Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیا ’’تارکین وطن کی سیاست‘‘ کا کوئی حل ہے؟

Updated: August 26, 2025, 1:45 PM IST | Jayant Bhattacharya | Mumbai

وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اپنی پارٹی کے اراکین کوبی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں بنگالی بولنے والوں کے گرفتار کئے جانے کے خلاف تحریک چلانے کی ہدایت دی ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

مغربی بنگال میں  ایک تنازع سر اُبھار رہا ہے جس کے تعلق سےکچھ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہےکہ اس سےآئندہ اسمبلی انتخابات میں بنگال کا ’بھدر لوک ‘ ( طبقہ اشرافیہ) متاثرہوسکتا ہے۔ بھدر لوک ایک سماجی طبقہ ہے جو بنگال میں  برطانوی دور اقتدار میں پروان چڑھا تھا۔ یہ طبقہ زمیندار، تعلیم یافتہ اورپیشہ ورافراد پر مشتمل تھا جس نےبنگالی تہذیب، سیاست اورعلم و دانش کوایک رُخ دینے میں  اہم کردار ادا کیا۔ اب جبکہ مارچ، اپریل۲۰۲۶ ء میں  ریاستی اسمبلی کے انتخابات متوقع ہیں ، ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کے ذریعے شروع کی گئی مہم میں ’ بنگالی افتخار‘ کا عنصر نمایاں  ہے۔ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اپنی پارٹی کے اراکین کوبی جے پی کی حکومت والی ریاستوں  میں  بنگالی بولنے والوں  کے گرفتار کئے جانے کے خلاف تحریک چلانے کی ہدایت دی ہے لیکن کیا یہ قوم پرستی کے نام پربی جےپی کے کھیل کو روکنے کیلئے کافی ہوگا؟ ممتا بنرجی کے سابق لیفٹیننٹ اور موجودہ اپوزیشن لیڈر سوویندو ادھیکاری کا الزام ہے کہ ممتا کی مہم انتظامی تنازعات پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔ انہوں  نے کہا ہے کہ ممتا حکومت بدعنوانی، شہریوں  کی حفاظت اور تحفظ کے فقدان اور دیگر سنگین مسائل سے توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔ ادھیکاری نے ٹی ایم سی پر اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کیلئے مغربی بنگال میں  ’بنگالی بولنے والے روہنگیا‘ کو پناہ دینے کا الزام بھی لگایا ہے ۔ اس دوران ممتا بنرجی نے اپنی ریاست میں  رہنے والے کم از کم ۲؍ افراد کو آسام حکومت کی جانب سے ملنے والے نوٹس کا حوالہ دیا ہے۔ ان میں  سے ایک کوچ بہار ضلع کا ایک کسان ہے جسے گزشتہ سال کے آخر میں  آسام فورینرس ٹریبونل سے نوٹس ملا تھا ۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما نے اس کی تردید کی۔ انہوں  نے ایکس پر ایک پوسٹ میں  کہا کہ ’’ آسام کے لوگ، بالخصوص ہندو، اپنی ہی سرزمین پر ایک مایوس اقلیت بنتے جارہے ہیں  اور یہ سب کچھ صرف۶۰؍ سال کے عرصے میں  ہوا ہے۔‘‘
  آسام میں  مغربی بنگال کے ساتھ یا اس کے آس پاس ہی اسمبلی انتخابات ہونے ہیں ۔ یہاں  طویل عرصے سے ’’دراندازی‘‘ ایک مسئلہ رہا ہے جسے دونوں  ریاستوں  میں  لگاتار اٹھایا گیا ہے۔ تشویش کا اظہار اس پر کیا جارہا ہےکہ بنگالی بولنے والے تارکین وطن مبینہ طور پر اُن زمینوں  پر قا بض ہیں  جووہاں  کے مقامی باشندوں  کی ملکیت ہیں ۔ ۱۹۷۹ء کے آغاز سے، آسام نے ایک ہنگامہ خیز دور کا مشاہدہ کیا جس میں  طلبہ اور دانشورسڑکوں  پر اترے ہیں ۔ اس کے ذریعے ریاست میں  بڑے پیمانے پر غیر قانونی تارکین وطن کی آمد اوراس سے آسام کی سیاست، ثقافت اور معاشیات پر پڑنے والے اثرات کے خلاف آوا ز اٹھانا تھا ۔۶؍ سال بعد۱۵؍ اگست ۱۹۸۵ء کو نئی دہلی میں  مرکزی اور ریاستی حکومتوں  اور تحریک کے لیڈروں  نے آسام معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے اپنے سماجی، ثقافتی اور سیاسی اثرات تو تھے ہی، اس کے علاوہ اس سے جو فریم ورک تشکیل پایا تھا، اسی سے نیشنل رجسٹریشن آف سٹیزنس (این آر سی) کی راہ ہموار ہوئی تھی ۔ اب یہ صورتحال شدیدہوچکی ہے اور آسام میں  این آر سی کی مشق کو ٹی ایم سی نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ۲۰۱۸ء کے اوائل میں ، ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ سوگتا رے نےالزام لگایا تھا کہ یہ عمل آسام سے بنگالی بولنے والے لوگوں  کو نکالنے کی سازش ہے۔ 
 دلچسپ بات یہ ہے کہ مئی ۲۰۰۵ء میں  ڈی ایم کے کے ایس ریگوپتی نے جو منموہن سنگھ حکومت میں وزیر مملکت برائے داخلہ تھے، راجیہ سبھا میں  کہا تھا کہ ’حکومت ہندوستانی شہریوں  کا ایک قومی رجسٹر تیار کرنے اور ملک کے شہریوں  کوایک کثیر مقصدی قومی شناختی کارڈ جاری کرنے کی تجویز رکھتی ہے۔‘‘ انہوں  نے اس سوال کے جواب میں  یہ بات کہی تھی کہ کیا غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن کی علاحدہ شناخت اور علاحدہ شناختی کارڈ کی تجویز ہے اور اس کی گھر گھر تصدیق کیلئے کوئی پائلٹ پروجیکٹ پہلے سے جاری ہے؟‘‘
 ۲۰۰۱ء اور ۲۰۱۱ء کی مردم شماری سے معلوم ہوا کہ آسامی زبان بولنے والوں  کی آبادی میں  تقریباً ۱۶؍ فیصد اضافہ ہوا پھر بھی آسام کی کل آبادی میں  اس کا حصہ دہائی میں  ۰ء۴۲؍ فیصد کم ہوا۔ اس کے برعکس، بنگالی بولنے والوں  کی آبادی ۲۰۰۱ء اور۲۰۱۱ء کے درمیان ۲۳؍ فیصد بڑھی۔ ہندوستان کی مردم شماری ۱۹۱۱ء جلد سوم، آسام، پیرا ۱۰۰ (صفحات ۹۷-۹۶) میں  کہا گیا تھا کہ ’’ ایک بڑی غیر ملکی آبادی کی زبان بنگالی ہی نشان زد کی گئی ہے جبکہ میدانی علاقوں  میں  رہنے والے زیادہ تر قبائلی دو زبانیں  بولتے ہیں  لیکن ان کی مادری زبان کی نشاندہی آسامی کے طور پرہوئی ہے ۔‘‘ اس میں  لکھیم پور کے ایک واقعے کا بھی حوالہ دیا گیا جہاں  شمار کنندگان نےوالدین کا اندراج ہندی بولنے والے اور لکھیم پور میں  پیدا ہونے والے ان کے بچے کو آسامی بولنے والے کے طورپر اندراج کیا تھا ۔

یہ بھی پڑھئے : ہم نے خود اپنی رات کو اتنا طویل کر لیا

 بنگال وہ ریاست ہیں  جہاں  اکثر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہاں  سرحدی اضلاع اوربنگلہ دیش سے آکر بسنے والوں  کی بڑی تعداد ہے۔ بی جے پی نے اس کیلئے ٹی ایم سی پر مغربی بنگال کی اقلیتی آبادی کے تقریباً۴۰؍ فیصد کو انتخابی فائدہ کیلئے خوش کرنے کا الزام لگایا ہے۔۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق اس وقت ریاست کی آبادی کا تقر یباً۲۷؍ فیصد مسلمان تھے۔ ایک بار پھر، مغربی بنگال کی تاریخ اور جغرافیہ ایسا ہے کہ ’’بیرونی‘‘ کی شناخت کرنا ایک چیلنج ہے۔ تاہم، مماثلت کے باوجود، بنگلہ دیش اور ہندوستان میں  بولی جانے والی بنگالی زبان میں  فرق ہے۔ اپنی تاریخی درجہ بندی میں ، ماہر لسانیات سنیتی کمار چٹرجی نے وسیع علاقائی گروہوں  کی نشاندہی کی جن میں  سے ہر ایک کی لفظی اور لسانی ادائیگی مختلف ہے۔ بنگالی بنگلہ دیش میں  سرکاری زبان ہو سکتی ہے، لیکن وہاں  اس کے الفاظ عربی اور فارسی سے ماخوذ ہیں ۔ مثلاً مغربی بنگال میں  باپ عموماً ’بابا‘ ہوتا ہے مگر بنگلہ دیش میں  `’ابو‘۔ ماں  کی بہن کو یہاں  `’ماسی‘ کہا جاتا ہے جبکہ بنگلہ دیش میں  ’خالہ‘ ۔ تلفظ اور لغت بھی مختلف ہوتی ہے۔ تاہم، جیسا کہ آسام میں  ۲۰۰۱ء کی مردم شماری کے دستاویزات میں  ذکر کیا گیا کہ ایک مہاجر کی اولاد بنگالی بول سکتی ہے جیسا کہ مغربی بنگال میں  بولی جاتی ہے۔ بنگالی بولنے والے ہندوستانیوں  میں  پہلی نسل کے تارکین وطن میں  زبان کی شناخت آسان ہے۔ کسی تجربہ کار کیلئے دوسری نسل کی زبان اور بولی میں  آنے والے فرق کی نشاندہی کوئی مشکل کام نہیں  ہے۔ بہر حال حقیقت یہ ہےکہ انتخابی اور سیاسی مفادات دراندازوں  کا تعین کرنے کیلئے ایسی وسیع مشقوں  کی بہت کم گنجائش چھوڑتے ہیں ۔ قوم کی صحت کا انحصار اس پیچیدہ مسئلے کو اس طرح حل کرنے پر ہے کہ اس میں   کوئی فخر وتعصب یا قلیل مدتی مفادکا پہلو نہ ہو۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK