ اس کی علامات میں  شامل ہے کہ مریض سماجی میل جول سے کتراتا ہے، ٹھیک سے بات چیت نہیں  کرپاتا، اپنے آپ میں  یا لئے دیئے رہتا ہے، کسی بات میں  دلچسپی نہیں  لیتا اور اس کا رویہ عام لوگوں  سے مختلف ہوتا ہے۔ مگر گریٹا آٹیزم یا ایسپرجر کے متاثرین سے مختلف ہے یا اُس نے خود کو مختلف کیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اُس کی فتوحات کا دائرہ وسیع ہے، بے پناہ ہے، قابل رشک ہے۔
  اُس کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اُس نے کمزوری کو طاقت بنالیا۔ اُسے یہ گلہ نہیں  ہے کہ وہ آٹیزم یا ایسپرجر سے متاثرہ ہے بلکہ اس بات پر ناز ہے کہ وہ وسیع تر انسانی معاشرہ کے بارے میں  سوچتی ہے اور جو کچھ کرسکتی ہے کر گزرنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔  امدادی کشتیوں  کے قافلے صمود کے بارے میں  گزشتہ چند دنوں  میں  جو خبریں  موصول ہوئی ہیں  اُن میں  سے ایک یہ ہے کہ گریٹا جس کشتی میں  سوار ہے اُس پر ڈرون کا حملہ ہوا اَور کشتی میں  آگ لگ گئی۔ دُعا ہے کہ یہ اور اس کے ساتھ سفر کرنے والی تمام کشتیاں  محفوظ رہیں ، منزل مقصود پر پہنچیں  اور امدادی سامان تقسیم کرکے اہل غزہ کو اُس مصنوعی قحط سے بچائیں  جو اُنہیں  زندہ در گور کرسکتا ہے۔ 
 سوال یہ ہے کہ بظاہر ناتواں  دکھائی دینے والی اِس لڑکی میں  ایسا کیا ہے جس سے عالمی طاقتیں  بھی ہراساں  رہتی ہیں ؟ اس سوال پر غو ر کیا جانا چاہئے اور غوروخوض کے بعد یہ نتیجہ نکالنا چاہئے کہ اُس کی طاقت اُس کا مشن ہے۔ اگر وہ تحفظ ِ ماحولیات کیلئے سرگرم ہوئی تو اس کا مقصد بھی نسل انسانی کی حفاظت ہے اور اگر غزہ جانے والے امدادی قافلے میں  شامل ہوئی تو یہ بھی انسانی ہمدردی کے سبب ہے۔  ماحولیات کو غزہ کے حالات سے اور غزہ کے حالات کو ماحولیات سے الگ کرکے نہیں  دیکھا جاسکتا۔ یہاں  بھی گریٹا کی نگاہ انسانیت کے مستقبل پر ہے اور وہاں  بھی۔ 
 یاد کیجئے گریٹا کی بے خوفی اور صحیح سوال پوچھنے کا وہ نظارہ جو اُس وقت دیکھنے کو ملا تھا جب ۲۳؍ ستمبر ۲۰۱۹ء کو اُس نے اقوام متحدہ میں  منعقد کی گئی ’’کلائمیٹ ایکشن سمٹ‘‘ میں  اظہار خیال کیا تھا۔ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ یہ سولہ سال کی طالبہ ہے یا کوہ آتش فشاں  ہے جو لاوا اُگل رہا ہے۔ پورے آڈیٹوریم میں  اُس کی آواز گونج رہی تھی:
 ’’ لوگ مررہے ہیں ، عالمی ماحولیاتی نظام درہم برہم ہونے کو ہے، انسانیت کے نابودہونے کی ابتداء ہوچکی ہے، اس کے باوجود آپ (عالمی لیڈران) پیسے کی بات کرتے ہیں  اور ابدی معاشی نمو کے قصے سناتے ہیں ، آپ نے اپنے خالی خولی الفاظ سے ہمارے خواب اور ہمارا بچپن چرا لیا ہے، اتنی ہمت کیسے ہوئی آپ کی؟‘‘

یہ بھی پڑھئے : راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ۱۰۰؍ سال اور مسلمان

 یہ اتنی طاقتور تقریر تھی کہ لوگوں  کو اُس کا ایک ایک لفظ یاد ہے۔ اُن کی سماعتوں  میں  گریٹا کے الفاظ ’’اتنی ہمت کیسے ہوئی آپ کی؟‘‘ (How Dare You?) آج بھی گونج رہے ہیں ۔ اس تقریر کے ساتھ یوٹیوب پر گریٹا کی وہ ویڈیو موجود ہے جس میں  وہ دیگر ہم عمروں  کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے اور بہت قریب سے صدرِ امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ(صدارت کے پہلے دور میں ) گزر رہے ہیں ۔ اُس نے جس انداز میں  ٹرمپ کو دیکھا وہ منظر تاریخ میں  رقم ہوچکا ہے۔ اُس کے دیکھنے کا انداز بتا رہا ہے کہ وہ ٹرمپ کے سامنے بھی اُتنی ہی برہم ہے جتنی کہ ’’اتنی ہمت کیسے ہوئی آپ کی؟‘‘ والی تقریر میں  تھی۔  یہ ہمت اس لئے پیدا ہوئی کہ اُس کا مقصد فوٹو کھنچوانا نہیں  ہے، واہ واہی نہیں  ہے، کوئی منصب حاصل کرنا یا منفعت کشید کرنا نہیں  ہے۔ اُس کا مقصد وہی ہے جس کے حوالے سے وہ پوری دُنیا میں  مشہور ہوئی اور جس کی ابتداء ’’فرائیڈے فار فیوچر‘‘ سے ہوئی تھی۔ 
 گریٹا کیلئے ٹرمپ کے توصیفی الفاظ ریکارڈ پر ہیں  مگر اُس نے اُن جملوں  کا کوئی اثر نہی لیا اور ثابت کردیا کہ اپنے مشن کیلئے سرگرم رہنے والے کھلونے دے کے بہلائے نہیں  جاسکتے ۔ 

gaza strip Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK