Inquilab Logo Happiest Places to Work

وہی تحریریں زندہ رہتی ہیں جو فطرت کیخلاف نہ ہوں

Updated: May 30, 2025, 1:29 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

بانو مشتاق کے کہانیوں کے ۱۲؍ مجموعے جو کنڑ زبان میں ہے، کا انگریزی میں ترجمہ دیپا بھاستی نے کیا ہے۔ اس مجموعے کیلئے بانو مشتاق کو ’بوکر پرائز‘ سے نوازا گیا۔ مضمون میں اس بارے میں تفصیل سے ذکر ہے۔

Banu Mushtaq has been awarded the Booker Prize. Photo: INN
بانو مشتاق کو ’بوکر پرائز‘ سے نوازا گیا ہے۔ تصویر: آئی این این

آپ جانتے ہیں کہ کنڑ زبان میں بانو مشتاق کے کہانیوں کے ۱۲؍ مجموعے شائع ہوئے اور وہ بھی ۱۹۹۰ء اور ۲۰۲۳ء کے درمیانی برسوں میں۔ ان کہانیوں میں سے ۱۲؍ کہانیاں منتخب کرکے ’ہارٹ لیمپ‘ نامی مجموعے میں شائع کی گئی ہیں جنہیں دیپا بھاستی نے انگریزی کا قالب عطا کیا ہے۔ اس مجموعے کیلئے بانو مشتاق کو ’بوکر پرائز‘ سے نوازا گیا ہے۔
  اس موقع پر بانو مشتاق نے بتایا ہے کہ ایسی دُنیا میں، جو اکثر ہمیں بانٹنے اور تقسیم کرنے کی کوشش کرتی ہے، ادب اُن کھوئے ہوئے مقدس مقامات میں سے ایک ہے جہاں ہم ایک دوسرے کے دل میں رہ سکتے ہیں، بھلے ہی کچھ لمحات کیلئے۔ بے شک، حقیقت یہی ہے کہ مفادات اور مفادات کو تحفظ عطا کرنے والی سیاست جہاں انسان کو انسان سے جدا کرتی ہے یا ان کے درمیان تفریق پیدا کرتی ہے وہاں ادب دلوں میں رابطہ پیدا کرتا ہے۔ جزوی طور پر تو بانو مشتاق کی اس بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے مگر کلی طور پر نہیں۔
 مکمل حقیقت یہ ہے کہ ادب کے نام پر ایسے لوگ بھی اچھل کود کرتے رہے ہیں جنہوں نے تمام عمر ایسا کچھ لکھا ہی نہیں ہے جس پر ادب کی تعریف صادق آتی ہے۔ ایسے لوگ اپنی غیر ادبی سرگرمیوں کو انجام دیتے ہوئے یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ گروہ بندی یا ٹولہ بنانا مجرمین کا کام ہے ادیبوں کا نہیں۔ اُردو میں خاص طور سے ایسے لوگ بہت سرگرم ہیں جو تخلیق ادب کے نام پر صرف ادیبوں، تخلیق کاروں سے ملتے جلتے اور ان میں سے کسی کی خوشامد یا کسی کے خلاف بہتان تراشی کرتے ہیں۔ ان کی کل متاع غیبت اور بہتان تراشی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:وزیر اعظم نریندر مودی کا مسلسل دورۂ بہار؟

بانو مشتاق کا کہنا ہے کہ ہندوستانی خواتین کا مزاج باغیانہ ہے مگر وہ بہت سمجھوتے کرتی ہیں۔ ان کی اس بات سے بھی مکمل اتفاق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہندوستانی معاشرہ میں خواتین اور مرد دونوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں محض اسلئے جیتے رہنا چاہئے کہ دوسروں کو عبرت ہو، ورنہ مجموعی طور پر مرد و خواتین دونوں میں اکثریت اچھوں کی ہے۔ میری ہی مثال ہے اور اسی شہر کی ہے۔ یہاں میں نے محسوس کیا کہ جس کو اپنی ماں کی دعا حاصل ہو، اُس کے سر پر کئی اجنبی خواتین ماں اور بڑی بہن بن کر اپنا آنچل رکھ دیتی ہیں۔ ماں اور بہن بن کر میرے سَر پر آنچل رکھ دینے والیوں میں ہندو بھی تھیں اور مسلمان بھی۔ انہی کی دعاؤں سے کئی فتنے پنپنے سے پہلے ہی ختم ہوگئے۔ پھر بھی یہ احساس ہوتا رہا کہ کسی پر احسان کرنا تو دور کسی کو کسی پر احسان کرتے ہوئے دیکھنا بھی، بہتوں کو برداشت نہیں ہوتا اور وہ جو کہانیاں گڑھتے ہیں وہ بہتان تراشی ہی کے ذیل میں آتی ہیں۔ 
  مجھے بانو مشتاق کی ایک انٹرویو (نو بھارت ٹائمز، سنیچر ۲۴؍ مئی ۲۰۲۵ء) میں کہی گئی یہ بات بھی بہت اچھی لگی کہ ’’میں چاہتی ہوں کہ مرد بھی خوش رہیں۔‘‘ مرد اور خاتون کے خوش اور مطمئن ہونے کی ایک ہی صورت ہے کہ ان میں رفاقت کا رشتہ اور ایک دوسرے کے ساتھ نباہ کا جذبہ ہو۔ خاتون یا بیوی جب شوہر بننے کی کوشش کرتی ہے یا شوہر جب بیوی کو اپنا غلام سمجھنے لگتا ہے تو حالات بدلتے اور پھر بگڑتے ہیں جس کے نتیجہ میں گھر ٹوٹتے ہیں۔ کئی معاملات تو ایسے نظر میں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ خاتون کی زندگی میں زہر گھولنے یا میاں بیوی کو علاحدہ کرنے کا کام کسی دوسری خاتون نے کیا ہے، کسی مرد نے نہیں۔ 
 بانو مشتاق کی کہانیوں میں خواتین کی زندگی کے اچھے پہلوؤں سے صرف ِنظر کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ان کہانیوں میں یک رخا پن ہے مثلاً باپ کی جائیداد میں بیٹی کو حصہ نہ دینا، مسلسل تین بیٹیاں ہونے، بیٹا نہ ہونے پر بیوی کو نظر انداز کرنا، طعنے دینا یا اُسے دور کر دینا، حتیٰ کہ کھانے میں نمک زیادہ اور کم ہونے پر طلاق دے دینا بھی ہندوستان کے مسلم معاشرہ میں رائج ہے مگر اس کے برعکس شہادتیں بھی بہت ہیں، متولی اور مبلغ کے قول و فعل میں تضاد بھی ہے مگر ایسے واقعات بھی ہیں جنہیں دہرانے سے فخر کا احساس ہوتا ہے۔ شادی بیاہ میں رخنہ ڈالنے اور فتنہ پیدا کرنے کے بھی واقعات ہیں مگر ایسے بھی واقعات ہیں جنہیں بیان کرتے ہوئے خوشی ہوتی ہے۔ جب میری نسبت اعظم گڑھ میں میری والدہ طے کر رہی تھیں تو کسی نے میرے خسر کو جو ایڈوکیٹ تھے خط لکھا کہ میرے تو دو بچے ہیں مگر مدنپورہ ہی کے دو صاحبان نے، جہاں ان دنوں مَیں دوسرے کے گھر میں پناہ لئے ہوئے تھا، پوری سازش کو ناکام بنا دیا۔ خسر نے خط لکھا تو مَیں نے جواب دیا کہ بچے کسی کو بھی دے دیجئے، میری بیوی میرے حوالے کیجئے تو وہ مطمئن ہوگئے۔ میرے محسنین نے شادی میں جس خوشی اور اپنائیت کا مظاہرہ کیا وہ بھی ایک مثال ہے اس لئے مسلم معاشرے یا خاندانوں پر لکھنے والوں کو، وہ جب بھی قلم اُٹھائیں، تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنا چاہئے۔
 بانو مشتاق نے صحیح کہا ہے کہ رکاوٹیں مذہب کی طرف سے کم اور ’مرد اساس‘ خاندانوں کی طرف سے زیادہ ہیں۔ اس میں یہ اضافہ ضروری ہے کہ جہاں جیسی تربیت کی گئی ہے وہاں کے لوگوں کا ویسا مزاج ہے۔ بیشتر مسلم خاندانوں میں خاتون کی غلامی بھی نہیں ہے اور بے لگام آزادی بھی نہیں ہے۔ یہ اچھا ہے، اس کو مذہبی تعلیمات کا نتیجہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ معاشرہ میں جو خرابی ہے وہ مذہب پر عمل کرنے کے سبب نہیں بلکہ مذہب کو نہ سمجھنےکے سبب ہے۔ 
 مجھے فخر ہے کہ بانو مشتاق کو بوکر پرائز کے لئے منتخب کیا گیا ہے مگر ذہن میں یہ سوال بھی ہے کہ کیا مسلم معاشرہ ویسا ہی ہے جیسا ان کی ان ۱۲؍ کہانیوں میں پیش کیا گیا ہے، جن کا ترجمہ ہوا ہے اور جن کی بنیاد پر ان کو یہ گرانقدر انعام دینے کا فیصلہ ہوا ہے؟ شاید نہیں۔ ان سے پورے مسلم معاشرے کی تو کیا خود بانو مشتاق کی مکمل سوچ اور مشاہدے کا بھی اندازہ نہیں ہوتا۔ ’ہارٹ لیمپ‘ کی مترجم دیپا بھاستی نے کہانیوں میں استعمال کئے گئے مقامی زبان کے لفظوں کو ’’اٹیلک‘‘ نہیں کیا ہے بلکہ بیانیہ کے ساتھ انگریزی میں ’ارے‘ اور ’آئیو‘ جیسے لفظوں کو ویسے ہی رہنے دیا ہے جیسے عام لوگ استعمال کرتے ہیں۔ یہ طریقہ انگریزی میں بھی کہانیوں کی اصل کیفیت کو برقرار رکھتا ہے۔ ان کہانیوں میں صرف مسلم معاشرہ نہیں ہندوستانی معاشرہ میں بھی صنفی (Gender) سچائی بیان کی گئی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK