• Fri, 07 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کابل میں بھارت کا سفارتی مشن

Updated: November 07, 2025, 3:02 PM IST | shamim Tariq | mumbai

بھارت کی حکومت افغانستان کے عوام کی ایک زمانے سے مدد کر رہی ہے اس نے اس ملک یا اس ملک کے عوام سے پایا کچھ بھی نہیں ہے۔ اب اگر بھارت کی حکومت کابل میں اپنے سفارتخانے کے ذریعہ افغان عوام کو فائدہ پہنچاتی اور ان سے یا ان کے ملک کے وسائل سے فائدہ اٹھاتی ہے تو اس میں برا کچھ نہیں ہے۔

INN
آئی این این
گزشتہ مہینوں  اور برسوں  میں  آپ نے انقلاب کے اس کالم میں  ایک دو مضامین افغانستان اور طالبان کے بارے میں  بھی پڑھے ہوں  گے۔ ایک دو مخلص قارئین نے ان پر اعتراض بھی کیا مگر یہ جواب سن کر خاموش ہوگئے کہ میں  بھارتی ہوں ، بھارت کا مفاد ہی میرا مفاد ہے اور کیا کوئی ایسا شخص جو اپنے مفاد پر ملک کے مفاد کو مقدم رکھتا ہو، افغانستان اور طالبان سے چشم پوشی کرسکتا ہے؟ شاید نہیں ۔ ہم بھارتیوں  کو جہاں  یہ احساس ہے کہ طالبان حکومت میں  آزادیٔ نسواں  کا پاس نہیں  رکھا گیا ہے اور لڑکیوں  کی تعلیم کو خاص طور سے نقصان ہوا ہے وہیں  یہ احساس بھی ہے کہ افغانستان جو کبھی برما، سری لنکا، پاکستان اور بنگلہ دیش کی طرح اکھنڈ بھارت کا حصہ تھا ہمیشہ بھارت کا دوست رہا ہے۔ افغان عوام صدیوں  سے بھارت آتے جاتے اور یہاں  بستے رہے ہیں ۔ اپنی پگڑی، وضع قطع اور بولی کے تحفظ کے ساتھ انہوں  نے بھارتی مفاد کو ٹھیس کبھی نہیں  پہنچائی ہے۔ طالبان نے امریکہ اور روس جیسی طاقتوں  کو شکست دی، اپنی حکومت تشکیل دی اور اب افغانستان کی تعمیر نو میں  مصروف ہیں ۔ دنیا کے کئی ملکوں  نے طالبان حکومت کو براہ راست یا بالراست تسلیم بھی کیا ہے۔ طالبان نے مصنوعی نہر کی تعمیر کو ایک خاص منزل تک پہنچایا ہے۔ اس منصوبے کے کامیاب ہوجانے کے بعد اس پہاڑی ملک میں  پھول کھلیں  گے اور اناج اگے گا۔ چین سے اس کی قربت چھپی نہیں  ہے۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ ہماری قربت زیادہ ہو۔
طالبان نے ماضی میں  کیا کیا، بھارت میں  کس طرح لفظ ’طالبان‘ کو گالی بنانے کی کوشش کی گئی اور طالبان کے بارے میں  دنیا کیا کہتی ہے، یہ سب جانتے ہوئے بھی بھارتی حکومت نے کابل شہر میں  اپنے ٹیکنیکل مشن کو جس طرح سفارتخانے کا درجہ دیا وہ قابلِ تعریف ہے۔ اس سے بھارت افغانستان دوستی کو تقویت حاصل ہوگی۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ بھارت کو اپنے مفادات کے حصول میں  مدد ملے گی۔ بھارت کی حکومت افغانستان کے عوام کی ایک زمانے سے مدد کر رہی ہے اس نے اس ملک یا اس ملک کے عوام سے پایا کچھ بھی نہیں  ہے۔ اب اگر بھارت کی حکومت کابل میں  اپنے سفارتخانے کے ذریعہ افغان عوام کو فائدہ پہنچاتی اور ان سے یا ان کے ملک کے وسائل سے فائدہ اٹھاتی ہے تو اس میں  برا کچھ نہیں  ہے۔ برائی پاکستان اور افغانستان کے رشتے میں  ہے۔ ان دونوں  ملکوں  میں  یوں  تو تاریخ کے ہر دور میں  تنا تنی رہی مگر ۲۰۲۱ء میں  طالبان کے دوبارہ اقتدار میں  آنے کے بعد ان کے درمیان کشمکش میں  اضافہ ہوا ہے۔ اِس کی تازہ مثال وہ جھڑپ تھی جو دونوں  ملکوں  میں  جانی، مالی اور فوجی نقصان کا سبب بنی۔ افغانستان کے تین کرکیٹر بھی نشانہ بنے، اس کے بعد قطر میں  دونوں  ملکوں  نے گفتگو کے بعد امن کی راہ اپنائی مگر ان کے زخم اتنی جلد بھرنے والے نہیں  ہیں ۔ اس کا اندازہ ان کے بیانات و اعتراضات سے بھی ہوتا ہے۔ پاکستان کہتا ہے کہ اس نے ۱۰؍ دن میں  افغانستان پر کئی حملے کئے اور دہشت گردوں  کے خیموں  یا اڈوں  کو نشانہ بنایا۔ دنیا پوچھتی ہے کہ اگر یہ دعویٰ صحیح ہے تو افغان کرکیٹر کس طرح موت کا شکار ہوئے؟ افغانستان میں  تو اور زیادہ غصہ ہے۔ اس کے کرکٹ بورڈ نے اعلان کر دیا کہ اگلے مہینے پاکستان میں  جو میچ ہوگا اس میں  افغان کھلاڑی شریک نہیں  ہونگے۔ مگر پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ کھلاڑیوں  کی موت پر اس نے کسی طرح کا تعزیتی پیغام بھی نہیں  دیا ہے۔ الٹے اس نے الزام لگایا ہے کہ افغانستان بھارت کیلئے ’پراکسی جنگ‘ لڑ رہا ہے۔ افغانستان کے وزیر خارجہ مولانا متقی کی آمد کو بھی اس نے اسی زاویے سے دیکھا ہے حالانکہ افغانستان کے خلاف جنگ کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ انگریزوں  نے، جو ہندوستان پر قابض تھے، ۱۸۳۹ء، ۱۸۷۸ء اور ۱۹۱۹ء میں  افغانستان پر قبضہ کرنے کی نیت سے حملہ کیا تھا۔ تینوں  جنگوں  میں  انگریزوں  کو شکست ہوئی تھی اور انہوں  نے ۱۸۹۳ء میں  ایک معاہدہ کے ذریعہ ایک لکیر کھینچ دی تھی۔ یہ کام چونکہ انگریز سفیر مورتی مار ڈیورنڈ نے کیا تھا اس لئے اس کو ڈیورنڈ لائن کہا گیا اور متحدہ ہندوستان یا برطانوی ہندوستان و افغانستان کے درمیان اسی کو سرحد تسلیم کیا گیا۔ افغان اس پر راضی نہیں  تھے کہ ان کے بقول وزیرستان، باجوڑ، سوات.... جیسے پختون یا پشتو بولنے والے علاقے ہندوستان کو دیدیئے گئے تھے۔ ۱۹۴۷ء میں  جب پاکستان وجود میں  آیا تو ڈیورنڈ لائن ہی پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد ٹھہری مگر افغان احتجاج جاری رہا۔ یہ احتجاج ہی کا نتیجہ تھا کہ ۳۰؍ ستمبر ۱۹۴۷ء کو افغانستان نے اقوام متحدہ میں  پاکستان کے رکن بنائے جانے کی مخالفت کی تھی۔ ظاہر شاہ کے معزول کئے جانے کے بعد جب سردار داؤد سربراہ ہوئے اور پاکستان گئے اور ڈیورنڈ لائن تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کی تو بھٹو نے معاہدہ نہیں  کیا۔ دونوں  ملکوں  میں  ا س مسئلہ پر کئی بار جھڑپیں  ہوئیں ۔ حالیہ جھڑپ یا جنگ بھی اسی لئے ہوئی کہ پاکستان نے الزام لگایا تھا کہ افغان سرحد کے اندر سے پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ اور جنگی کارروائیاں  کی جا رہی ہیں  مگر افغانستان کا موقف یہ ہے کہ ڈیورنڈ لائن کا وجود ہی نہیں  ہے۔ اس کو افغان عوام اور حکومت نے کبھی تسلیم نہیں  کیا ہے۔
 
بات معقول ہے.... ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان علاقوں  کا لین دین اور سرحد کا تعین مودی حکومت نے کیا۔ پاکستان اور افغانستان یا افغانستان اور کسی دوسرے ملک کے درمیان کوئی سرحدی تنازع ہے تو پہلے دور کیا جانا چاہئے اور دور کرنے کی بہترین صورت باہمی گفتگو اور مشاورت ہے۔ پاکستان کا شور شرابہ عذر لنگ ہے اور جو لوگ طالبان کی مخالفت کے نام پر بھارت افغان تعلقات اور کابل میں  بھارتی سفارتخانے کی مخالفت کر رہے ہیں  وہ کسی اور درد میں  مبتلا ہیں ۔ بھارت نے ۱۶؍ ٹن دوائیں  افغانستان کو دی ہیں  اور طالبان نے دہلی میں  اپنا سفارتکار مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کا استقبال ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK