Inquilab Logo Happiest Places to Work

حکومت کی گیارہ سالہ کارکردگی کو کیسے دیکھا جائے؟

Updated: June 18, 2025, 1:28 PM IST | P. Chidambaram | Mumbai

کسی بھی حکومت کی کارکردگی کو ٹھوس حقائق کی روشنی اور طے شدہ معیارات پر اعدادوشمار کے حوالے سے پرکھنا چاہئے تاکہ دلیل ناقابل تردید ہو۔ عموماً ایسا نہیں کیا جاتا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

کوئی بھی ایک نقطۂ نظر ہمیشہ درست نہیں  ہوتا۔ البرٹ آئنسٹائن کے فلسفے کی کئی ممتاز سائنسدانوں  نے گرفت کی۔ اُن میں  سے ایک ہمارے اپنے سائنسداں  جینت نرلیکر تھے جن کا گزشتہ ماہ (۲۰؍ مئی کو) انتقال ہوا۔ جب تک کسی دیگر نقطۂ نظر میں  بددیانتی شامل نہ ہو، تب تک اُس میں  کوئی نہ کوئی سچائی اور صحیح بات موجود رہتی ہے جس کا احترام کیا جانا چاہئے۔ یہ ایسی خوبی ہے جسے موجودہ حکومت نے پچھلے گیارہ سال میں  پروان چڑھنے نہیں  دیا۔ 
 وزیر اعظم مودی نے حال ہی میں  اپنے اقتدار کے گیارہ سال مکمل کئے ہیں ۔ اس زاویئے سے وہ سب سے طویل مدت تک وزیر اعظم بنے رہنے والی تیسری شخصیت بن گئے ہیں ۔ یہ اُن کی اقتدار پر جمے رہنے اور تسلسل کےساتھ الیکشن جیتنے کی صلاحیت کا ثبوت ہے۔ ہر حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو کچھ مثبت اور کچھ منفی باتیں  بآسانی مل جاتی ہیں ۔ موجودہ این ڈی اے حکومت اس سے مستثنیٰ نہیں  ہے۔ مودی صاحب کی حکومت اعدادوشمار پر انحصار کرتی ہے جس سے اسٹاک میں  اضافہ ہی ہوسکتا ہے۔ اگر اسکولیں  اور سڑکیں  تعمیر کی گئیں  تو اس سے اسکولوں  ( کی تعداد) اور سڑکوں  (کی طوالت) کے اسٹاک میں  اضافہ ہوگا لیکن عوام، حکومت کو جن معیارات پر ناپتے تولتے ہیں  وہ مختلف ہیں ۔ وہاں  اعدادوشمار یا اسٹاک کی کچھ خاص معنویت نہیں  ہوتی۔
  عوام ایک ایسے معیار پر حکومت کو ناپتے تولتے ہیں  جو قابل پیمائش نہیں  ہے۔ اُن کے پاس ایک ہی معیار ہے اور وہ ہے ’’اچھی اور مؤثر حکمرانی‘‘ ۔ اس معیار پر حکومت کی کارکردگی کو آنکتے وقت عوام یہ دیکھتے ہیں  کہ حکومت کتنی اچھی، کتنی مضبوط اور کتنی انصاف پسند ہے نیز شہری اپنے اور اہل خانہ کے معیارِ زندگی سے کتنے مطمئن ہیں  اور آئندہ کیلئے کیا توقع رکھتے ہیں ۔ عوام کی پسند ناپسند اور اطمینان اور بے اطمینانی کو اعدادوشمار میں  نہیں  ڈھالا جاسکتا۔ 
 میرا تجزیہ کہتا ہے کہ وطن عزیز جتنا مضبوط اور انصاف پسند ۰۱۴ء میں  تھا اب اُتنا نہیں  رہ گیا ہے۔ بلاشبہ، بہت سوں  کی زندگی بہتر ہوئی ہے مگر اُن سے بھی زیادہ آبادی ایسے لوگوں  کی ہے جن کی زندگی میں  غیر یقینیت، غربت، بے روزگاری اور خوف پیدا ہوا ہے۔ معاشی اصلاحات اور آزادکاری کا عمل ۱۹۹۰ء کی دہائی میں  شروع ہوا تھا جس کا مقصد ملک کی شرح نمو (گروتھ ریٹ) کو بہتر بنانا تھا۔ یوپی اے (۲۰۰۴ء تا ۲۰۱۴ء) کے دَور میں  اوسط جی ڈی پی میں  اضافہ کی شرح ۷ء۴۶؍ فیصد (پرانی سیریز کے مطابق) اور ۶ء۷؍ فیصد (نئی سیریز کے مطابق) تھی۔ ۱۵۔۲۰۱۴ء کے بعد بالخصوص ۲۰۔۲۰۱۹ء کے بعد سرکاری اعدادوشمار سے گروتھ ریٹ میں  تخفیف کا اشارہ ملنے لگا تھا۔ ۲۵۔۲۰۲۴ء میں  بھی گروتھ ریٹ معتدل ہی تھی۔ ۱۵۔۲۰۱۴ء سے حقیقی جی ڈی پی کی سالانہ نمو (جسے کمپاؤنڈیڈ اینوئل گروتھ ریٹ) کہا جاتا ہے ۶ء۱؍ فیصد تھی۔ یہی شرح  ۵ء۱؍ فیصد ہوئی ۲۰۔۲۰۱۹ء سے۔ اس دوران زراعت، صنعت اور مینوفیکچرنگ میں  سست رفتاری درج کی گئی اور یہ شعبے ۵؍ فیصد سے کم کی شرح پر رہے جبکہ خدمات کے شعبے نے نسبتاً بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اس کی شرح ۵ء۴؍ فیصد رہی۔
 عام لوگوں  کی زندگی کیسی ہے اس کا سب سے بڑا اِشاریہ یہ نہیں  ہوتا کہ جی ڈی پی کا حجم کتنا ہے بلکہ فی کس آمدنی کتنی ہے۔ یو پی اے کی دس سالہ حکومت میں  فی کس آمدنی دوگنا سے بھی زیادہ ہوگئی تھی۔ اس کا صحیح عدد تھا: ۲ء۶۴؍ فیصد یعنی ۵۴۳؍ امریکی ڈالر سے ۱۴۳۸؍ امریکی ڈالر۔ اس کے برخلاف این ڈی اے کی موجودہ حکومت میں  اضافے کی شرح ۱ء۸۹؍ گنا ہے چنانچہ فی کس آمدنی ۱۴۳۸؍ ڈالر سے ۲۷۱۱؍ ڈالر، پھر۱۱؍ویں  سال میں  ۲۸۷۸؍ ڈالر ہوئی۔ اس طرح ہندوستان ۱۹۶؍ ملکوں  کی فہرست میں  ۱۳۶؍ ویں  مقام پر ہے۔ ہندوستان کے پاس ۲۰؍ سال میں  ۱۴؍ ہزار امریکی ڈالر کی فی کس آمدنی کا سنہرا موقع تھا اگر ۸؍ فیصد گروتھ کو برقرار رکھا جاتا۔ تب یہ اُمید قوی ہوجاتی کہ ہم ترقی یافتہ ملک بن جائینگے۔
 غیر معمولی طور پر دولتمند اور غیر معمولی طور پر غریب کا جو فرق ملک میں  پیدا ہوا ہے اور جس کی وجہ سے معاشی نابرابری کی خلیج کافی بڑھ گئی ہے وہ تو کسی حکومت کی کارکردگی کو ناپنے کا آلہ ہے ہی، اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ عوام کی زندگیوں  میں  کتنا اطمینان اور کتنی بے اطمینانی یعنی کتنی آسودگی اور کتنا خوف ہے۔ اس نقطۂ نظر سے سماج کو دیکھیں  تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ اکثریت پسندی اور اکثریت پرستی کا رجحان غالب ہے، فرقہ وارانہ اور طبقہ وارانہ کشیدگی اور تشدد میں  اضافہ ہوا ہے، نفرتی تقاریر اور بیانات کی بہتات ہے، بڑے صنعتکاروں  کیلئے ہر طرح کی سہولت (کرونی کیپٹلزم)، عدالتی نظام کے اپنے مسائل، وفاقی ڈھانچے میں  دراڑیں  اور آمریت کی جانب بڑھتے قدم، یہ سب ملک کی موجودہ صورتحال کے بارے میں  بہت کچھ بتاتے ہیں ۔ اس سلسلے میں  صرف دو مثالو ں  پر اکتفا کرتا  ہوں ۔ ایک ہے انکم ٹیکس قانون کو ہتھیار کے طور پر اور منی لانڈرنگ کے قانون کو سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرنا اور دوسرا ہے احمد آباد اور ممبئی کے درمیان ایک لاکھ آٹھ ہزار کروڑ کی لاگت سے بلیٹ ٹرین چلانے پر اصرار کرنا جبکہ ۲۰۱۴ء تا ۲۰۲۵ء ممبئی کی سبربن ٹرینوں  کے نیٹ ورک پر ۲۹۹۷۰؍ مسافروں  کی ہلاکت اور ۳۰۲۱۴؍ کا زخمی ہونا۔ اس سے حکومت کی ترجیحات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے : ہندوستان، پاکستان کے سیاسی معاملات کا اصل مسئلہ

 گیارہ سالہ کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ کیا ہندوستان ’مضبوط‘ ہوا ہے۔ مضبوط ہونے سے میری مراد ہے کہ پڑوسی ملکوں  سے ہمارا کتنا اتحاد، دوستی اور باہمی روابط ہیں ، ہماری سرحدیں  کتنی محفوظ ہیں ، مسلح افواج کی صلاحیتوں  میں  کتنا اضافہ ہوا ہے، دُنیا کے مختلف ملکوں  سے ہمارے تعلقات میں  کتنی بہتری آئی ہے وغیرہ۔ اس معیار پر جانچا جائے تو معلوم ہوگا کہ پہلگام سانحے اور آپریشن سیندور کے بعد ہماری کمزوریاں  جگ ظاہر ہونے لگیں ۔ ہم نے اپنے پارلیمانی نمائندوں  کو سری لنکا، میانمار، بنگلہ دیش، بھوٹان، نیپال، افغانستان، مالدیپ اور ماریشس نہیں  بھیجا۔ دیگر ملکوں  میں  بہت سوں  نے پہلگام سانحہ کی مذمت کی مگر اس کیلئے پاکستان کی مذمت نہیں  کی۔ 
 یہ اور ایسی کئی باتوں  کے پیش نظر جب مَیں  اپنے آپ سے پوچھتا ہوں  کہ کیا مجھے ہندوستانی شہری ہونے پر فخر ہے تو میرے اندر سے اثبات میں  جواب آتا ہے کہ ہاں  مجھے فخر ہے مگر جب مَیں  پوچھتا ہوں  کہ ہندوستان کے طرز حکمرانی سے مطمئن ہوں  تو جواب نفی میں  برآمد ہوتا ہے۔ مَیں  اُس دن کا منتظر ہوں  جب میرا ملک زیادہ مضبوط ہوگا، بہتر ہوگا اور اس سرزمین پر انصاف کا دور دورہ ہوگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK