Inquilab Logo Happiest Places to Work

چراغ ڈھونڈنے نکلیں تو ظلمتوں کے اَسیر

Updated: May 31, 2025, 5:13 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

آزمائش سے کسی کو فرار نہیں۔ اس سے بددل ہوکر بیٹھا نہیں جاسکتا بلکہ اسے موقع جان کر اپنی تعمیر میں زیادہ جوش و خروش کےساتھ شامل ہونا دانشمندی کا تقاضا ہے۔ اس مضمون میں مشہور امریکی شاعرہ مایا اینجلو کے حوالے سے یہی بات کہی گئی ہے۔

Maya Angelou. Picture: INN
مایا اینجلو۔ تصویر: آئی این این

’’مَیں بار بار مرتی ہوں/ رگیں ڈوبتی ہیں/ پھر دوبارہ کھلتی ہیں/ خوابیدہ بچوں کی چھوٹی چھوٹی مٹھیوں کی طرح/ پرانی قبروں کی یاد/ سڑتا گوشت اور حشرات الارض/ مجھے اپنی للکار سے باز نہیں رکھ سکتے/ اِن ماہ و سال اور سرد شکستوں سے میرے چہرے کی جھریاں گہری / اور میری آنکھیں گرانبار ہوجاتی ہیں/ اس کے باوجود/ مَیں بار بار مرتی ہوں/ تاکہ زندہ رہنے کے عزم کا بار بار اعادہ ہو!‘‘
  مشہور سیاہ فام امریکی شاعرہ اور خود نوشت سوانح نگار مایا اینجلو کی نظم ’’سبق‘‘ کا یہ خام ترجمہ ہے۔  دو روز قبل (۲۹؍ مئی کو) اُن کی گیارہویں برسی کی مناسبت سے اس کالم میں اُنہیں یاد کیا جارہا ہے۔ مزاحمت، انسانیت، انسانی حقوق، حقوقِ نسواں، مساوات اور تہذیبی روایات جیسے موضوعا ت پر بیش قیمت نظمیں لکھنے والی مایا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ رابرٹ فراسٹ کے بعد وہ اکلوتی ادبی شخصیت تھیں جنہیں امریکی صدر نے اپنی تقریب ِ حلف برداری میں اس درخواست کے ساتھ مدعو کیا تھا کہ اس موقع کیلئے کوئی نظم لکھئے اور تقریب میں سنائیے۔ رابرٹ فراسٹ کو جان ایف کنیڈی نے مدعو کیا تھا اور مایا اینجلو کو بل کلنٹن نے۔ یہ ۱۹۹۳ء کی بات ہے۔

یہ بھی پڑھئے:وہی تحریریں زندہ رہتی ہیں جو فطرت کیخلاف نہ ہوں

اس خاص موقع اور خاص دعوت پر کہی گئی نظم (’’صبح کی نبض پر‘‘) میں مایا نے اہل امریکہ کو اُن کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا اور یہ صلاح دی تھی کہ امریکہ کا ماضی دردناک تکلیفوں سے گزرا ہے اور قوم کی بہتری اس ماضی کو نہ دُہرانے میں ہے۔ اُنہوں نے اپنے ہموطنوں سے بہ اصرار کہا تھا کہ اُن کا ملک اپنی غلطیوں سے فرار حاصل نہیں کرسکتا اور اگر ایسا کرنا چاہے تو اُس کے پاس چھپنے کیلئے جگہ نہیں ہے۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ مفادات کی تلاش میں سرگرداں رہنے اور جنگیں برپا کرکے قدرتی وسائل کے وسیع تر اتلاف سے توبہ کرنے میں عافیت ہے تاکہ مستقبل پر نگاہ مرکوز کی جائے۔ 
  مایا کا اہم کارنامہ سات جلدوں پر مشتمل وہ یادداشتیں بھی ہیں جن میں بچپن، عنفوان شباب، پھر شباب اور پھر بعد کی زندگی کے تجربات اتنے مؤثر انداز میں بیان کئے گئے ہیں کہ وہ قاری بھی، جو ایسے حوصلہ شکن تجربات سے نہیں گزرا، مایا کے حالات کی سختی اور سفاکی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا اور دوران مطالعہ بعض اوقات آبدیدہ ہوجاتا ہے۔ انسان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنی مشکلات ہی کو دُنیا کی سب سے بڑی مصیبت سمجھتا ہے۔ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی مشکلات کی روداد سننے یا پڑھنے کے باوجود وہ اپنی ہی مشکلات کا رونا روتا ہے اور جاننے کی طرح کبھی نہیں جاننا چاہتا کہ دُکھ، درد، تکلیف، غم، رنج، مشکلات، مصائب اور آزمائشیں ہر جگہ ہیں اور کسی نہ کسی شکل میں ہر ایک کے ساتھ ہیں۔ کوئی نہیں ہے جو دعویٰ کر سکے کہ اُس کے شب وروز میں کوئی غم، پریشانی یا آزمائش نہیں ہے۔ مایا کی سوانحی کتابوں کا جو خلاصہ اس مضمون نگار کے مطالعے میں رہا  اُس کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ مایا نے اوائل عمری ہی میں زندگی کا دردناک چہرا دیکھ لیا تھا اور پھر طویل عرصے تک ایسے ہی چہرے اُس کے سامنے رہے۔ یہ یادداشتیں توثیق کرتی ہیں کہ بعض لوگو ںکی زندگی میں حالات ایسی قیامت برپا کردیتے ہیں کہ اُس کے اثرات سے خود کو بچانے کی کوشش کرنا اور حوصلہ مندی کا ثبوت دیتے ہوئے حالات کو مات دینا کارنامہ انجام دینا ہی کہلائے گا، اس کے علاوہ کوئی دوسرا نام اسے نہیں دیا جاسکتا۔ 
 مایا کی سب سے مشہور شعری تصنیف ہے ’’جانتی ہوں کہ اسیری میں بھی پرندہ کیوں گاتا ہے‘‘(آئی نو وہائے دی کیجڈ برڈ سنگس) جس کا پیغام یہ ہے کہ حالات چاہے جتنے مخالف یا آمادۂ تخریب ہوں، خود کو بنانے، سنوارنے، با اثر بننے اور آس پاس کے ماحول پر مثبت طریقہ سے اثرانداز ہونے کی جہدوجہد کے علاوہ کامیابی کا کوئی دوسرا متبادل نہیں ہوتا۔ یہ مایا کا محض خیال نہیں ہے، انہوں نے ایسے حالات میں جی کر اور خود کو منوا کر ہی دم لیا ورنہ شدید نسل پرستی کے دور اور مخدوش گھریلو حالات میں، مایا پر کمسنی ہی میں جو عذاب ٹوٹے اور انتہائی صدمے کی وجہ سے انہوں نے جس طرح لب کشائی سے توبہ کرلی اوراس پر قائم رہیں حتیٰ کہ ان پر قوت گویائی سے عاری ہونے کا گمان ہونے لگا ، اُس کے بعد وہ کبھی اس قابل نہ ہوتیں کہ کچھ کہہ پاتیں، سوچ پاتیں اور لکھ پاتیں مگر مایا نے عزم و عمل کی ایسی نظیر قائم کی کہ شہری حقوق کی تحریک (سول رائٹس موومنٹ) کا حصہ بنیں اور عالمی شہرت یافتہ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر جیسی شخصیات کے ساتھ کام کیا، یا، جیسا کہ عرض کیا گیا، بل کلنٹن نے اُنہیں اپنی تقریب ِ حلف برداری میں نظم سنانے کا موقع دیا۔
  مایا کی زندگی سرمایا ہے ہر اس شخص کیلئے جو نامساعد حالات میں خود کو سرنگ کے دوسرے سرے پر موجود روشنی دیکھنے کی تمنا تک سے محروم پاتا ہے۔ مایا کی معاشی جہدوجہد میں ایسے ابواب بھی ہیں جو مشرقی معاشرہ میں ناپسندیدہ ہیں مگر کئی ناقابل بیان مجبوریوں سے گزرتے ہوئے انہوں نے جرأت و شجاعت کی جو تاریخ مرتب کی، وہ ممکن نہیں کہ آنے والی نسلوں کو متاثر نہ کرے۔ 
 نظم ’’سبق‘‘ بھی، جو اس مضمون کی ابتداء میں درج کی گئی ہے، یہی پیغام دیتی ہے۔ ’’مَیں بار بار مرتی ہوں تاکہ زندہ رہنے کے عزم کا بار بار اعادہ ہو‘‘ سے، زندگی سے والہانہ محبت کا تاثر اُبھرتا ہے۔ زندگی سے عشق کسی بھی مصیبت کو مات دینے کے قابل بنا دیتا ہے۔ مایا نے یہی کیا اور پھر سیاہ فام (افریقی امریکی) عوام کو دلاسہ دیا، تسلی دی، اُن کی آواز بنیں، اُن کی ترجمانی کی اور یکساں حقوق کی جدوجہد کا چہرا بنیں۔ اُن کی سوانح میں یہ پیغام بھی پوشیدہ ہے کہ نامساعد حالات سے اس لئے بھی خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے کہ قدرت بے سہاروں کے افق میں ایسے سہارے ٹانک دیتی ہے جو ظلمت میں روشنی بن کر کام آتے ہیں۔ مایا نے جب بولنا بند کردیا تھا اور لب سی کر یا مکمل طور پر خاموش رہ کر ۸؍ سے ۱۳؍ سال کی عمر تک پورے پانچ سال گزارے تھے تب بڑی حکمت کے ساتھ اُنہیں دوبارہ بولنے پر ایک ٹیچر (مس برتھا فلاورس) نے رضامند کیا تھا۔ اس سہارے نے مایا کو بولنے ہی کے نہیںبلکہ اس طرح بولنے کے قابل بنادیا کہ اُن کی آواز گونجے اور ساری دُنیا سنے۔ اگر مایا کی زندگی میں برتھا فلاورس آئیں تو کسی اور کی زندگی میں کوئی اور بھی آسکتا ہے شرط اتنی ہے کہ انسان پُراُمید رہے، قدرت پر بھروسہ رکھے!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK