• Tue, 14 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مشینوں پر قائم رہے گی انسان کی بالادستی

Updated: October 10, 2025, 4:30 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

بھارت کی فضائیہ کے سربراہ امرپریت سنگھ نے واضح کیا ہے کہ مستقبل میں پائلٹ کے بغیر چلائے جانیوالے طیارے ضرور مزید ترقی یافتہ صورت میں سامنے لائے جائیں گے، ان کا استعمال بھی بڑھے گا مگر انہیں چلائیں یا استعمال میں لائینگے انسان ہی۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این
کچھ دنوں پہلے ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک نے بیان دیا تھا یا ایکس پر پوسٹ کیا تھا کہ جنگ کا مستقبل ڈرون یعنی پائلٹ کے بغیر پرواز کرنے اور اپنے ہدف کو نشانہ بنانے والے طیارے ہیں۔ انسانوں کے ذریعہ چلائے جانے والے بمبار طیارے نہیں مگر ہماری یعنی بھارت کی فضائیہ کے سربراہ امرپریت سنگھ نے واضح کیا ہے کہ مستقبل میں پائلٹ کے بغیر چلائے جانے والے طیارے ضرور مزید ترقی یافتہ صورت میں سامنے لائے جائیں گے، ان کا استعمال بھی بڑھے گا مگر انہیں چلائیں یا استعمال میں لائیں گے انسان ہی، وہ خود سے کام نہیں کرسکتے۔ راقم الحروف کو اس بیان یا موقف سے پورا اتفاق ہے۔
انسان بنام مشین کی بحث بہت پرانی ہے۔ ’نیا دور‘ نامی فلم بھی بن چکی ہے مگر یہ سب نے تسلیم کیا ہے کہ انسانوں نے مشین بنائی ہے۔ مشینوں نے انسان نہیں بنائے۔ اس لئے انسان کو اولیت و بالادستی حاصل ہے۔ مصنوعی ذہانت بھی انسان کی فطری ذہانت نے ہی تخلیق کی ہے اس لئے اس سے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اقبال نے تو یہاں تک کہا ہے کہ انسان ایسی مشین اور روبوٹ تخلیق کرسکتا ہے جو انسانوں کی طرح کام کریں مگر ایسی مشینوں یا روبوٹ میں یہی نہیں کہ انسانی احساس اور مروت نہیں پیدا کی جاسکتی بلکہ یہ انسان کے اندر موجود فطری احساس و مروت کو بھی کچل دیتے ہیں۔
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
بھارتی فضائیہ کے سربراہ امرپریت سنگھ نے یہ بھی کہا کہ یہ صحیح ہے کہ روس و یوکرین جنگ میں یا پہلگام حملے کے بعد بھارت پاک تصادم میں ’ڈرون‘ کا اہم کردار سامنے آیا لیکن یہ بھی دیکھا گیا کہ ’ڈرونس‘ کی کارکردگی کا بہتر نتیجہ تبھی سامنے آیا جب ان کو صحیح طریقے سے استعمال کیا گیا۔ کوئی بھی جنگ سمجھداری اور باہمی تعاون کے بغیر نہیں جیتی جاسکتی، چاہے یہ شرکت اور تال میل انسانوں اور مشینوں میں ہو یا انسانوں اور مشینوں کے درمیان۔ بھارت سمیت کئی ملکوں میں اَن مینڈ کمبیٹ ایئریل وہیکل یعنی ایسی جنگباز گاڑیاں یا ڈرون کی تیاری کے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے جس کو چلانے والا کوئی انسان نہیں ہوگا۔ برطانیہ، اٹلی اور جاپان گلوبل کمبیٹ ایئر پروگرام بنانے میں لگے ہوئے ہیں وہیں امریکہ NGAD تباہ کر چکا ہے اور چین CHENGDU J-36 تیار کر رہا ہے مگر یہ طے ہے کہ یہ سب ٹیم میں یعنی دوسروں کے اشتراک و تعاون سے ہی کام کریں گے اور ان کی لگام کسی انسان یا انسانوں کے ہاتھ میں ہوگی۔ فضائیہ کے سربراہ نے ’آپریشن سیندور‘ کی کامیابی کو دہراتے یا صاف صاف بیان کرتے ہوئے پڑوسی ملک کے جھوٹ کا پردہ بھی فاش کیا۔ ان تمام باتوں اور حقائق سے ظاہر ہے کہ مشینیں تو آئیں گی، روبوٹ کی نئی نئی شکلیں بھی متعارف ہوں گی مگر ان میں سے کوئی بھی انسان کا نعم البدل نہیں ثابت ہوسکتے۔ مشینیں جو بھی کریں گی انسانوں کے تعاون سے یا ماتحتی میں کریں گی۔ انسان کی سبقت و فوقیت مسلم ہے۔ مصنوعی ذہانت یا روبوٹ یا مشینیں انسانی ذہانت کی پیداوار ہیں، انسان کی فطری ذہانت کسی مشین یا روبوٹ کے رحم و کرم پر نہیں ہے۔ امرپریت سنگھ کی باتوں یا وضاحت سے وہ خوف کم ہوا ہے جو مشینوں اور روبوٹ کے استعمال یا کارکردگی یا ان کے بارے میں پھیلائے ہوئے جھوٹ کے سبب پیدا ہوگیا تھا۔
اقبال کا مصرع ہے:
جذبِ باہم جو نہیں محفل ِ انجم بھی نہیں
وہ فرد و ملت، مشرق و مغرب، انسان و کائنات میں ربط باہم یا جذب باہم کے قائل بھی تھے۔ انہوں نے انسان اور جانور کی رفاقت پر بھی اصرار کیا ہے اس لئے ان کے انسان اور مشینوں کے آپسی تعلق کا قائل ہونے سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ بعض یورپی شعراء اور ناقدین نے اقبال کو ترجمے کے ذریعہ پڑھتے ہوئے محسوس کیا ہے کہ ان کی نظموں یا شاعری پر والٹ وھٹ مین کے فلسفۂ عمل و اقدام کا اثر مرتب ہوا ہے۔ وھٹ مین شاعر ہوتے ہوئے بھی نظری نہیں عملی شخص تھا۔ اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے کہ اقبال نے اس خیال سے کہ شاعری میں صرف ہونے والے وقت کو کسی مفید کام میں لگائیں شاعری یا شعر گوئی ترک کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن پروفیسر آرنلڈ کے منع کرنے پر شعر گوئی جاری رکھی۔ اقبال کا پروفیسر آرنلڈ سے کیا تعلق تھا اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب ’فلسفۂ الہیات کا ارتقاء ایران میں‘ کا انتساب پروفیسر آرنلڈ کے نام کیا تھا۔ آرنلڈ کے انتقال کے بعد ان کی اہلیہ کے نام تعزیتی خط میں بھی انہوں نے لکھا تھا کہ ’’پروفیسر آرنلڈ نے میری روح کی تربیت کی اور مجھے علم کے راستوں سے آشنا کیا۔‘‘ واقعہ بھی یہی ہے کہ فلسفہ اور علم کلام کے مشکل مضامین کو اقبال نے شاعرانہ دلکشی کے ساتھ پیش کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس کامیابی میں ڈاکٹر اے جی براؤن کی تربیت کا بھی اثر تھا جو اقبال کے مربی اور استاذ تھے۔
مقصد اور فن کا خوبصورت امتزاج اقبال کی شاعری کا کمال ہے انہوں نے انسان اور مشینوں کی رفاقت پر بھی روشنی ڈالی ہے مگر انسان کی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے۔ ۶؍ جنوری ۱۹۲۶ء کو براؤن کے انتقال پر اقبال نے فلسفۂ تاریخ لکھا تھا جس کا ایک مصرع ہے:
فیض ِ او در مغرب و مشرق عمیم
وہ خود بھی فیض رساں بننا چاہتے تھے انہوں نے مشینوں اور ان کے خالقوں کو ہی نہیں کائنات کے خالق کو بھی مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے ’’تو شب آفریدی چراغ آفریدم‘‘ یعنی تو نے رات بنائی اور میں نے چراغ بنا کر رات کو روشن کیا۔ مطلب یہ کہ فیض رسانی کے سلسلے کو جاری رکھا۔ موجودہ دور میں چراغ بنانا بھی مشینوں کے رہین منت ہے۔ ان کا پیغام ہے کہ انسان مشینوں کا خالق اور استعمال کرنے والا ہے وہ ان کی تخلیق اور استعمال اس طرح کرے کہ مشینیں انسانی شرف اور مشینوں یا سائنسی ایجادات کی افادیت کو متاثر نہ کریں۔ بھارتی فضائیہ کے سربراہ امرپریت سنگھ نے یہی کہا ہے کہ مشین اور روبوٹ انسان کے رحم و کرم ہیں اور انسان انہیں انسانوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے ہی استعمال کرے گا۔ اقبال کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے انسان کو عظمت ِ آدم کا احساس دلایا۔ انسان میں بھی ہر طبقے، ہر مذہب اور ہر خطے کے انسان کو۔ عظمت آدم کو ترانہ بناتے ہوئے ہی انہوں نے کہا ہے:
ازل اس کے پیچھے اَبد سامنے
نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK