• Tue, 09 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’امریکہ بھی ٹھیک اور چین بھی ٹھیک‘ کی پالیسی

Updated: September 09, 2025, 1:55 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

موجودہ حکومت کے ہمنواؤں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ موقف بدل جائے تو خود کو بدلے ہوئے موقف سے ہم آہنگ کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ یہی حال وزیر اعظم کے ہمنواؤں کا ہے جو ہر حال میں اُن سے خوش رہتے ہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

وطن عزیز تکثیری سماج اور سیکولر معاشرہ ہے، یہ میرا یقین ہے اس لئے مَیں   موجودہ حکومت کی پالیسیوں   سے ناخوش رہتا ہوں  ۔ اس کا اندازہ قارئین کو میری تحریروں   سے ہوچکا ہوگا۔ اس کا سبب وہ نظریات اور اُصول ہیں   جنہیں   مَیں   عزیز رکھتا ہوں  ۔ میری نگاہ میں    ’’ہندوتوا‘‘ کا نظریہ ٹھیک نہیں   ہے مگر اسے غیر فطری طور پر وطن عزیز پر تھوپا جارہا ہے۔اس نظریہ اور اس کے تھوپے جانے سے کس کو کیا ملا اس کی فہرست بنانا چاہیں   تو جتنی باتیں   ناپسند ہیں   یا جن سے اتفاق نہیں   کیا جاسکتا ان کی وجہ سے فہرست یقیناً خاصی طویل ہوگی۔
 اگر مجھ سے کہا جائے کہ مَیں   موجودہ حکومت سے اپنی اُلجھن یا نااتفاقی کے اسباب بیان کروں   تو یہ کہنے میں   مجھے عار نہیں   ہوگا کہ وزیر اعظم اقلیتوں   کو ہدف بنانے سے کبھی پیچھے نہیں   رہتے جبکہ بی جے پی میں   اُن کے پیش رو نے ایسا نہیں   کیا تھا۔ دوسری بات جس کی نشاندہی مَیں   کرنا چاہوں   گا کہ وہ یہ ہے کہ اقلیتوں   کو ہدف بنانے کے اپنے طریق کار کی وجہ سے اُنہوں   نے ایسے ہمنوا پیدا کرلئے ہیں   جو تن من دھن سے اُن کے ساتھ ہیں  ۔ یہ لوگ ہر اُس بیان اور کارروائی کو جائز سمجھتے ہیں   جو اقلیتوں   کے خلاف عمل میں   لائی جاتی ہے۔
 ہوسکتا ہے معترضین یہ کہیں   کہ مجھے کسی ’’اہم‘‘ یا ’’باوزن‘‘ بات کی نشاندہی کرنی چاہئے تھی، وہ مَیں   کروں   گا مگر حقیت یہ ہے کہ ایک ایسا طرز عمل جو بارہویں   سال میں   داخل ہوچکا ہو، اس کے اثرات سے بچنا مشکل ہے۔ وزیر اعظم کے ہمنوا طبقے کو اس سے کوئی فرق نہیں   پڑتا کہ وزیراعظم کیا کر رہے ہیں  ، وہ صرف یہ دیکھتے ہیں   کہ اقلیتوں   کا ہدف بنایا جانا جاری ہے یا نہیں  ، وہ چاہے اقلیتوں   کے خلاف امتیازی قوانین کا وضع کیا جانا ہو یا اقلیت مخالف پالیسیوں   کا اختیار کیا جانا اور منافرت آمیز بیان بازی کا جاری رہنا ہو۔ آج میری کوشش ہے کہ اس رجحان کے بارے میں   لکھوں   جس کے شواہد ہمارے چاروں   طرف موجود ہیں  ۔ یاد رہنا چاہئے کہ جن اقلیتوں   کو ہدف بنایا جاتا ہے وہ آبادی کا کوئی معمولی حصہ نہیں   ہے، اسی لئے اِس مسئلہ سے بحث ضروری ہے۔ اس کیلئے ماضی میں   بہت پیچھے جانے کی ضرورت نہیں  ، حالیہ چند ہفتوں   کے واقعات ہی کافی ہونگے: 
 گڈس اینڈ سروسیز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی مثال لے لیجئے۔ لگ بھگ دس سال پہلے جب اس کو نافذ کیا گیا تھا تب کہا گیا تھا کہ یہ ایسی اصلاحات پر مبنی ہے جسے نیکسٹ جنریشن ریفارم کہا جاتا ہے۔ اس سے معیشت کے وارے نیارے ہوجائینگے۔ حکومت کے ہمنوا کئی ماہرین منظر عام پر آئے اور سمجھانے کی کوشش کی کہ اس کی وجہ سے ہماری جی ڈی پی میں   ۲؍ فیصد کا اضافہ ہو جائے گا۔ کیسے ہوگا؟ انہوں   نے یہ نہیں   بتایا۔ آج دس سال بعد یہ توثیق ہو چکی ہے کہ ماہرین نے جی ڈی پی میں   ۲؍ فیصد اضافے کی جو پیش گوئی کی تھی وہ غلط ثابت ہوئی۔ اپوزیشن نے اس کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی تھی کہ جی ایس ٹی کا نظام کاروباریوں   کیلئے پیچیدہ ہے، غریبوں   پر  بڑا بوجھ ثابت ہوگا اور ریاستی حکومتوں   کے ساتھ ناانصافی کا سبب بنے گا۔ یہ تمام اندیشے درست نکلے کیونکہ ان میں   سچائی تھی۔ 
 بہرکیف دس سال بعد حکومت نے اس میں   کچھ تبدیلیاں   کیں   اور ایک بار پھر کہا کہ یہ نیکسٹ جنریشن ریفارم ہے۔ دس سال بعد بعض تبدیلیوں   کے ذریعہ اس نے قدم پیچھے لئے جو اس بات کا اعتراف ہے کہ اب تک جو نظام جاری تھا وہ ناقص تھا۔ اگر آپ وزیر اعظم کے اُن ہمنواؤں   میں   سے نہیں   ہیں   جو اُن کے ہر اقدام اور ہر بیان کو درست سمجھتے ہیں   تو یقیناً کہیں   گے کہ ایک نظام جو ناقص تھا اُسے درست کرنے میں   آپ کو دس سال کیوں   لگے؟ مگر اُن کے ہمنواؤں   کیلئے ۲۰۱۷ء میں   نافذ کیا گیا جی ایس ٹی نظام غیر معمولی تھا اور اب جو ۲۰۲۵ء میں   جاری کیا گیا ہے وہ بھی غیر معمولی ہے۔ 
 جس دن یہ مضمون لکھا جارہا ہے، صبح کے اخبار کی ہیڈ لائن یہ ہے: ’’ٹرمپ نے ہندوستان کے معاملے میں   یوٹرن لیا، مودی کو عظیم دوست کہا جبکہ ایک دن پہلے اُنہوں   نے کہا تھا کہ اُنہوں   نے ہندوستان کو گنوا دیاجو چین کے پالے میں   چلا گیا ہے۔ اب آپ سوچئے کیا ٹرمپ نے ۵۰؍ فیصد ٹیرف ختم کردیا؟ نہیں  ۔ تو کیا اُن کے انتظامیہ نے ہندوستان کے تئیں   اپنی پالیسی بدل دی اور روسی تیل خریدنے کے معاملے میں   ہندوستان کو سزا دینے کی بابت اپنے بیانات میں   کچھ ترمیم کرلی؟ نہیں  ۔ ٹرمپ کے کامرس سکریٹری نے اسی دن جو کچھ کہا اُس کی رپورٹنگ کرتے ہوئے ایک اخبار نے یہ سرخی لگائی: ’’ہندوستان معذرت طلب کریگا اور دو ماہ میں   معاہدہ پر دستخط پر مجبور ہوگا: لٹنک کا بیان۔‘‘ سرخی دیکھ کر بتائیے کیا ٹرمپ نے یوٹرن لیا؟ تو پھر یوٹرن کی بات کہاں   سے آئی؟ یہ اُن کے ہمنواؤں   کی جانب سے آئی ۔ ایک اور سرخی کا ترجمہ ملاحظہ کیجئے: ’’ہند امریکہ ٹیرف تنازع کے درمیان وزیر اعظم مودی ا سماہ کے اخیر میں   اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب نہیں   کریں   گے‘‘ ۔ معلوم ہوا کہ مسئلہ تو ہنوز برقرار ہے مگر جب ہمنواؤں   نے سمجھ لیا ہے کہ مسئلہ حل ہوچکا ہے تو پھر حقائق کتنی ہی بڑی سرخیوں   میں   چھپیں   اس سے کیا فرق پڑ جائیگا؟ اُن کی رائے تو بدلنے والی نہیں   ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے : ایک تاریخ داں کا درد سے رشتہ اور اس کی اُداس نظمیں

 ۲۰۲۰ء کے ابتدائی مہینوں   سے لے کر کم و بیش پانچ سال تک، عوام سے کہا گیا کہ چین کو دشمن سمجھیں  ۔ ہمنواؤں   سے کہا گیا کہ وہ چینی ایپ اپنے موبائل سے نکال دیں   اور ٹی وی اُٹھا کر پھینک دیں  ۔ اُنہیں   سمجھایا گیا کہ کس طرح چین کو حاشئے پر لانے کیلئے ہم امریکہ سے تعلقات بڑھائینگے ۔ ایک بار پھر ماہرین نے زحمت کی اور یہ سمجھانا چاہا کہ کس طرح ہم مغربی ملکوں   کی برابری کرنے لگیں   گے مگر گزشتہ ہفتے ’’چین کو دشمن سمجھنے‘‘ کی بات پرانی ہوگئی کیونکہ اب ہم نے چین سے از سر نو دوستی گانٹھ لی ہے اور طے کرلیا ہے کہ امریکی بالادستی کو ٹھکانے لگا دیں   گے۔ کیا چین نے ہمارے بارے میں   اپنا نظریہ جو ۲۰۲۰ء میں   یا اس سے پہلے تھا، بدل دیا ہے؟ ہرگز نہیں  ۔ چینی حکومت اتنی آسانی سے اپنا نظریہ نہیں   بدلتی جتنی آسانی سے ہماری حکومت کے ہمنوا اپنا موقف بدل لیتے ہیں  ۔
 ایسی مزید باتیں   لکھی جاسکتی ہیں   مگر یہاں   میرا مقصد فہرست بنانا نہیں   بلکہ چند مثالوں   کے ذریعہ اپنے قارئین کو یہ بتانا ہے کہ ہماری حکومت نے گزشتہ دس گیارہ سال میں   کیا کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو نقصان ہوا وہ حقیقی ہے اور اس کی تلافی کیلئے کئی دہائیاں   درکار ہوں   گی۔ البتہ اُس مہارت کو ماننا پڑتا ہے جس کے تحت ہمنواؤں   کو   حال کے ملبے پر مستقبل کا محل محسوس کروایا جاتا ہے۔  

india china Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK