Inquilab Logo Happiest Places to Work

سون بھدر اور بارہ ماسی کہلانے والی سوہن ندی

Updated: July 07, 2025, 2:00 PM IST | sarwarul-huda | Mumbai

غالب کا وہ فارسی قطعہ جس میں عظیم آباد کی آب و ہوا کی تعریف کے ساتھ سون ندی کے پانی کی تعریف کی گئی ہے، اسے اتنی مرتبہ پڑھا ہے کہ جیسے سون ندی گنگا سے مل کر میرے گھر تک آگئی ہو۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

ندی کا خیال نہ تو حلق کو تر کر سکتا ہے اور نہ آنکھوں  کی خشکی نمی میں  تبدیل ہو سکتی ہے۔ پھر بھی ندی کا خیال خُشک موسم کا خیال نہیں  ہے۔ ندی خیال کے ساتھ آنکھوں  کے راستے وجود میں  داخل ہو جاتی ہے۔ وہ کیسے لوگ ہیں  جنہیں  ندی کا خیال پانی کی تقسیم کے ساتھ آتا ہے۔ پانی کا خیال نہ طبیعت کے خشک موسم کو تبدیل کرتا ہے اور نہ دل نرم ہوتا ہے۔ پانی کی تقسیم دراصل پانی کی سیاست ہے۔ میں  اس وقت جہاں  ہوں ، وہاں  سے وہ مقام ۱۲۰؍ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جہاں  سون ندی گنگا سے مل جاتی ہے۔ غالب کا وہ فارسی قطعہ جس میں  عظیم آباد کی آب و ہوا کی تعریف کے ساتھ سون ندی کے پانی کی تعریف کی گئی ہے، اسے اتنی مرتبہ پڑھا ہے کہ جیسے سون ندی گنگا سے مل کر میرے گھر تک آگئی ہو۔ یہ گھر انسانی وجود بھی ہو سکتا ہے۔ غالب کا قطعہ ہے:
گفتمش چوں  بود عظیم آباد
گفت رنگین تراز فضائے چمن
گفتمش سلسبیل خوش باشد
گفت خوشتر نباشد از سوہن
(پوچھا کہ عظیم آباد کیسا تھا، کہا (جواب دیا) کہ چمن کی فضا سے زیادہ رنگین۔ پوچھا کہ کیا جنت کی نہر سلسبیل کیسی تھی، کہا کہ اتنی اچھی نہیں  جتنی کہ سوہن)
 سوہن کو حلوہ سوہن سمجھنے کی بھی غلطی کی گئی۔پہلی مرتبہ اس کی طرف یگانہ نے توجہ دلائی تھی کہ یہ سون ندی ہے۔ کلکتہ جاتے ہوئے غالب عظیم آباد سے گزرے اور لازماً انہوں  نے اس ندی کا پانی پیا ہوگا۔ یہ پانی صرف سون ندی کا نہیں  بلکہ گنگا کا بھی تھا۔ میرے گھر سے گنگا بہت قریب ہے لیکن اس میں  سون ندی کا پانی بھی ملا ہوا ہے۔ سون ندی مدھیہ پردیش کے امر کنٹک پہاڑی کے قریب سے نکلتی ہے اور پٹنہ کے پاس گنگا میں  مل جاتی ہے۔ یمنا کے بعد یہ دوسری ایسی ندی ہے جو گنگا کی معاون ندی کہی جاتی ہے۔ کسی ندی کا معاون ندی ہونا ایک انسانی اور اخلاقی جہت کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ یہ معاونت اضافے کی بھی ہے اور اضافے کے بعد اس طغیانی کی بھی جس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں ۔ دو ندیاں  جب ملتی ہیں  تو ان کی ہلکی اور تیز لہریں  ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں ۔ اس آواز کو نہ صرف سنا جا سکتا ہے بلکہ محسوس بھی کیا جا سکتا ہے۔ ٹکراؤ کا شور بھی ایک ترنم ہے۔ اس احساس کا تعلق دو مختلف سمتوں  کی لمبی مسافت طے کرنے والے مسافر سے ہے۔ جیسے کہ پانیوں  نے ملنے کے لیے ہی سفر کا آغاز کیا تھا۔ پانیوں  کو دیکھ کر مسافروں  کا خیال آتا ہے۔ لہروں  سے ابھرنے والی یہ آواز کہتی ہے کہ ملنا ابتدا میں  ٹکراؤ ضرور ہے مگر یہ ایک دوسرے میں  ضم ہو جانے کا وسیلہ بھی ہے۔
 سون ندی کا پانی جو پیلا اور ہلکا لال ہے وہ گنگا سے ملنے کے بعد مٹی مٹی جیسا یا مٹ میلا ہو جاتا ہے۔ رنگ کی یہ تبدیلی کتنی فطری معلوم ہوتی ہے۔ سنگم پر ندیوں  کا شور زندگی کا شور ہی تو ہے۔ پانی کا بہاؤ، ندیوں  کی شکل جغرافیہ اور سنگم کا مقام ان سب کے ساتھ لہروں  کا ایک گہرا تعلق ہے۔سون ندی اور گنگا کا سنگم قدیم ہندوستان کی تاریخ کو سمجھنے کا ایک وسیلہ بھی ہے۔ ٹھہرے ہوئے اور بہتے ہوئے پانی کو دیکھنے کا تجربہ اسی لیے بہت مختلف ہے۔ ہمارے شاعروں  کو آنکھوں  کی خشکی اور نمی کا خیال دریا کے ساتھ یوں  ہی تو نہیں  آیا تھا۔ سون ندی کو بارہ ماسی بھی کہا گیا اور برساتی بھی۔ اس کا پرانا نام سوہن بھی ہے اور سون بھدر بھی۔ پرانی کتھاؤں  کے مطابق برہمہ جی کی ریاضت کے بعد ان کی آنکھوں  سے دو دھارائیں  نکلیں ، ان میں  سے ایک سون ندی کہلاتی ہے ۔میرؔ کا شعر یاد آتا ہے:
کیا جانے چشم تر سے ادھر دل پہ کیا ہوا
کس کو خبر ہے میر سمندر کے پار کی
 رامائن میں  رام جی کو سون ندی پار کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ روایت بھی ہے کہ راجہ سہستراجن اپنی رانیوں  کے ساتھ سون ندی میں  نہانے گئے تھے اور اس کی لہریں  تھم سی گئی تھیں ۔ مشہور ادیب بان بھٹ نے سون ندی کے تٹ پر ۱۴؍ سال گزارے تھے۔ یہ وہی بان بھٹ ہیں  جن پر ہندی کے ادیب ہزاری پرساد دویدی نے’’بان بھٹ کی ڈائری‘‘ کے نام سے ایک ناول لکھا۔
سون ندی کو سونے کی ندی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی ریت کا رنگ سونے جیسا ہے۔ منیر نیازی کا شعر یاد آتا ہے۔
اس شہر کے یہیں  کہیں  ہونے کا رنگ ہے
اس خاک میں  کہیں  کہیں  سونے کا رنگ ہے

یہ بھی پڑھئے : بی جے پی کا نظریۂ انسان دوستی اور مغرب سے اختلاف

ہونے اور سونے کے درمیان کہیں  نیند سے بوجھل آنکھیں  خوابیدہ دکھائی دیتی ہیں ۔ سون ندی کی سونے جیسی ریت مکان کی تعمیر میں  استعمال کی جاتی ہے۔ اسے مقامی زبان میں  ’’ للکی‘‘ مٹی بھی کہا جاتا ہے۔ یونانی تاریخ داں  میگستھنیز نے اپنی کتاب’’انڈکا‘‘ میں  سون ندی کا ذکر کیا ہے۔ اس کے مطابق سون ندی میں  سونے کے ذرات پائے گئے ہیں  اسی لیے اس کا نام سون ندی ہے۔
 کوئلور پل پٹنہ اور آرہ کے درمیان ہے۔ اس پل سے گزرتے ہوئے کئی دہائیاں  گزر گئیں ۔ اس پل سے گزرتے ہوئے ٹرین کی رفتار کبھی تیز ہو جاتی ہے تو کبھی سست۔ کنارے پر کبھی وہ ریت دکھائی دیتی ہے جس کا رنگ سونے کا ہے۔ یہ پل ۱۸۶۲ء میں  بن گیا تھا۔ ان تاریخی حقائق کے ساتھ میرے ذہن میں  وہ مقام گردش کر رہا ہے جہاں  گنگا سون ندی سے مل جاتی ہے۔ یہ صرف دو ندیوں  کا ملنا نہیں  بلکہ ان ندیوں  کا پانی بھی اس میں  شامل ہے جنہیں  گنگا کی معاون ندیاں  کہا جاتا ہے۔ ندیوں  کا پانی آپس میں  مل کر جس وحدت کا ثبوت پیش کرتا ہے اس کی اہمیت ہمارے زمانے میں  کچھ زیادہ ہو گئی ہے۔ مختلف ندیاں  مختلف مقامات کی آب و ہوا کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھتی ہیں ، اور انہیں  جغرافیائی حد بندیوں  کا خیال بھی نہیں  آتا۔ ندیوں  کو جغرافیائی حد بندیوں  کا خیال آ بھی نہیں  سکتا تھا۔ اب بھی نہیں  آتا۔ پانی کا یہ بہاؤ انسانی زندگی اور انسانی تہذیب کا بہاؤ ہے۔ ابتدا ہی سے سون ندی کے قریب بسنے والوں  کی زندگیاں  اس کے پانی سے سیراب ہوتی رہی ہیں ۔ لوگوں  نے زندگی کے وسائل کی تلاش میں  سون ندی کی طرف دیکھا۔ کھیت کی زمین اسی پانی سے سیراب ہوئی۔ غالب نے جب پہلی مرتبہ سون ندی کو دیکھا ہوگا تو اس کی صورت اور کیفیت یقیناً آج سے مختلف ہوگی۔ گنگا کا سون ندی میں  آ کر مل جانا، زندگی کی وسعت کا استعارہ بھی ہے۔ ندیوں  پر گفتگو کرتے ہوئے ذہن کا کشادہ ہو جانا کتنا فطری ہے مگر اب صورتحال تبدیل ہو گئی ہے۔ غالب کے فارسی قطعہ سے سون ندی کے بارے میں  کچھ سوچنے اور لکھنے کی تحریک ملی مگر اب جو کچھ کہنا ہے وہ تو غالب کے قطعہ ہی کو کہنا ہے۔

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK