۲۰۱۹ء لوک سبھا الیکشن کے قبل سیتا رام یچوری نے بایاں محاذ اور کانگریس پارٹی کے ممکنہ انتخابی سمجھوتہ کے لئے ایک سیاسی قرار داد تیار کی تھی جسے کرات نے سی پی ایم کے سینٹرل کمیٹی کے اراکین کے ذریعہ مسترد کروادیا۔ ان کی اس ضد کی وجہ سے اس الیکشن میں پارٹی پورے ملک میں محض تین سیٹیں جیت سکی۔
۲۰۰۵ء میں جب پرکاش کرات کو سی پی آئی(ایم) کی قیادت کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اس وقت پارٹی عوامی مقبولیت اور سیاسی طاقت کی بلند یوں پر تھی۔ اپریل کے اوائل میں جب انہیں پارٹی سے سبکدوش کیاگیا اس وقت سی پی ایم تنزلی اور تباہی کی عمیق گہرائیوں میں گرچکی تھی۔ جب سب سے بڑی کمیونسٹ جماعت سی پی آئی (ایم) کی حیثیت اتنی دگرگوں ہوچکی ہے تو ظاہر ہے کہ بائیں بازو کی چھوٹی جماعتوں مثلاً سی پی آئی، فارورڈ بلاک اور آر ایس پی کے بارے میں کچھ نہ کہنا ہی بہتر ہوگا۔
۲۰۰۴ء میں سی پی ایم کی قیادت میں بائیں بازو کے اتحاد نے ۶۱؍ لوک سبھا سیٹیں جیت کر تاریخ رقم کی تھی اورسی پی ایم نےتن تنہا ۴۴؍ سیٹیں حاصل کرکے ایک عدیم المثال کارنامہ انجام دیا تھا۔ منموہن سنگھ کی سربراہی میں یوپی اے کی جو مخلوط سیکولر حکومت بنی بایاں محاذ گرچہ اس میں شامل نہیں تھا تاہم اس نے اسے باہر سے حمایت دی اور حکومت پر اس کا اثر و رسوخ واضح طور پر دیکھا جاسکتا تھا۔ کرات کو ایسے وقت میں پارٹی کی قیادت ملی جس وقت ان کی پارٹی عروج پر تھی۔لیکن انہوں نے اپنے غلط فیصلوں اور غیر ذمہ دارانہ رویوں کی وجہ سے پارٹی کا بیڑہ غرق کردیا۔ وزیر اعظم سنگھ اور یوپی اے چیئرپرسن سونیا گاندھی نے سی پی ایم اور اس کے کمیونسٹ اتحادیوں کو ضرورت سے زیادہ اہمیت اور احترام کیا دے دیا، کرات کا دماغ ساتویں آسمان پر جاپہنچا۔ انہیں لگا کہ وہ حکومت پر اپنا ہر فیصلہ مسلط کرسکتے ہیں ۔ جب یو پی اے حکومت نے امریکہ کے ساتھ جوہری توانائی معاہدہ پر دستخط کئے تو کرات نے اس کی شدید مخالفت شروع کردی۔ کئی ماہ کی محاذ آرائی کے بعد جولائی ۲۰۰۸ء میں کمیونسٹ اتحاد نے یوپی اے حکومت سے حمایت واپس لے لی لیکن کرات کے توقع کے برعکس منموہن سنگھ حکومت کے وجود پر کوئی آنچ نہیں آئی لیکن ان کے اس بدبختانہ فیصلے کی وجہ سے سی پی ایم تباہ ہوگئی۔
۲۰۰۹ء لوک سبھا کے نئے انتخابات میں کانگریس کو ۲۰۰۴ء سے بھی بڑی اکثریت حاصل ہوئی اور منموہن سنگھ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ کرات نے جوہری معاہدہ کی مخالفت میں ہندوستانی عوام کا برین واش کرنے کی جان توڑ کوشش کی لیکن ووٹروں نے کانگریس کو زبردست مینڈیٹ سے نوازکر یہ واضح کردیا کہ ان کی نگاہ میں جوہری معاہدہ ملک کے مفاد کے خلاف نہیں تھا۔ سی پی ایم اور بایاں محاذ کو منہ کی کھانی پڑی۔ بایاں محاذ کی سیٹیں ۶۱؍ سے گھٹ کر ۲۴؍ اور سی پی ایم کی ۴۴؍ سے گھٹ کر ۱۶؍ رہ گئیں ۔بائیں بازو کی طاقتوں کا زوال جاری رہا۔ ۲۰۱۴ء میں سی پی ایم صرف دس سیٹیں جیت سکی۔ ۲۰۱۵ء میں سی پی ایم میں کرات کی دوسری مدت صدارت کا خاتمہ ہوا۔ لیکن اس وقت تک پارٹی کا انہوں نے جو حشر کرنا تھا وہ کردیا۔ ان کی دس سالہ قیادت کے دوران ہی مغربی بنگال میں سی پی ایم کو اقتدار سے اکھاڑپھینکا گیا۔یہ صحیح ہے کہ بنگال میں پارٹی کی شرمناک شکست بدھادیب بھٹا چاریہ کے کسان دشمن حصول اراضی کی وجہ سے ہوئی۔ لیکن یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ۲۰۰۸ء میں کرات نے کانگریس کی حکومت سے حمایت واپس نہ لی ہوتی تو ۲۰۰۹ء کے لوک سبھا اور ۲۰۱۱ء کے بنگال اسمبلی کے انتخابات میں ممتا بنرجی کو کانگریس کے ساتھ انتخابی تال میل کا موقع نہیں ملتا اور اگر بایاں محاذ مخالف ووٹ متحد نہیں ہوتا تو بہت ممکن ہے کہ ترنمول کانگریس اقتدار میں نہیں آپاتی۔
۲۰۱۹ء لوک سبھا الیکشن کے قبل سیتا رام یچوری نے بایاں محاذ اور کانگریس پارٹی کے ممکنہ انتخابی سمجھوتہ کے لئے ایک سیاسی قرار داد تیار کی تھی جسے کرات نے سی پی ایم کے سینٹرل کمیٹی کے اراکین کے ذریعہ مسترد کروادیا۔ ان کی اس ضد کی وجہ سے اس الیکشن میں پارٹی پورے ملک میں محض تین سیٹیں جیت سکی۔
کرات ضدی بھی ہیں اور نظریاتی شدت پسندی کا شکار بھی۔ سابق لوک سبھا اسپیکر سومناتھ چٹرجی نے اپنی سوانح عمری میں کرات کو "arrogant and intolerant"قرار دیا ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ سی پی ایم اور بائیں بازو تحریک کی زبوں حالی کرات کی خود سری اور غیر ذمہ داری کی وجہ سے ہوئی۔ بنگال کے سابق وزیر اعلیٰ اور عظیم کمیونسٹ رہنما جیوتی باسو نے بھی کانگریس حکومت سے حمایت واپس لینے کے کرات کے فیصلے کی مخالفت کی تھی۔ ۱۹۹۶ء میں جیوتی باسو کو وزیر اعظم بنانے کی تجویز کو ٹارپیڈو کرنے والے پارٹی لیڈروں میں بھی کرات پیش پیش تھے۔ بعد میں جیوتی باسو نے پارٹی کے اس فیصلے کو "historic blunder"قرار دیا تھا۔ کرات کو شاید اپنی پارٹی کے لیڈروں کو اہم عہدوں پر دیکھنا پسند نہیں تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے چند سال قبل سیتا رام یچوری سے تیسری بار راجیہ سبھا کا رکن منتخب ہونے کا موقع چھین لیا تھا۔ ۲۰۰۸ء میں کرات نے سومناتھ چٹرجی جیسے بھاری بھرکم لیڈر کو پارٹی سے نکال دیا۔ چٹرجی دس بار لوک سبھا کے رکن منتخب ہونے والے ایک نہایت قابل کمیونسٹ لیڈر تھے جن کا احترام ان کے مخالفین بھی کرتے تھے۔ کرات نے انہیں صرف اس لئے نکال دیا کیونکہ انہوں نے کرات کے فرمان پر سر جھکانے سے انکار کردیا تھا۔جوہری معاہدے پر کانگریس کے ساتھ جاری رسہ کشی کے دوران کرات نے چٹرجی کو لوک سبھا کے اسپیکر کے عہدے سے مستعفی ہونے کی ہدایت دی جسے انہوں نے ٹھکرادیا۔ اپنی کتاب میں چٹرجی نے دعویٰ کیا ہے کہ جیوتی باسو نے انہیں یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ اسپیکر کے منصب کو نہ چھوڑیں کیونکہ یہ منصب غیر سیاسی ہوتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کرات مسلسل یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ان کی پارٹی بی جے پی اور سنگھ پریوار کی فرقہ وارانہ سیاست کا آخری دم تک مقابلہ کرے گی تاہم انہوں نے جو فیصلے کئے ان کی وجہ سے بی جے پی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی۔ ۲۰۰۴ء میں لوک سبھا انتخابات کے بعد دو عظیم لیڈروں ہر کشن سنگھ سرجیت اور جیوتی باسو کی انتھک کاوشوں کی وجہ سے دلی میں کانگریس کی مخلوط حکومت قائم ہوسکی تھی۔ بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کی خاطر باسو اور سرجیت نے اپنے سخت گیر اشتراکی اصولوں سے سمجھوتہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا کیونکہ ان دونوں کو یہ اندازہ تھا کہ بی جے پی اقتدار میں آگئی تو ملک کی کیا حالت ہوگی۔ کرات نے اپنی اندھی کانگریس مخالفت میں یہ نہیں سوچا کہ اگر کانگریس حکومت کو گرادیں گے تو بی جے پی کے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ کرات کو اپنے کئے پر کوئی ندامت یا تاسف نہیں ہے۔وہ جان ایلیا کے اس شعر کی تفسیر بنے پھرتے ہیں : میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں ۔