ان دنوں سیاسی گلیاروں میں اور قومی میڈیا میں بھی یہ خبر چل رہی ہے کہ چراغ پاسوان کی پارٹی کے ممبرانِ پارلیمنٹ کو بھارتیہ جنتا پارٹی توڑنے میں لگی ہے اور ان کے تین ممبران پارلیمنٹ کبھی بھی آپریشن لوٹس کے شکار ہو سکتے ہیں۔ اس کی خبر چراغ پاسوان کو بھی ہے کہ وزیر داخلہ امیت شاہ نے ان کے چچا پشوپتی ناتھ پارس کو بلا کر اس آپریشن کی ذمہ داری دی ہے اس لئے چراغ پاسوان کا چراغ پا ہونا لازمی ہے۔
بہار ان دنوں قومی میڈیا کی سرخیوں میں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قومی جمہوری اتحاد میں شامل بہار سے تعلق رکھنے والی دو سیاسی جماعتوں کے اندر خلفشار جاری ہے۔ ایک طرف نتیش کمار کی قیادت والی جنتا دل متحدہ جن کی بدولت مرکز میں قومی جمہوری اتحاد کی حکومت چل رہی ہے اس کے اندر افراتفری مچی ہوئی ہے۔ گزشتہ دن پارٹی کے قومی ترجمان کے سی تیاگی کو ترجمان کے عہدہ سے استعفیٰ دینا پڑا ہے۔ واضح رہے کہ کے سی تیاگی نتیش کمار کے قریبی لیڈر مانے جاتے ہیں اور سوشلسٹ فکر ونظر کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں ان کے کئی ایسے بیانات آئے جو قومی جمہوری اتحاد حکومت کی پالیسیوں کے خلاف تھے۔ شاید اس لئے جنتا دل متحدہ کے سپریمو نے انہیں ترجمان کے عہدہ سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا۔ اگرچہ انہوں نے اپنے استعفیٰ میں اس کی وجہ نجی بتائی ہے مگر سچائی یہ ہے کہ کچھ دنوں سے تیاگی جنتا دل متحدہ کی پالیسیوں سے خاصہ ناراض نظر آرہے تھے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ انہیں ترجمان کے عہدہ سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ کیونکہ حال میں وقف ترمیم بل ہو کہ آسام کے وزیر اعلیٰ کے ذریعہ مسلم مخالف بیانات اور اسرائیل کا فلسطین پر جارحانہ حملہ، سب پر کے سی تیاگی بولتے رہے ہیں اور مرکزی حکومت کوکٹہرے میں کھڑا کرتے رہے ہیں۔ ان کا موقف رہا ہے کہ وہ مرکز کی قومی جمہوری اتحاد حکومت میں شامل ضرور ہیں لیکن جنتا دل متحدہ کا اپنا ایک الگ سیاسی نظریہ ہے اور اسی کے مطابق وہ کام کر رہے ہیں۔ مگر بہار میں عام چرچا ہے کہ نتیش کمار نے کے سی تیاگی کے حالیہ بیان کو پسند نہیں کیا اوریہ بھی میڈیا میں عام ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے دبائو میں انہیں جنتا دل متحدہ کے ترجمان کے عہدہ سے ہٹایا گیاہے۔ بہر کیف! کے سی تیاگی فی الوقت جنتا دل متحدہ میں ہی ہیں البتہ انہو ں نے ترجمان کے عہدہ سے استعفیٰ دیا ہے اور پارٹی کی رکنیت سے نہیں۔ اگرچہ یہ سچائی ہے کہ ان کا بیٹا بھارتیہ جنتا پارٹی میں ہیں اور پارٹی کے آئی ٹی سیل کے لئے کام کرتے ہیں اس لئے جنتا دل متحدہ کے کئی لیڈروں کا ماننا ہے کہ اس کی وجہ سے بھی کے سی تیاگی کے تئیں جنتا دل متحدہ کے سپریمو کا بھروسہ کم ہو رہا تھا۔ ان کا تعلق بھومیہار برادری سے ہے اور بہار میں ذات پات کی سیاست کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اور ان دنوں بھومیہار برادری قومی جمہوری اتحاد کے ساتھ ہے اور جنتا دل متحدہ میں بھی اس برادری کی پکڑ مضبوط ہے لہٰذاکے سی تیاگی کو جنتا دل متحدہ نے مان سمّان کے ساتھ اپنی پارٹی میں بنائے رکھا ہے۔ کے سی تیاگی ایک بیباک لیڈر ہیں اور یہ حقیقت بھی مسلّم ہے کہ آج کی سیاست میں صاف ستھری شبیہ کے مالک ہیں ۔ وہ صرف ایک بار وی پی سنگھ کی قیادت میں ۱۹۸۹ء میں غازی آباد سے ممبر پارلیمنٹ ہوئے تھے اور اس کے بعد شرد یادو نے بہار سے ضمنی انتخاب میں راجیہ سبھا بھیجا تھا اس کے بعد وہ نتیش کمار کے مشیر خاص کے طورپر پارٹی میں اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ اب جب کہ کے سی تیاگی کا استعفیٰ ہوا ہے تو سیاسی گلیاروں میں طرح طرح کی چہ می گوئیاں ہو رہی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دنوں نتیش کمار کا تیور کچھ بدلا ہوا نظر آرہا ہے۔ بہار کے کئی ایسے لیڈر جو نتیش کے قریبی سمجھے جاتے تھے ان سے نتیش کمار خفا ہیں اور یہ بات میڈیا میں بھی گردش کر رہی ہے۔ بہار کے دوسرے لیڈر چراغ پاسوان ہیں جو لوک جن شکتی پارٹی ( رام ولاس) کے سپریمو ہیں۔ چراغ پاسوان خود کو نریندر مودی کا ہنومان کہتے رہے ہیں لیکن ان دنوں ان کے بھی کئی ایسے بیانات آئے ہیں جس سے قومی جمہوری اتحاد کے اندر کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ دراصل ان دنوں سیاسی گلیاروں میں اور قومی میڈیا میں بھی یہ خبر چل رہی ہے کہ چراغ پاسوان کی پارٹی کے ممبرانِ پارلیمنٹ کو بھارتیہ جنتا پارٹی توڑنے میں لگی ہے اور ان کے تین ممبران پارلیمنٹ کبھی بھی آپریشن لوٹس کے شکار ہو سکتے ہیں۔ اس کی خبر چراغ پاسوان کو بھی ہے کہ وزیر داخلہ امیت شاہ نے ان کے چچا پشوپتی ناتھ پارس کو بلا کر اس آپریشن کی ذمہ داری دی ہے اس لئے چراغ پاسوان کا چراغ پا ہونا لازمی ہے۔ شاید اس لئے حال کے دنوں میں چراغ پاسوان نے کئی ایسے بیانات دئیے ہیں جو نریندر مودی حکومت کی پالیسی کے منافی ہے۔ مثلاً دلت ریزرویشن کا معاملہ ہو کہ کریملیئر کے متعلق عدالت عظمیٰ کا فیصلہ اس پر چراغ پاسوان انڈیا اتحاد کے موقف کے ساتھ کھڑے نظر آئے ہیں اور بہار میں بھی ان کی راہ کچھ الگ نظر آرہی ہے۔ انہو ں نے جھارکھنڈ کے ساتھ ساتھ ملک کی دیگر ریاستوں کے اسمبلی انتخاب میں بھی اپنے امیدوار کھڑا کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے جس سے قومی جمہوری اتحاد کے اندر ایک اضطرابی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر چراغ پاسوان کے ممبران پارلیمنٹ کو توڑا جاتا ہے تو پھر ان کی سیاسی حیثیت اثر انداز ہوگی اور ان کے چچا کو قومی جمہوری اتحاد میں اہمیت دی جاتی ہے تو اس سے بھی چراغ پاسوان کا قد متاثر ہوگا۔ اس لئے چراغ پاسوان نے حالیہ دنوں میں نریندر مودی حکومت کی پالیسیوں کے نکتہ چیں کے طورپر سامنے آئے ہیں لیکن یہ بھی خبر عام ہے کہ مودی حکومت نے انہیں متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنی فضول بیان بازی سے پرہیز کریں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چراغ پاسوان کے سیاست کی سمت ورفتار کیا رہتی ہے۔ چونکہ ان دنوں بہار میں اسمبلی انتخاب کو لے کر سرگرمیاں تیز ہیں اور تمام چھوٹی بڑی جماعتیں فعال ہوگئی ہیں اور کچھ نئی سیاسی جماعت بھی قدرے فعال نظر آرہی ہے ایسے وقت میں جنتا دل متحدہ کے لئے بھی چراغ پاسوان کی پارٹی لوک جن شکتی (رام ولاس)کا قومی جمہوری اتحاد سے الگ ہونا باعثِ خسارہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جنتا دل متحدہ کے سپریمو نتیش کمار کے سی تیاگی کے استعفیٰ کے مسئلہ کو کس طرح حل کرتے ہیں ۔ نتیش کمار کے اندر وہ تمام ہنر ہے جس کی بدولت وہ اپنی پارٹی کو مستحکم بنائے ہوئے ہیں اور گزشتہ پندرہ برسوں سے بہارحکومت کی قیادت کر رہے ہیں۔ جہاں تک چراغ پاسوان کا سوال ہے تو ان کیلئےایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ کس طرح اپنے تمام ممبران پارلیمنٹ کو اپنے ساتھ بنائے رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ اگر ان کی پارٹی کے اندر بکھرائو ہوا تو پھر ان کے سیاسی وجود پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔