Inquilab Logo Happiest Places to Work

جشن ِآزادی: ایسا موقع اور ایسی باتیں؟

Updated: August 20, 2025, 12:50 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

مودی جی نے آر ایس ایس کی تعریف سے لے کر متعدد ایشوز تک پر اظہار خیال کیا مگر جو بات زیادہ باعث ِتشویش ہے وہ ان کی تقریر کا وہ حصہ ہے جس میں انہوں نے مبینہ آبادیاتی تبدیلی کو موضوع بنایا اور ملک میں ایک نئے بحران کے بیج بونے کی سازش کا دعویٰ کیا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

۲۰۱۴ء میں  وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد سے نریندر مودی ہر سال یوم آزادی کے موقع پر قوم سے خطاب کرتے ہیں ۔ اس بار ۱۵؍ اگست کے موقع پر لال قلعہ پر انہوں  نے جو تقریر کی وہ کئی لحاظ سے ان کی پچھلی تقریروں  سے الگ تھی۔ یہ تقریر اب تک کی گئی ان کی طویل ترین تقریر تھی۔ یہ تقریر اس لئے بھی منفرد تھی کیونکہ پہلی بار کسی سربراہ مملکت نے لال قلعہ سے آر ایس ایس کی تعریف و توصیف کی۔ آر ایس ایس وہ تنظیم ہے جس کا ملک کی آزادی کی تحریک میں  کوئی کردار نہیں  تھا۔ یہ وہی تنظیم ہے جس پرگاندھی جی کی شہادت کے بعد سردار پٹیل نے پابندی لگادی تھی۔
اپنی ایک سو منٹ طویل تقریر میں  مودی جی نے یوں  تو متعدد ایشوز پر خامہ فرسائی کی لیکن اس کالم کا موضوع ان کی تقریر کا وہ حصہ ہے جس میں  انہوں  نے مبینہ آبادیاتی تبدیلی پراپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ملک میں  ایک نئے بحران کے بیج بونے کی سازش رچے جانے کا دعویٰ کیا۔آبادیاتی تبدیلی بھی دراصل آر ایس ایس کے دیرینہ پروپیگنڈہ کا ہی ایک حصہ ہے۔ آر ایس ایس طویل عرصے سے یہ پروپیگنڈہ کررہی ہے کہ ملک میں  مسلمانوں  کی آبادی میں  اضافہ ہورہا ہے۔ مودی جی کی نظریاتی تربیت چونکہ اسی تنظیم کے ہاتھوں  ہوئی اسی لئے آبادی کے ایشو پر ان کے خیالات بھی اس سے مختلف نہیں  ہیں ۔
یوم آزادی کی تقریر میں  مودی جی نے قوم کو یہ انتباہ کیا کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سرحد پار سے آنے والے گھس پیٹھیوں  کے ذریعہ ملک کے ڈیموگرافی کو تبدیل کیا جارہا ہے۔انہوں  نے دعویٰ کیا کہ یہ گھس پیٹھئے ہندوستانی نوجوانوں  کی روزی روٹی چھین رہے ہیں ،بہنوں  اور بیٹیوں  کو نشانہ بنارہے ہیں  اور بھولے بھالے آدیباسیوں  کو گمراہ کرکے ان کی زمینوں  پر قبضہ کررہے ہیں ۔ وزیر اعظم نے ان دراندازوں  کو قومی سلامتی، یکجہتی اورسالمیت کیلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے ایک ہائی پاورڈیموگرافک مشن بنانے کا اعلان بھی کیا۔
سوائے اس مشن کے اعلان کے مودی جی نے آبادیاتی تبدیلی کے متعلق جتنی باتیں  ۱۵؍ اگست کے دن کہیں  ان میں  سے ایک بھی نئی نہیں  تھی۔ یہ سب کچھ وہ پچھلے سال ستمبر میں  جھارکھنڈ اسمبلی الیکشن کی انتخابی مہم کے دوران کہہ چکے تھے۔ انہوں  نے دعویٰ کیا تھا کہ بنگلہ دیشی اور روہنگیا گھس پیٹھئے جھارکھنڈ خصوصاً سنتھال پرگنہ کی ڈیموگرافی بدل رہے ہیں  جہاں  آدیباسی آبادی تیزی سے کم ہورہی ہے۔ مودی جی نے جمشیدپور کی ریلی میں  بھی الزام لگایا تھا کہ گھس پیٹھئے مقامی باشندوں  کی زمینیں  ہتھیا رہے ہیں  اور ان کی بہو بیٹیوں  کو نشانہ بنارہے ہیں ۔پچھلے ہفتے نئی بات صرف یہ ہوئی کہ ہندوستان کی تاریخ میں  پہلی بار کسی وزیر اعظم نے لال قلعہ کی فصیل کو سیاسی اور انتخابی تقریر کے لئے استعمال کیا۔ماضی کے وزرائے اعظم لال قلعہ سے آزادی کا جشن مناتے تھے، ان بزرگوں  کو خراج عقیدت پیش کرتے تھے جن کی قربانیوں  سے یہ آزادی ہمیں  نصیب ہوئی اور سب سے اہم بات یہ کہ وہ عوام کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ کا درس دیتے تھے۔ جبکہ مودی جی کی یوم آزادی کی تقریر سن کر سی پی آئی (ایم) لیڈر برندا کرات یہ فیصلہ نہیں  کرسکیں  کہ یہ ایک ’’سیکولر جمہوری ملک کے وزیر اعظم‘‘ قوم سے خطاب کررہے تھے یا ایک ’’فرقہ پرست تنظیم کے پرچارک؟‘‘ 
 مودی جی کے ڈیموگرافک مشن کا اعلان اور بہار میں  الیکشن کمیشن کے ذریعہ ووٹر لسٹ کی خصوصی نظر ثانی (SIR) میں  کیا تعلق ہے؟ بہار میں  SIRکا جو شوشہ چھوڑا گیا اس کا مقصد بھی تو گھس پیٹھیوں  کے ناموں  کا پتہ لگانا بتایا گیا تھا۔ ۶۵؍ لاکھ حذف شدہ ناموں  میں  کتنے گھس پیٹھئے شامل ہیں  اس راز سے الیکشن کمیشن نے پردہ نہیں  اٹھایا اور نہ ہی کبھی اٹھاپائے گا۔ پچھلے سال جھارکھنڈ اسمبلی الیکشن میں  بھی بنگلہ دیشی گھس پیٹھیوں  کو بی جے پی نے اہم انتخابی ایشو بنایا تھااورجے ایم ایم پر ان گھس پیٹھیوں  کی سرپرستی اور حمایت کا الزام لگایا تھا۔مغربی بنگال میں  ممتا بنرجی  اور دلی میں  اروند کیجریوال پر بھی یہی الزام لگایا جاتا ہے۔  مطلب یہ کہ جہاں  جہاں  بی جے پی ہارتی ہے وہاں  وہاں  اسے بنگلہ دیشی گھس پیٹھیوں  کا بھوت نظر آنے لگتا ہے۔ شاید بی جے پی لیڈران یہ سمجھنے لگے ہیں  کہ جو لوگ ان کی پارٹی کو ووٹ نہیں  دیتے ہیں  وہ ہندوستانی شہری ہو ہی نہیں  سکتے۔ کیا ڈیموگرافی میں  تبدیلی کا شو شہ اسی لئے چھوڑا گیا ہے کہ ہر صوبے میں  علاقائی پارٹیوں  کے ووٹروں  کے ایک بڑے طبقے کو حق ِ رائے دہندگی سے محروم کردیا جائے؟
 آر ایس ایس اور بی جے پی کا یہ دیرینہ بیانیہ رہا ہے کہ ہندوستان میں  مسلمانوں  کے آبادیاتی حملے کو اگر نہیں  روکا گیا تو ہندو آبادی ایک دن اپنی اکثریت کھودے گی اور ہندوستان ایک اسلامی ریاست میں  تبدیل ہوجائے گا۔ وطن عزیز کی مجموعی آبادی میں  مسلمانوں  کا تناسب ۱۵؍ فیصد سے بھی کم ہے اس کے باوجود مسلسل یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ ایک سو کروڑ ہندوؤں  کو بیس کروڑ مسلمانوں  سے خطرہ لاحق ہے۔پچھلے دس سالوں  سے ایک سے زیادہ بی جے پی لیڈر ہندوعورتوں  کو یہ وارننگ دیتے رہے ہیں  کہ اگر انہوں  نے زیادہ بچے پیدا نہیں  کئے تو ہندوؤں  پر مسلمانوں  کا غلبہ ہوجائے گا۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے(NFHS) کے اعدادو شمار سے یہ بات پوری طرح واضح ہوچکی ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں  میں  ملک کی دیگر قوموں  کی مانند مسلمانوں  کی شرح افزائش بھی کافی گھٹی ہے۔  اسی موضوع پر سابق چیف الیکشن کمشنر وائی ایس قریشی نے اپنی  عالمانہ کتاب میں   ان تمام مفروضات کو منہدم کردیاجو مسلمانوں   کی آبادی کے حوالے سے سنگھ پریوار کی  جانب سے پھیلائے جاتے ہیں ۔
 

یہ بھی پڑھئے : سورت میں ہیروں کی صنعت کا بحران کیوں؟

جب ماہرین نے یہ ثابت کردیا کہ اگلے ایک ہزار سال میں  بھی ہندوستان میں  مسلمانوں  کی آبادی ہندوؤں  کی آبادی کو پیچھے نہیں  چھوڑ سکتی تو ہندو قوم پرستوں  نے پینترا بدلا۔ اب ہندوستانی مسلمانوں  کے بجائے بنگلہ دیشی دراندازوں  کا واویلا شروع کردیا گیا۔ بغیر کسی ثبوت کے اوربغیر اعداد وشمار کے لگاتار یہ پرچار کیا جارہا ہے کہ غیر ملکی گھس پیٹھئے سرحدی ریاستوں  کی ڈیموگرافی بدل رہے ہیں  تاکہ ہندوؤں  کو خوفزدہ کرکے بی جے پی سیاسی اور انتخابی پولرائزیشن کا فائدہ اٹھا سکے۔یاد رہے کہ بہار، مغربی بنگال اور آسام جیسی ریاستوں  میں  اگلے چند ماہ میں  اہم اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں ۔ میرا سوال یہ ہے کہ مودی جی جب یہ کہتے ہیں  کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت گھس پیٹھئے سرحدی ریاستوں  کی ڈیموگرافی تبدیل کررہے ہیں  تو کیا وہ خوداپنی ناکامی کا اعتراف نہیں  کررہے ہیں  کیونکہ پچھلے گیارہ برسوں  سے ہندوستان کی باگ ڈور تو ان کے ہی ہاتھوں  میں  ہے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK