• Mon, 15 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

پلاسٹک سے پاک جدید معاشرہ کا تصورممکن ہے؟

Updated: September 15, 2025, 1:25 PM IST | sarwarul-huda | Mumbai

پلاسٹک کے نقصانات سے کسی سے انکار نہیں مگر اس کے فوائد سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ’’نو پلاسٹک‘‘ کی کوشش اور ’’یَس پلاسٹک‘‘ پر اصرار کے درمیان کافی عرصہ سے ٹھنی ہوئی ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 ہندوستان ٹائمز مورخہ ۲۱؍ اگست ۲۰۲۵ء میں  کرشن کمار کا ایک مضمون درج بالا عنوان ہی کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ پانچ اگست سے پندرہ اگست کے درمیان جنیوا میں  ہونے والی کانفرنس میں  پلاسٹک کی روک تھام کے سلسلے میں  غور کیا گیا۔ کرشن کمار نے پلاسٹک بیگ کے کلچر کو ماحولیاتی نقط نظر سے دیکھا ہے۔ اس کانفرنس میں  تین ہزار سات سو مندوبین نے شرکت کی۔ اسے inc-5.2 کا نام دیا گیا۔ آئی این سی کا فل فارم تلاش نہ کرنا پڑے اس غرض سے عرض ہے کہ 
International Negotiating Committee
ہے۔ اس سلسلے کی پہلی کانفرنس ۲۰۲۲ء میں  ہوئی تھی۔ عجیب اتفاق ہے کہ دونوں  جلسوں  میں  مندوبین کسی فیصلے اور واضح لائحہ عمل تک نہیں  پہنچ سکے۔ اس کی وجہ جدید معاشرے میں  پلاسٹک کے تعلق سے اپنے اپنے دلائل ہیں ۔ پلاسٹک کو تہذیبی زندگی کا اہم ترین حوالہ قرار دیا جا رہا ہے یعنی پلاسٹک کے جو منفی نتائج ہیں  ان سے قطع نظر اس کے کئی روشن پہلو بھی اجاگر کئے جا رہے ہیں ۔ گویا پلاسٹک کم قیمت پر سامان کی حفاظت کا وسیلہ ہے۔ پلاسٹک بیگ میں  کھانے پینے کی اشیاء زیادہ محفوظ رہتی ہیں ، یہ بھی ایک دلیل ہے جو پلاسٹک بیگ کی حمایت میں  پیش کی جاتی ہے۔ 
 پلاسٹک کے تعلق سے بننے والے انگریزی کے درج ذیل چار الفاظ عام زندگی کا حصہ ہیں :
 Reuse, Reduce, Recycle, Recover
انہیں  بولتے ہوئے خیال بھی نہیں  آتا کہ ان کا رشتہ انگریزی زبان سے ہے لیکن پلاسٹک بیگ کے تعلق سے انہیں  پیش کرنا محض صوتی آہنگ ہی نہیں ، ایک نئی تہذیبی ضرورت کا وسیلہ معلوم ہوتے ہیں ۔ پلاسٹک بیگ میں  شفاف پانی کتنا محفوظ معلوم ہوتا ہے۔ کبھی پلاسٹک بیگ میں  بھرے ہوئے پانی کو دھوپ کی تمازت میں  بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ پلاسٹک جو سرد موسم اور سائے میں  بہت محفوظ دکھائی دیتا ہے، نہ جانے دھوپ کی کتنی شدت سے گزر چکا ہے۔ دھوپ کی شدت پلاسٹک اور پولیتھین کو اپنی گرماہٹ سے کچھ پگھلا دیتی ہے اور پگھلنے کے بعد جو مادہ پانی اور دوسری اشیاء میں  مل جاتا ہے وہ دکھائی نہیں  دیتا۔ پلاسٹک بیگ اور پلاسٹک بوتل کا حسن ڈرائنگ روم میں  زیادہ نکھر جاتا ہے۔ عام آدمی کا ڈرائنگ روم تو بازار، کھیت اور کھلیان ہے۔ وہاں  پانی کا وہ بیگ جاتا ہے جو ہاتھوں  میں  آ کر زندگی کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ یہ پانی اتنا کم ہوتا ہے کہ پیاسے کو کئی تھیلیوں  کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس پلاسٹک کے اوپر پانی کے وہ قطرے کم دکھائی دیتے ہیں  جو عموماً عام بوتلوں  پر اس وقت دکھائی دیتے ہیں  جب انہیں  حرارت کا سامنا ہوتا ہے۔ سرد پانی کو کچھ نارمل کرنے میں  کبھی زیادہ وقت لگتا ہے کبھی کم۔ پلاسٹک سے بنے بیگ کے خریدار ہر معاشرہ میں  موجود ہیں  جن کی اقتصادی حالت ایک جیسی نہیں  ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ پلاسٹک مالدار ملکوں  سے ہوتا ہوا نادار معاشرہ تک پہنچتا ہے۔ مالدار ملکوں  میں  پلاسٹک جس شعور کے ساتھ تہذیبی زندگی میں  داخل ہوتا ہے وہ شعور غریب ملکوں  میں  پایا تو جاتا ہے مگر اس کے تعلق سے ذہن ایک ہی طرح نہیں  سوچتا۔
 سوال یہ ہے کہ پلاسٹک پر پابندی کے تعلق سے کسی فیصلے تک نہ پہنچنا کس ذہنیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پلاسٹک کی حمایت یا مخالفت میں  الگ الگ دلائل پیش کیے جا سکتے ہیں  لیکن پلاسٹک کی مخالفت یا اسے رد کرنے میں  جو ذہن کار فرما ہے اس کی تشکیل ماحولیات نے کی ہے۔ فطرت کو روشن ذہن کے حامل لوگ کبھی کبھی نگاہ ِکم سے دیکھتے ہیں ۔ اس کی وجہ فطرت کا وقتی ضرورت اور افادیت کی راہ میں  حائل ہو جانا ہے۔ پلاسٹک بیگ کو ضائع کرنے کے بعد بھی اس کو چننے اور جمع کرنے والے ہمارے معاشرے کے افراد ہیں  جو کوڑے کے آس پاس پلاسٹک کی بوتلوں  کو اور بیگوں  کو جمع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اگر پلاسٹک بیگ اور بوتل روزی روٹی کا وسیلہ ہے تو اب اس بارے میں  کچھ لکھتے اور کہتے ہوئے شرم سے نگاہ جھک جاتی ہے۔ نگاہ تو اس وقت بھی جھک جاتی ہے جب کوئی ہماری ہی طرح کا یا ہم سے ملتا جلتا انسان غلاظت کے ڈھیر سے پلاسٹک کی بوتلوں  کو جمع کر رہا ہوتا ہے۔
 بازار میں  خریداروں  کا کپڑے کا تھیلا یا اس قسم کی کسی اور شے کا ساتھ نہ لانا پلاسٹک کلچر کو رواج دینے کا اہم ذریعہ ہے۔ بنگلہ دیش دنیا کا ایسا پہلا ملک ہے جس نے ۲۰۲۲ء میں  پلاسٹک بیگ پر پابندی لگا دی تھی۔ ہمارے ہاں  پلاسٹک کو ممنوع قرار دینے والا سکم پہلا صوبہ ہے۔ پلاسٹک کی زندگی کافی دیر پا ہے مگر یہ بازاروں  سے گھروں  میں  آ کر کچھ اس طرح گھل مل جاتا ہے کہ جیسے اس کے بغیر زندگی دشوار ہو۔ جب پلاسٹک کا تھیلا بارش کے موسم میں  سر اور جسم کو پانی سے بچانے کا وسیلہ بن جاتا ہے تو لگتا ہے جیسے پلاسٹک پلاسٹک نہ ہو، انسانی لباس ہو مگر گرمی کے موسم میں  پلاسٹک کا جسم پگھلنے لگتا ہے۔ ایک وہ تار کول ہے جو سڑکوں  پر پگھل کر بدبو پھیلاتا ہے اور دوسرا پلاسٹک ہے جو پگھلتا بھی ہے تو کچھ شرما کر سمٹ ساجاتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے : چین انجینئروں کا معاشرہ، امریکہ قانون دانوں کا اور ہم؟

 پلاسٹک کلچر پر دنیا میں  ناول بھی لکھے گئے اور شاعری بھی ہوئی۔ زیادہ تر ادیبوں  نے پلاسٹک کلچر کو فطرت کے لیے خطرہ قرار دیا۔ رنجن گھوش کی ایک کتاب ’’پلاسٹک ٹیگور: تھنکنگ اباؤٹ یسٹر ڈے‘‘ ہے۔ اس میں  پلاسٹک کلچر کے بارے میں  براہ راست کچھ تو لکھا نہیں  مگر ایک ایسا زاویہ نظر اختیار کیا گیا ہے جس کی روشنی میں  ٹیگور کی شاعری کو اس کلچر کے سیاق میں  دیکھا جا سکتا ہے۔ پلاسٹک کلچر ایک نظر اور نظریے میں  تبدیل ہو چکا ہے۔ اس کی بابت جتنا کچھ سوچا اور لکھا جاتا ہے وہ اتنی ہی تیز رفتاری کے ساتھ اپنی پھیلتی ہوئی دنیا کا اعلان کرتا ہے۔ پلاسٹک سے پاک جدید معاشرہ کا تصور وقت کے ساتھ تصور ہی میں  تبدیل ہوتا جاتا ہے۔ منموہن کی ایک نظم  ’’پلاسٹک کی خوشامد‘‘ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے:
یادیں  مٹ جائیں  گی/ لیکن پلاسٹک رہے گا/ اور وہ یادیں  جو پلاسٹک سے بنی ہیں / لوگ چلے جائیں  گے/ لیکن پلاسٹک رہے گا/ اور وہ لوگ جو پلاسٹک سے بنے ہیں / باتیں  رہیں  گی نہ کام رہیں  گے/ لیکن پلاسٹک رہے گا/ اور پلاسٹک کی باتیں  اور پلاسٹک کے کام/ یوں  استعمال کرو اور پھینک دو/ یہ پلاسٹک کی ہی تہذیب ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK