• Sat, 08 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’دے اور دِل اُن کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور‘‘

Updated: November 08, 2025, 1:19 PM IST | Shahid Latif | mumbai

کل یوم اُردو منایا جائیگا۔ اس موقع کی مناسبت سے اس کالم کیلئے دو مضامین کی اطلاع دی گئی تھی، حسب اعلان یہ دوسرا مضمون حاضر ہے جس میں مضمون نگار نے اُردو زبان کو اُس کے رسم الخط کے ساتھ زندہ رکھنے پر اصرار کیا ہے۔

INN
آئی این این
گرشتہ ہفتے اس کالم میں  یوم اردو (جو ہر سال۹؍ نومبر کو منایا جاتا ہے) کی مناسبت سے یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ یہ دن سال میں  ایک مرتبہ نہیں ، سال بھر منایا جانا چاہئے۔ کوئی کہہ سکتا ہے، اور کہے تو قطعی تعجب خیز نہ ہوگا کہ یہ احمقانہ مشورہ ہے۔ بلاشبہ ہے کیونکہ کسی چیز سے منسوب کوئی دن سال میں  ایک بار منایا جاتا ہے سال بھر نہیں  مگر ایک خاص مقصد کے پیش نظر کسی احمقانہ عمل کو عاقلانہ عمل بنایا جا سکتا ہے، تحفظ اردو کیلئے احمق بننے میں  کیا حرج ہے؟ ہر اہل اردو اپنی گرہ میں  باندھ لے کہ اسے کچھ کرنا ہے اور وہ تحفظ اُردو کیلئے روزانہ کوئی کارخیر انجام دے تو کوئی احمق ہی ہوگا جو اُسے احمق کہے گا؟ 
’’کچھ کرنا ہے یعنی کیا؟‘‘ یہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر راستے سے پتھر ہٹانے سے لے کر انفاق کی راہ پر چلتے ہوئے کسی کے سر سے قرض کا بارِ عظیم اتار دینے تک ہر کام دینی نقطہء نظر سے نیکی ہے تو اردو کا ایک لفظ زندہ کرنے سے لے کر سال بھر میں  پانچ دس لوگوں  کو اردو رسم الخط سکھانے یا دس بیس لوگوں  کو اردو کی رغبت دلانے تک ہر کام تہذیبی اعتبار سے نیکی ہے۔ جب یہ جذبہ پیدا ہو جائیگا اور یہ دھن سوار ہو جائیگی کہ اپنی زبان کیلئے کچھ کرنا ہے تو اس کام میں  مصروف ہر شخص کیلئے سال کا ہر دن یوم اردو ہوگا۔ کیا نہیں  ہوگا؟
سوال یہ ہے کہ یہ باتیں  کیوں  اہم ہیں ؟ 
اس لئے کہ اردو کی حفاظت اور اس کی ترویج ممکن ہے تو صرف اہل اردو کے ذریعہ، جن میں  کم تعداد میں  ہی سہی دیگر مذاہب کے دلدادگانِ اُردو بھی شامل ہیں ۔ اُنہیں  اداروں ، سرکاری محکموں ، سیاسی عنایتوں ، صحیح غلط شعر سنا کر محفل لو‘ٹ لینے والوں  اور اُردو کی تعریف میں  چند جملے کہہ کر اہل اُردو کو باغ باغ کردینے والوں  اور کرائے کے سرپرستوں  سے اُمید وفا رکھنے کے رجحان کو ختم کرنا ہوگا۔دوسروں  پر انحصار اہل اُردو کو اپنے فرض سے غافل کرتا رہا ہے۔ 
یاد رہے کہ ہم جو زبان بولتے ہیں ، جو ہماری زبان ہے، مادری زبان ہے، اس کا ہم پر قرض ہے۔ کون سا قرض؟ جب ہم نے بولنا شروع کیا تھا تب پہلا لفظ جو ہمارےلبوں  پر آکر روشنی بکھیر گیا تھا وہ مادری زبان کا لفظ تھا۔ پھر ہماری نشو و نما ہوتی رہی اور ہمارا ذخیرۂ الفاظِ اُردو بھی وسیع ہوتا گیا، پھر ہم پورا جملہ ادا کرنے کے قابل ہوئے اور اپنا مدعا بیان کرنے لگے۔ ایسے ہر عمل میں  ہمارا ساتھ کس نے دیا؟ ظاہر ہے کہ مادری زبان نے دیا۔ اس نے ہم پر احسان کیا۔ پھر ہم درس گاہ میں  داخل کئے گئے اور علم سیکھنے لگے۔ کون ذریعہ بنا؟ ظاہر ہے مادری زبان بنی۔ پھر ہم کسی قابل ہوگئے، اظہار خیال کرنے لگے، مجمع سے خطاب کرنے لگے، اپنی خوش گفتاری سے مخاطب کو متاثر کرنے لگے یا اچھے بُرے لوگوں  میں  بیٹھ کر کسی موضوع میں  شریک ہونے لگے۔ ہمیں  یہ طاقت ِ اظہار کس نے عطا کی؟ ظاہر ہے مادری زبان نے عطا کی۔ کیا یہ سب مادری زبان کا احسان نہیں  ہے؟
زبان نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟ اس مضمون نگار نے ا س کا جواب اپنی ایک نظم کے ان مصرعوں  میں  دیا تھا: ’’ زبان نہ ہوتی تو جنبش لب محال ہوتی/ زباں  نہ ہوتی تو کائنات اک سوال ہوتی/ 
زباں  نہ ہوتی تو لفظ و معنی میں  ربط ہوتا نہ جان ہوتی /
 زباں  نہ ہوتی تو کس کے منہ میں  زبان ہوتی؟
اس پس منظر میں  غور کیجئے کہ زبان کیا ہے؟ زبان محسن ہے، احسان کرنے والی۔ مادری زبان کا پہلا لفظ اپنی زبان سے ادا کرنے سے لے کر آج تک ہم اس زبان کے احسان تلے یا قرض تلے دبے ہوئے ہیں  مگر جب احسان چکانے یا قرض ادا کرنے کا سوال آتا ہے تو ہم کنی ّکاٹنے لگتے ہیں ، بغلیں  جھانکنے لگتے ہیں  یا زبان سے اقرار مگر دل اور عمل سے انکار کرتے ہیں ۔ ذرا سوچئے اُن لوگوں  نے اس احسان کا کیا بدلا چکایا جنہوں  نے خود اُردو کا زینہ استعمال کرکے اپنا قد اونچا کیا، اُردو کے سبب روزگار حاصل کیا، اچھی تنخواہ پاتے رہے مگراپنے بچوں  کو اُردو سے دور کردیا۔ اُردو شاعروں ، ادیبوں ، دیگر فنکاروں ، فلمسازوں  اور ایسے ہی کئی محبانِ اُردو نے بھی اپنی نئی نسل کو انگریزی سکھائی۔ انگریزی سکھا کر انہوں  نے بُرا نہیں  کیا مگر اُردو نہ سکھا کر اچھا نہیں  کیا۔ کیا اُردو اُنہیں  معاف کردے گی؟ 
 
اہل اُردو کو یاد رکھنا چاہئے کہ سیاست اس زبان کو اکا دکا ریاستوں  میں  دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے سے زیادہ پورے ملک میں  عملاً ’’مسلمانوں  کی زبان‘‘ کا درجہ دے چکی ہے۔ اس سلسلے کی یہ ستم ظریفی دیکھئے کہ سیاست کہہ رہی ہے کہ یہ مسلمانوں  کی زبان ہے اور مسلمانوں  کی اکثریت کہہ رہی ہے کہ یہ ان کی زبان نہیں  ہے (بنگالی مسلمان، گجراتی مسلمان، تمل مسلمان، کنڑ مسلمان وغیرہ کو دیکھئے جن میں  سے اکثر کی مادری زبان اُردو نہیں ، علاقائی زبان ہے)۔ یہ بھی ستم ظریفی ہی ہے کہ ہم (اہل اردو) کہتے ہیں ، ہر محفل میں  کہتے ہیں ، کہ یہ سب کی زبان ہے مگر سب یہ نہیں  کہتے کہ یہ ہماری زبان ہے۔ ادھر پندرہ بیس برس میں ، خاص طور پر میڈیا اور سوشل میڈیا کی وجہ سے، اُردو کی مقبولیت اس حد تک بڑھی ہے کہ یقین نہیں  آتا مگر جو ’’نو وابستگانِ اردو‘‘ ہیں  وہ دلدادگانِ اُردو ہونے کے باوجود اُردو رسم الخط کے شیدا نہیں ۔ وہ دیوناگری میں  اُردو پڑھنا چاہتے ہیں  جبکہ اُردو رسم الخط کے بغیر اور رسم الخط اُردو کے بغیر ایسے ہیں  جیسے ندی پانی کے بغیر اور پانی ندی کے بغیر۔ ندی میں  پانی کو دیکھئے کتنی سہولت سے بہتا ہے! اُردو بھی اپنے رسم الخط ہی میں  ایسی ہی سہولت محسوس کرتی ہے۔ اس کی جان رسم الخط میں  ہے اور رسم الخط کی جان اہل اُردو کے اس عزم میں  ہونی چاہئے کہ مادری زبان کی حفاظت رسم الخط کے ساتھ کرینگے اور خود کرینگے، کسی پر تکیہ کئے بغیر، اس کے ساتھ ہی اُردو کا شغف رکھنے والوں  کو اُردو رسم الخط کی اہمیت سے واقف کرائینگے اور اس کی باریکیاں  سمجھائیں  گے۔ اُنہیں  بھی یہ جان کر خوشگوار احساس ہوگا کہ ’’مزاج‘‘ کی اصل روح ’’ز‘‘ میں  ہے، قاف کو حلق سے ادا کرنا کیسا ہوتا ہے، غین اور گاف میں  کیا فرق ہے اور الف اور عین میں  کیا فرق۔ مگر دوسروں  تک پہنچنے سے پہلے اپنے آپ تک پہنچنا ضروری ہے اس لئے اس مضمون کا اختتام بھی سابقہ مضمون کے اختتامیہ جملوں  سے کیا جاتا ہے کہ ’’اہل اُردو، اُردو کو اپنے باہر دیکھنے کے بجائے اپنے اندر دیکھنا شروع کریں ، اپنی ذات میں ، اپنے گھر میں ، اپنے خاندان میں ، نئی نسل اور اپنی گفتگو میں ‘‘ ۔
urdu books Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK