Inquilab Logo Happiest Places to Work

عزت کی موت اور بے عزتی کی زندگی

Updated: September 06, 2024, 1:34 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

ممبئی جو کبھی جینے کا حوصلہ، سلیقہ اور سہارا دیتا تھا اب خودکشی کرنے والوں کی شرح میں ۲۲؍ فیصد کا اضافہ ہوگیا ہے۔ خودکشی کرنے کی مختلف وجوہ ہیں مثلاً لاعلاج بیماری میں مبتلا ہونا، دفتر یا کام کرنے کے مقام پر بار بار تضحیک کیا جانایا زیادہ کام کا بوجھ وغیرہ۔ ایک وجہ حسب توقع امتحان کا نتیجہ نہ آنا بھی ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

ممبئی خوابوں  کا شہر ہے۔ یہاں  آکر لوگ اپنی اپنی دنیا بسانا چاہتے ہیں ۔ کوئی فلم میں  قسمت آزمانا چاہتا ہے کوئی تجارت اور ملازمت میں ۔ کچھ لوگوں  کو ممبئی اس لئے راس آتا ہے کہ اس نے دنیا بھر کے نہیں  تو ہندوستان بھر کے بھگوڑوں  کو گود لینے اور پالنے پوسنے کا ضرور ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ کچھ لوگ لٹ پٹ کر اسلئے بھی ممبئی کا رخ کرتے ہیں  کہ یہ شہر کسی سے ذات برادری نہیں  پوچھتا، بلکہ ہنرمندی اور قوت و صلاحیت دیکھتا اور پنپنے کی راہ بتاتا ہے مگر اب اسی شہر ممبئی میں  جو کبھی جینے کا حوصلہ، سلیقہ اور سہارا دیتا تھا اب خودکشی کرنے والوں  کی شرح میں  ۲۲؍ فیصد کا اضافہ ہوگیا ہے۔ خودکشی کرنے کی مختلف وجوہ ہیں  مثلاً لاعلاج بیماری میں  مبتلا ہونا، دفتر یا کام کرنے کے مقام پر بار بار تضحیک کیا جانایا زیادہ کام کا بوجھ وغیرہ۔ ایک وجہ حسب توقع امتحان کا نتیجہ نہ آنا بھی ہے۔ اعداد و شمار کے آئینے میں  بات کریں  تو گزشتہ تین برسوں  میں  خودکشی کرنے والوں  کی شرح یا تعداد بڑھتی گئی ہے۔ خودکشی کرنے والوں  میں  عورتیں ، مرد، بچے سبھی شامل ہیں ۔
 ماہرین نفسیات ایسے لوگوں  کا علاج کرتے اور ان میں  دوبارہ زندگی کی امنگ پیدا کرتے ہیں ۔ ان کی کاوشیں  کامیاب بھی ہوتی ہیں  مگر میرے تجربے اور مشاہدے کے مطابق سب سے بہتر علاج یہ عقیدہ ہے کہ جس نے پیدا کیا ہے وہی جلد یا بدیر کہ وہ حکمت والا بھی ہے بہتر زندگی گزارنے یا کامیابی و کامرانی کے وسائل پیدا کریگا۔ ’’ڈپریشن‘‘ یا افسردگی بھی جو خودکشی سے پہلے کا مرحلہ اور بیشتر خودکشی کی اہم وجہ بھی ہے اسی سبب ہوتا ہے کہ اس میں  مبتلا ہونے والا سوچتا رہتا ہے کہ آئندہ کیا ہوگا۔ ممبئی میں  غربت اور پریشاں  حالی کے سبب مافیا، بھیک منگوانے یا جنسی استحصال کرنے والے گینگ کے ہاتھ چڑھنے والے بہت ہیں ۔ یہاں  ڈھونگی باباؤں  کا سلسلہ بھی دور تک پھیلا ہوا ہے۔ ایسے میں  ان کے ہتھے چڑھنے والوں  کو خوش فہمی رہتی ہے کہ وہ بہت جلد مانگی مراد حاصل کرلیں  گے اور جب ایسا نہیں  ہوتا تو خودکشی کرلیتے ہیں ۔ ’’دربار دربار‘‘ میں  حیدرآباد کے نظام سے امیدیں  وابستہ کرنے اور پھر خودکشی کرنے والے فانی بدایونی پر جس طرح روشنی ڈالی گئی ہے وہ انتہائی عبرتناک ہے۔ ممبئی میں  بھی خودکشی کرنے یا بے موت مرنے والوں  کی تعداد بہت ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بعض کی موت کو خودکشی کا نام دیا گیا بعض کی موت کو خودکشی کا نام نہیں  دیا گیا۔ بعض نے کثرت شراب نوشی کو اپنے ہر مسئلے کا حل سمجھا۔ منشی پریم چند کے ’کفن‘ کے کردار گھیسو اور مادھو نے سچ مچ بیوی یا بہو کے مرنے کی خبر دے کر آخری رسوم کیلئے رقم پائی اور پھر میکدہ آباد کیا تھا مگر اس شہر میں  تو اپنی یا کسی اپنے کی موت کی جھوٹی خبر اڑانے اور رقم اینٹھنے والے بھی ہوتے رہے ہیں  تاکہ جیتے رہیں ۔ کچھ واقعات میرے ذہن میں  ہیں  مگر میں  ’فتنہ‘ پیدا ہونے کے خوف سے پروفیسر شریف حسین قاسمی کی کتاب ’فارسی شاعری تہذیبی منظرنامہ‘ (ص ۲۷۸) سے ایک دوسرے ملک اور زمانے کا واقعہ نقل کر رہا ہوں ۔ مقصود یہ ثابت کرنا ہے کہ اپنی موت کی جھوٹی خبر پھیلا کر مال و متاع حاصل کرنے والے ہر زمانے میں  ہوتے رہے ہیں ۔ ملا حسن شاعر تھے وہ سردیوں  میں  بیٹھے ہوئے تھے کہ خادم یا خدام آئے اور خبر دی کہ آج کھانے کیلئے بھی پیسے نہیں  ہیں ۔ ملا حسن نے اپنے بیٹے مولانا نوری ہروی کو جنہیں  مولانا عبدالرحمٰن جامی نے ملک الشعراء مقرر کیا تھا، بلایا اور کہا یہ دستار اور اپنا پرانا جوڑا نیلا رنگ لو، پھر دستار باندھ کر اور لباس پہن کر امیر شیر علی نوائی کے پاس جاؤ اور آنکھوں  میں  آنسو بھر کر فاتحہ پڑھنے کے بعد کہنا کہ اللہ امیر کی عمر میں  برکت دے، میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ یہ سنتے ہی امیر شیر علی نے مولانا نوری کو ہزار تنکے اور کچھ کپڑے کفن کیلئے عطا کر دیئے اور یہ کہا کہ ملا حسن میرے دوست تھے میں  ان کے جنازے میں  شرکت کروں  گا۔ امیر شیر علی جب جنازہ میں  شرکت کیلئے پہنچے تو ملا حسن نے خود ان کا استقبال کیا۔ امیر نے ان کو زندہ سلامت دیکھ کر کہا میں  تو آپ کے جنازے میں  شرکت کیلئے آیا تھا مگر آپ تو زندہ ہیں ۔ ملا نے جواب دیا کہ اگر آپ کے دیئے ہوئے ہزار تنکے نہ ہوتے تو میں  واقعی مر گیا ہوتا۔ اس روز جو بھی ملا حسن کی خیریت پوچھنے یا ان کے بیٹے کو پرسہ دینے آیا سب نے ان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا اور اس طرح ان کا گھر نعمتوں  یعنی مال و اسباب سے بھر گیا۔

یہ بھی پڑھئے: چراغ، چراغ پا کیوں ؟

 سانسیں  تھم جائیں  تو انسان مر جاتا ہے اور احساس مر جائے تو انسان انسان ہی نہیں  رہ جاتا۔ اس شہر اور اس ملک میں  دونوں  قسم کے لوگوں  کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ زکوٰۃ لیتے ہیں  حالانکہ اس کے مستحق نہیں  ہیں ۔ قربانی کرنے کا وعدہ کرتے ہیں  حالانکہ جانتے ہیں  کہ قربانی کرنا ان کے بس میں  نہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں  کہ ایسا نہیں  کریں  گے تو بھوک سے مرجائیں  گے، یہ نہیں  سمجھتے کہ جس نے پیدا کیا ہے اس نے رزق دینے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ اگر زندہ رہنا ان کا مقدر ہے تو پیدا کرنے والا وہاں  سے ان کو پاک و حلال رزق دے گا جہاں  وہم و گمان بھی نہیں  پہنچتا۔ عروس البلاد میں  جو لوگ مرجاتے ہیں  یا خودکشی کرتے ہیں  اور جو لوگ ڈھونگ اختیار کرکے جینے کے اسباب پیدا کر لیتے ہیں  ان میں  فرق کرنا بہت مشکل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حالات سے گھبرا کر خودکشی کرلینے والوں  کی طرح ہی ناپسندیدہ اور قابل نفرت عزت نفس بیچ کر روزی کمانے والے بھی ہیں ۔ اس لئے اس خبر سے مجھے کوئی حیرت نہیں  ہوئی کہ عروس البلاد ممبئی میں  خودکشی کرنے والوں  کی شرح ۲۲؍ فیصد بڑھ گئی ہے کیونکہ ملک بھر میں  ایسے لوگوں  کی تعداد اور شرح بڑھتی جارہی ہے اور عزت نفس بیچ کر روزی کمانے والوں  کی تعداد اور شرح تو اور زیادہ ہے۔ ایک درد مند انسان اور ذمہ دار شہری کی حیثیت سے ہم سب کا فرض ہے کہ لوگوں  کو مال و متاع سے محرومی کے سبب خودکشی کرنے یا عزت نفس اور احساس بیچ کر جیتے رہنے کے اسباب حاصل کرنے سے روکیں ۔ کچھ لوگ سمجھتے اور سمجھاتے ہیں  کہ بے عزتی کی زندگی سے موت بہتر ہے۔ بیشک ایسا ہی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں  کہ روزی چھن جائے یا عزت نفس پر آنچ آجائے تو دریا، سمندر، آگ یا کھائی میں  چھلانگ لگا دی جائے، اس کا مطلب ہے کہ بے عزتی اور ڈھونگ کی زندگی کا خود کو عادی نہ بنایا جائے بلکہ ہر حال میں  عزت و عزت نفس کے ساتھ زندہ رہنے کی سبیل پیدا کی جائے۔ زندہ رہنے میں  دوسروں  کو زندہ رہنے دینے کی امنگ اور خواہش پیدا کرنا بھی شامل ہے اس لئے جو لوگ صرف اپنے لئے جیتے ہیں  ان کو زندوں  میں  شمار کیا جاسکتا وہ خودکشی کرنے والوں  میں  شامل ہیں ۔ زندوں  میں  وہ ہیں  جو بقول یگانہ چنگیزی یہ یقین رکھتے ہیں  کہ:
صدمے دیے تو صبر کی دولت بھی دے گا وہ
کس چیز کی کمی ہے سخی کے خزانے میں !

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK