• Sat, 01 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اُردو کے معترف بھی، اُردو سے منحرف بھی!

Updated: November 01, 2025, 1:59 PM IST | Shahid Latif | mumbai

آئندہ ہفتے (۹؍ نومبر کو) یوم اُردو منایا جائیگا۔ اس موقع کی مناسبت سے اس کالم میں دو مضامین شائع ہونے ہیں جن میں سے پہلا مضمون حاضر خدمت ہے۔ اس میں مضمون نگار نے اہل اُردو کی توجہ چند بنیادی باتوں پر مرکوز کرنے کی کوشش کی ہے۔

INN
آئی این این
اگر  مَیں  کہوں  کہ آج سے آٹھ دن بعد، ۹؍ نومبر کو، یوم اُردو کیوں  منایا جائے تو ’’کیوں  منایا جائے؟‘‘ بہ معنی ’’کیا ضرورت ہے منانے کی؟‘‘ پر آپ یا تو حیرت کرینگے یا اس سوال کو ناپسند کرینگے یا میرے محب ِ اُردو ہونے پر شک کرینگے۔ بہت ممکن ہے کوئی صاحب اُردو دشمنی کا الزام عائد کردیں ۔ مگر آپ سوچئے کیا ضرورت رہ جائیگی ۹؍ نومبر کو یوم اُردو منانے کی اگر اہل اُردو اس دِن عہد کرلیں  کہ یوم اُردو سال میں  ایک دِن نہیں ، سال کے تین سو پینسٹھ دن منائینگے، روزانہ منائینگے اور لیپ ایئر میں  اظہارِ افسوس کرینگے کہ فروری کے ۲۸؍ دن ہونے کی وجہ سے۳۶۴؍ دن ہی میسر آئے۔ کیا اہل اُردومیں  اپنی زبان سے درجۂ کمال کو پہنچی ہوئی ایسی محبت ہوسکتی ہے؟ 
اس مضمون نگار کا مشورہ یہی ہے کہ صرف ایک دن نہیں ، سال بھر یوم اُردو منایا جائے۔ یہ جذبہ پیدا ہوجائے تو اِس زبان کی قسمت سنور نے میں  زیادہ وقت نہیں  لگے گا۔ تب اِس کے بولنے، لکھنے، پڑھنے اور اسے ترقی دینے والوں  کی ایسی نسل منظر عام پر آئیگی جو اُردو سے دلچسپی اور محبت کے ایک سے بڑھ کر ایک ثبوت پیش کریگی۔ کوئی کہے گا وہ فیروز اللغات کا حافظ ہے، کوئی اطلاع دے گا کہ وہ نئی تکنالوجی کی تمام اصطلاحات کو، جو انگریزی ہیں ،  اُردو کے قالب میں  ڈھال رہا ہے جس کیلئے ایک لسانی کمیٹی بنائی گئی ہے، کوئی بتائیگا کہ وہ معاشی الفاظ اور اصطلاحات کے اُردو متبادل وضع کرنے میں  مصروف ہے، کوئی یہ دلخوش کن خبر دیگا کہ وہ اُردو الفاظ کو نئی تکنالوجی بالخصوص اے آئی سے ہم آہنگ کرنے کیلئے وہ کام کررہا ہے جو آج تک نہیں  ہوا، کوئی بتائے گا کہ وہ سال میں  کم از کم پانچ سو غیر اُردو داں  حضرات کو اُردو سکھاتا ہے، کوئی اس بات پر خوشی کا اظہار کریگا کہ بحیثیت معلم اُس نے جن طلبہ کو اُردو پڑھائی اُنہیں  اشعار کی تقطیع آتی ہے، وہ شعری اصناف سے واقف ہیں ، صنائع و بدائع جانتے ہیں ، مشکل اشعار کی تشریح کی صلاحیت رکھتے ہیں ، مثنوی اور مرثیہ کے فرق سے واقف ہیں  اور مثنوی کو ’’مصنوعی‘‘ نہیں  بولتے۔ 
تب نہ تو غلط تلفظ ادا کرنے والے ملیں  گے نہ ہی غلط املا لکھنے والے، تب نہ تو اُردو کا طالب علم خو دکو اسٹوڈنٹ کہے گا نہ ہی اُردو کا معلم خود کو ٹیچر۔ تب اُردو معاشرہ کے افراد اپنی نئی نسل کو ابتدائی تعلیم مادری زبان ہی میں  دلوائیں گے، اس کیلئے وہ ویسی ہی تگ و دو کرینگے جیسی آج انگریزی ذریعۂ تعلیم کے مدارس میں  داخلے کیلئے کرتے ہیں ۔ تب اُردو مدارس کی مانگ بڑھ جائیگی اور جو انتظامیہ اُردو بند کرکے انگریزی ذریعۂ تعلیم شروع کرچکے تھے، وہ پچھتائیں  گے اور دوبارہ اُردو ذریعۂ تعلیم کی طرف مراجعت کرینگے۔ جس منفعت کیلئے اُنہوں  نے اُردو سے منہ موڑا تھا، اب وہی منفعت اُنہیں  اُردو میں  نظر آئیگی۔ کیا ماضی میں  ایسا ہوا نہیں  ہے؟ ۸۰۔۹۰ء کی دہائی نے غزل کے دن پلٹتے ہوئے دیکھے تھے۔ غزل گانے والوں  کی پوری کھیپ منظر عام پر تھی اور گلوکاری اور موسیقی کے شیدائی فلمی نغموں  کو بھول کر غزل کی محفلوں  میں  سر دُھن رہے تھے۔ ان میں  غیر اُردو داں  حضرات کی کثرت تھی۔ وہی حال آج ہے۔ ’’جشن ریختہ‘‘ میں  اُردو والوں  سے زیادہ غیر اُردو داں  ہوتے ہیں ۔ زبان کی چاشنی اور شگفتگی اُنہیں  اُردو محفل میں  کھینچ لاتی ہے۔ اس طرح، آج اُردو فیشن ہے، کون جانتا ہے کہ کل پیشنبن جائے۔ 
اس کے باوجود اگر آپ کہیں  کہ اُردو کے اچھے دن آنا انہونی ہے تو ایسا کہنا غلط نہیں ۔ مَیں  بھی کہتا ہوں  کہ انہونی ہے مگر کیا دُنیا میں  کسی انہونی کو ’’ہونی‘‘ کا درجہ نہیں  ملتا؟ یہ بھی سوچئے کہ کیا خوش گمان رہنا، بدگمان رہنے سے بہتر نہیں  ہے؟ پُراُمید رہنا اچھا ہے یا مایوس ہوجانا؟ اور اگر مایوس ہی ہونا ہے تو کوشش کرکے مایوس ہونا چاہئے یا بغیر کوشش کے؟ کتنے لوگ ہیں  جنہیں  تحفظ ِ اُردو کی فکر ہے؟ مَیں  اس کے اسباب پر سوچتا ہوں  تو درج ذیل باتیں  ذہن میں  آتی ہیں :
اہل اُردو کہتے نہیں  ہیں  مگر اُن کے دل میں  کہیں  نہ کہیں  یہ بات موجود ہوتی ہے کہ اُردو کیا دیتی ہے؟ کیا روزگار دیتی ہے؟ کیا مالی فائدہ  کا ذریعہ ہے؟ کیا سماجی عزت بڑھاتی ہے؟ اُن کا ذہن پڑھنے کی کوشش کیجئے تو علم ہوگا کہ اُن کے نزدیک اِن سوالوں  کا جواب نفی میں  ہے۔ اسی لئےو ہ انگریزی سے لوَ لگاتے ہیں  اور ٹوٹی پھوٹی یا غلط سلط ہی سہی، انگریزی بول کر اپنا قد بلند کرنا چاہتے ہیں ، اپنے بچوں  کو انگریزی مدارس میں  داخل کرتے ہیں  اور اہل خانہ سے گفتگو کے دوران انگریزی الفاظ کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں ۔ 
اُردو معاشرہ کے پروردہ وہ لوگ جو اعلیٰ تعلیم ہیں ، خوشحال ہیں  اور اُردو کا درد بھی رکھتے ہیں  وہ بھی اُردو سے گریزاں  رہتے ہیں  کیونکہ اُن کے خیال میں  اُردو صرف شعر و ادب کی زبان ہے۔ کیا ایسا ہے؟ یا چہار جانب شعر و ادب کی محفلیں  برپا ہونے سے یہ تاثر عام ہوگیا؟ 
اکثر اہل اُردو یہ سمجھتے ہیں  کہ اُردو میں  تعلیم حاصل کی جائے تو اعلیٰ ملازمت کی راہ مسدود ہوجاتی ہے۔ کیا ایسا ہے؟ آخر اس حقیقت سے کیوں  منہ چرایا جائے کہ معاشرہ میں  اُردو پڑھ کر اعلیٰ مناصب تک پہنچنے والوں  کی مثالیں  کم نہیں  ہیں  اور انگریزی پڑھنے کے باوجود کہیں  کے نہ رہنے والوں  کی آبادی بھی اچھی خاصی ہے۔  انسان کو آگے بڑھنا ہے تو اُردو پڑھ کر بھی آگے بڑھ سکتا ہے اور انگریزی پڑھ کر بھی۔ اُسے ناکارہ رہنا ہے تو اُردو پڑھ کر بھی رہ سکتا ہے اور انگریزی پڑھ کر بھی ۔ 
اہل اُردو، غلط یا صحیح، یہ تو سوچتے ہیں  کہ اُردو اُنہیں  کیا دیتی ہے، مگر یہ نہیں  سوچتے کہ وہ اُردو کو کیا دیتے ہیں ۔ وہ اس خام خیالی میں  مبتلا تو رہ سکتے ہیں  کہ اُردو سے سماجی رُتبہ نہیں  بڑھتا مگر وہ یہ نہیں  دیکھتے کہ کئی شخصیات کا سماجی رُتبہ اُردو کی وجہ سے بلند ہے، زمانہ اُن پر رشک کرتا ہے۔ سال بھر یوم اُردو منانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اہل اُردو، اُردو کو اپنے باہر دیکھنے کے بجائے اپنے اندر دیکھنا شروع کریں ، اپنی ذات میں ، گھر میں ، خاندان میں ، نئی نسل میں  اور روزمرہ کی گفتگو میں ۔ اگر وہاں  اُردو ہے تو یہ امر باعث اطمینان ہے۔ اگر وہاں  نہیں  ہے تو باعث تشویش ہے۔ اب سے ۵۰؍ سال پہلے اُردو سے مایوس ہوکر اپنے بچوں  کو انگریزی تعلیم دلوانے والوں  نے دیکھ لیا کہ اُردو آج بھی ہے اور کہہ رہی ہے کہ مَیں  تو رہوں  گی، آپ میرے ساتھ رہیں  گے یا نہیں  یہ آپ کا فیصلہ ہے۔
urdu news Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK