حکمراں پارٹی اور حکومت کے مختلف شعبوں سے یہ درخواست کرنا جائز ہے کہ وہ یہ دیکھیں کہ ان کو اطلاع فراہم کرنے والے کے ان ذریعہ مختلف عہدوں پر مقرر کئے ہوئے لوگ کہیں جھوٹی اطلاع تو فراہم نہیں کر رہے ہیں؟
EPAPER
Updated: May 03, 2025, 1:44 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai
حکمراں پارٹی اور حکومت کے مختلف شعبوں سے یہ درخواست کرنا جائز ہے کہ وہ یہ دیکھیں کہ ان کو اطلاع فراہم کرنے والے کے ان ذریعہ مختلف عہدوں پر مقرر کئے ہوئے لوگ کہیں جھوٹی اطلاع تو فراہم نہیں کر رہے ہیں؟
کسی بھی جگہ پر حتیٰ کہ نئے وقف قانون کے مطابق وقف کی جگہ پر بھی ۱۲؍ سال تک ناجائز طور پر قابض رہنے والا اس جگہ کا مالک تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ ملک میں عبادت گاہوں کی جگہ سے متعلق ایک قانون بھی ہے اس کے باوجود چونکہ ہر شخص کو عدالت سے رجوع کرنے کا حق ہے اسلئے اجمیر کی درگاہ کے بشمول کئی مقامات کیخلاف مقدمات دائر کئے گئے ہیں۔ دہلی کی جامع مسجد، قطب مینار، دارالعلوم دیوبند، لکھنؤ کے امام باڑہ آصفیہ اور دیگر مقامات کے بارے میں بھی بے سر پیر کی باتیں سننے میں آتی رہتی ہیں اسلئے ایجنسی کے حوالے سے جب اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ اقلیتی امور کی وزارت نے ۱۹؍ اپریل کی سماعت کے دوران اجمیر کی درگاہ کے خلاف دائر مقدمہ کو خارج کرنے کی درخواست دی ہے تو خوشی ہوئی کہ حکومت ہند اور اس کی اقلیتی امور کی وزارت نے اچھا قدم اٹھایا ہے۔ خبر میں یہ بھی درج تھا کہ مقدمے میں حکومت ہند کو فریق نہیں بنایا گیا ہے اور مقدمے کے اصل متن اور اس کے ترجمے میں بھی فرق پایا گیا ہے اسلئے خواہش ہوئی کہ اس موضوع پر ایک کالم لکھ کر حکومت ہند، اقلیتی امور کی وزارت اور حکمراں جماعت کو مبارکباد دی جائے لیکن اس کیلئے مزید معلومات درکار تھی۔ بڑی مشکل سے ایک نمبر حاصل کیا جو کسی ایسے صاحب کا تھا جو درگاہ کے امور سے واقف تھے۔ موصوف نے ٹیلی فون تو اٹھایا مگر کہا کہ مَیں آپ کو نہیں جانتا آپ کو جو معلومات چاہئے وہ منترالیہ سے حاصل کیجئے۔ مجھے اپنی گمنانی پر کوئی افسوس نہیںہے، افسوس اس کا ہے کہ انقلاب جیسے روزنامہ جو ملک بھر میں تقریباً ۱۵، ۱۶؍ شہروں سے شائع ہوتا ہے اور جس کا کالم نگار حکومت ہند اور حکمراں جماعت کو مبارکباد دینے کیلئے ایک خبر کی تصدیق اور مزید معلومات چاہتا تھا اس کو اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ اس کے توسط سے حکمراں جماعت اور حکومت کے خلاف بڑھتی بدگمانی کا ازالہ کیا جاتا، حکومت کو مبارکباد دی جاتی۔
یہ بھی پڑھئے:ملک کی بدلتی تصویر اور مسلم اقلیت کے خلاف رویے!
سیلاب کے ساتھ جیسے خس و خاشاک اور غلاظت بھی بہی چلی آتی ہے اقتدار اور دولت کے ساتھ موقع پرست اور چاپلوس بھی پیچھے لگ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں نے پہلے کانگریس اور اس کے لیڈروں کا کباڑا کیا اور اب بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ کون کس پارٹی میں شامل ہو؟ اس کا انتخاب ہر شخص کا حق ہے لیکن اس کا یہ فرض بھی ہے کہ جس پارٹی میں رہے یا جس عہدے پر رہے اس میں فیصلہ کرنے یا حکم صادر کرنے والوں کو صحیح باتوں سے آگاہ کرے، اُن صاحب کو چاہئے تھا کہ اقلیتی امور کی وزارت کو آگاہ کرتے کہ مسلمانوں میں ان کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے اور کالم نگار کے اس سوال کا جواب دیتے کہ یہ خبر صحیح ہے یا نہیں؟ مگر انہوں نے جو جواب دیا اس سے ظاہر ہوگیا کہ وہ حکومت کے وفادار ہیں۔ نہ اس پارٹی کے جو حکومت چلا رہی ہے نہ اس ملت کے جو طرح طرح کی آزمائشوں اور غلط فہمیوں میں مبتلا ہے۔ اپنے فائدے یا حکومت وقت کے عتاب سے بچنے کے لئے ایسے لوگ جو کر رہے ہیں وہ ان کے حق میں ہے نہ اس پارٹی کے حق میں جس نے انہیں عہدہ دیا ہے۔ اس لئے حکمراں پارٹی اور حکومت کے مختلف شعبوں سے یہ درخواست کرنا جائز ہے کہ وہ یہ دیکھیں کہ ان کو اطلاع فراہم کرنے والے کے ان ذریعہ مختلف عہدوں پر مقرر کئے ہوئے لوگ کہیں جھوٹی اطلاع تو فراہم نہیں کر رہے ہیں؟ یہ چاپلوس قسم کے لوگ حکومت اور پارٹی دونوں کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہ جو بھی بات کرتے یا اطلاع فراہم کرتے ہیں اپنے فائدے کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں۔ یہاں جن کا ذکر کیا گیا ہے انہوں نے بزدلی کے ساتھ حق کو چھپانے کا بھی کام کیا ہے۔ وہ خبر کی تصدیق کر دیتے تو ان کی یا اس پارٹی کے بارے میں غلط فہمیاں کم ہوتیں جس پارٹی نے ایک اہم عہدے پر ان کی تقرری کروائی ہے۔
وقف کی املاک و جائیداد، مذہبی عمارات و مقامات اور تاریخی حیثیت کی حامل عمارات کا اچھا انتظام کرنا حکومت کا فرض ہے۔ وہ جو فیصلے کرتی ہے اس میں وہ اطلاعات بھی شامل ہوتی ہیں جو ان کی پارٹی یا پارٹی سے رابطہ رکھنے والوں کی یا حکومت کے مقرر کئے ہوئے لوگوں کی فراہم کی ہوئی ہوتی ہیں۔ شاید اسی لئے حکومت کو اطلاع ہی نہیں ہوتی کہ عوام کیا سوچ رہے ہیں اور جو سوچ رہے ہیں ان میں ان افراد کی سوچ اور کارکردگی کا کیا عمل دخل ہے کیونکہ ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید اپنے ہم مذہبوں کو برا بھلا کہنا اور ہر مسئلہ میں حکومت کو ورغلانا ان کی ترقی کا باعث بنے گا۔ اسی طرح کچھ پارٹیاں سمجھتی ہیں کہ تصادم و ٹکراؤ یا اشتعال انگیزی ہی ہر مسئلے کا علاج ہے۔
اجمیر کی درگاہ ملک کے ہر طبقے کے لئے قابل احترام ہے۔ غیر مسلم یہاں مرادیں مانگنے اور مسلمان یہاں روحانی سکون حاصل کرنے آتے ہیں۔ یہاں کی درگاہ کے خلاف ایک صاحب نے عدالت میں مقدمہ دائر کیا، عدالت نے نوٹس جاری کیا مگر حکومت نے کہا کہ اس مقدمے میں اس کو فریق نہیں بنایا گیا ہے اور استغاثہ کے ترجمے میں بھی غلطی ہے اس لئے یہ ناقابل سماعت ہے، اس سے لگتا ہے کہ عبادت و زیارت اور تاریخی اہمیت کے حامل مقامات کے خلاف درخواستیں دینے والے سنجیدہ اور باصلاحیت لوگ نہیں ہیں مگر ہر استغاثہ اور درخواست کو حکومت قابل ِ اعتنا نہیں سمجھتی۔ اگر نائب وہ صاحب صحیح موقف واضح کر دیتے تو کیا مضائقہ تھا؟ اس سے تو حکومت اور حکمراں پارٹیوں یا محاذ کا ہی بھلا ہوتا۔ زبان و ادب کے معاملے میں بھی یہی ہورہا ہے۔ حکومت و حکمراں پارٹی سے تعلق یا قریبی رابطہ رکھنے والے لوگ مخبر اور آلۂ کار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ سچائی کو چھپانے، خوشامد کرنے اور اپنے ہم مذہبوں کو برا کہنے سے ان کی ترقی ہوجائے گی اس لئے ان کو یہ مشورہ دینا برحق ہے کہ آپ سے پہلے کے چاپلوس اور جھوٹی ہمدردی یا سرپرستی حاصل کرنے والے جب سرخرو نہیں ہوئے تو آپ کیسے ہوں گے؟ تاریخ بتاتی ہے کہ میر جعفر اپنا اقتدار اور عزت بچا سکے نہ ان کے پڑ پوتے پاکستان کے ایک وزیراعظم اسکندر مرزا تو کوئی اور صاحب اپنا اقتدار و عہدہ اور عزت کیسے بچائیں گے۔ جی حضوری کبھی نہ کبھی گلا ضرور ناپتی ہے۔ قدرت کا یہ اصول ہے کہ وہ خوشامد کو ترقی کا زینہ سمجھنے والوں کو ایک نہ ایک دن رسوا اور سچ بول کر عتاب مول لینے والوں کو بالآخر سرخرو ضرور کرتی ہے۔