بنگلہ دیش کے کالائی اُپ ضلع کے بیگونی گاؤں میں ۴۵؍ سالہ سفیرالدیناپنے گھر کے باہر دوپہر کی مدھم دھوپ میں اینٹوں سے بنی نامکمل دیواروں کے سائے میں بیٹھےپیٹ کے نیچے دائیں جانب اٹھتے مدھم درد کو سہلاتے رہتے ہیں۔
EPAPER
Updated: July 05, 2025, 12:10 PM IST | Inquilab News Network | Dhaka
بنگلہ دیش کے کالائی اُپ ضلع کے بیگونی گاؤں میں ۴۵؍ سالہ سفیرالدیناپنے گھر کے باہر دوپہر کی مدھم دھوپ میں اینٹوں سے بنی نامکمل دیواروں کے سائے میں بیٹھےپیٹ کے نیچے دائیں جانب اٹھتے مدھم درد کو سہلاتے رہتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے کالائی اُپ ضلع کے بیگونی گاؤں میں ۴۵؍ سالہ سفیرالدیناپنے گھر کے باہر دوپہر کی مدھم دھوپ میں اینٹوں سے بنی نامکمل دیواروں کے سائے میں بیٹھےپیٹ کے نیچے دائیں جانب اٹھتے مدھم درد کو سہلاتے رہتے ہیں۔ ۲۰۲۴ء کی گرمیوں میں انہوں نے اپنا ایک گردہ پڑوسی ملک میں ۳ء۵؍ لاکھ ٹکہ (تقریباً ۲؍ لاکھ ۴۵؍ ہزار ہندوستانی روپے) میں اس امید پر بیچ دیا تھا کہ اس سے ملنےوالی رقم سے وہ اپنے خاندان کو غربت کو کم کر سکیں گے اور اپنے ۳؍ بچوں، ۵؍ اور ۷؍ سال کی ۲؍بیٹیوں اور ۱۰؍ سال کے بیٹے، کیلئے پکاگھر تعمیر کرلیں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔ وہ رقم تو کب کا ختم ہوگئی، گھر کی تعمیر مکمل نہیں ہوسکی البتہ رہ رہ کراٹھنے والا درد یہ احساس دلاتا رہتا ہے کہ انہوں نے اس کی کیا قیمت چکائی ہے۔
اب وہ یومیہ مزدوری کرتے ہیں۔ صحت بتدریج بگڑتی جا رہی ہے، — مستقل درد اور تھکن کی وجہ سےمعمول کے کام کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ سفیر الدین کہتے ہیں کہ’’میں نے اپنا گردہ فروخت کردیا تاکہ میرے خاندان کی زندگی بہتر ہو جائے۔ میں نے اپنی بیوی اور بچوں کیلئے سب کچھ کیا۔ ‘‘ ان کے مطابق اُس وقت یہ فیصلہ اتنا خطرناک معلوم نہیں ہورہا تھا۔ دلال نےکچھ اس طرح بتایاتھا کہ سب کچھ بہت آسان لگ رہا تھا، ایسا معلوم ہورہاتھا کہ کسی طرح کاکوئی خطرہ نہیں بلکہ ایک موقع ہے جس کا فائدہ اٹھانا چاہئے۔ سفیر الدین کچھ شکوک و شبہات میں مبتلا تھے مگر غربت اور ضرورت تمام خدشات پر غالب آگئی اور وہ راضی ہوگئے۔ دلال اپنے اخراجات پرمیڈیکل ویزا پر بذریعہ طیارہ انہیں پڑوسی ملک لے گئے۔ وہ اپنے بنگلہ دیشی ویز ا پروہاں پہنچے مگر وہاں فرضی دستاویزات کے ذریعہ انہیں اُس شخص کا خاندانی رشتہ دار دکھایاگیا جسے گردہ عطیہ کیا جانا تھا۔ اس طرح سفیرا لدین کا گردہ ایک ایسے اجنبی کو لگا دیا گیا جسے وہ کبھی ملے بھی نہیں ۔ ان کے مطابق’’ مجھے نہیں معلوم کہ میرا گردہ کس کو دیا گیا۔ اُنہوں (دلالوں ) نے مجھے کچھ نہیں بتایا۔ ‘‘
سفیر الدین اکیلے نہیں ہیں اور نہ ان کی کہانی نئی ہے۔ ۶؍ ہزار سے بھی کم آبادی والے بیگونی گاؤں میں گردہ بیچنا اتنا عام ہے کہ آس پاس کے لوگ اس گاؤں کو’’ایک کڈنی لوگوں کا گاؤں ‘‘ کہتے ہیں۔ کالائی اُپ ضلع جس میں بیگونی آتاہےگردہ کے کاروبار کا گڑھ بن گیاہے۔ ’برٹش میڈیکل جرنل گلوبل ہیلتھ ‘میں شائع ہونےوالی ۲۰۲۳ء کی تحقیق کے مطابق یہاں ہر ۳۵؍ میں سے ایک شخص اپنا گردہ فروخت کرچکاہے۔ یہ بنگلہ دیش کے انتہائی پسماندہ اور غربت زدہ علاقوں میں سے ایک ہے۔ گردہ فروخت کرنےوالے زیادہ افراد اپنی عمر کی ۳۰ء ویں دہائی کے اوائل میں ہیں۔ اکثر فوری طور پر کچھ پیسے مل جانے کی لالچ میں اپنے جسم کے انتہائی اہم حصے کو فروخت کردینے پر راضی ہوجاتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق ۸۳؍ فیصد نے بتایا کہ انہوں نے غربت کی وجہ سے گردہ فروخت کرنے کافیصلہ کیا جبکہ کچھ کے گردہ بیچنے کی وجہ قرض کی ادائیگی، منشیات کی لت اور جوئےکی لت بھی تھی۔ الجزیرہ نے کالائی اُپ ضلع کے ایسے درجنوں افراد سے گفتگو کی جنہوں نے اپنے گردے بیچے ہیں۔ سب کی کہانی ایک جیسی ہے کہ معاشی پریشانیوں کی وجہ سے اس کیلئے راضی ہوئے۔
(الجزیرہ کی طویل رپورٹ کا ایک حصہ)