• Sat, 18 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

نیویارک میئر انتخابات: ظہران ممدانی، اینڈریوکومو اور کرٹس سلیوا کے درمیان مباحثہ

Updated: October 17, 2025, 11:18 AM IST | New York

نیویارک سٹی کے میئر کے عہدے کیلئے تینوں امیدواروں کے درمیان پہلا ٹیلی ویژن مباحثہ ہوا، جس میں جرائم، رہائش، مہنگائی اور غزہ جنگ بندی جیسے اہم موضوعات پر گرما گرم بحث ہوئی۔ ڈیموکریٹک امیدوار ظہران ممدانی اور سابق گورنر اینڈریو کومو کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ نمایاں رہا، جبکہ ریپبلکن امیدوار کرٹس سلیوا نے دونوں پر تنقید کے نشتر چلائے۔

Zohran Mamdani, Andrew Cuomo and Curtis Silva during the debate. Photo INN
ظہران ممدانی، اینڈریوکومو اور کرٹس سلیوا مباحثہ کے دوران۔ تصویر آئی این این

نیویارک سٹی کے تین میئر امیدواروں نے جمعرات کی رات ٹی وی پر نشر ہونے والے دو مباحثوں میں سے پہلے مباحثے میں شرکت کی جب کہ ووٹرز کے پولنگ اسٹیشنز پر جانے میں تین ہفتے سے بھی کم وقت باقی ہے۔ اسٹیج پر ڈیموکریٹک امیدوارظہران ممدانی، سابق گورنر اینڈریو کومو جو جون میں ممدانی سے ڈیموکریٹک پرائمری ہارنے کے بعد بطور آزاد امیدوار میدان میں اترےاور ریپبلکن امیدوار کرٹس سلیوا موجود تھے۔ موجودہ میئر ایرک ایڈمز، جنہوں نے چند ہفتے قبل انتخابی دوڑ سے دستبرداری اختیار کر لی تھی، شریک نہیں ہوئے۔ دو گھنٹے طویل اس مباحثے میں امیدواروں نے مقامی اور قومی نوعیت کے مختلف موضوعات پر بحث کی، جن میں جرائم، پولیسنگ، مہنگائی، رہائش، نقل و حمل، ڈونالڈ ٹرمپ کی حکومت سے نمٹنے کے طریقے، اور غزہ میں حالیہ جنگ بندی معاہدہ شامل تھے۔ 

مقابلے کے دو بڑے امیدوار، ممدانی اور کومو، بحث کے آغاز ہی سے آمنے سامنے آگئے اور ان کے درمیان سلیوا موجود تھے۔ کومو، جو۲۰۲۱ء میں جنسی ہراسانی کے متعدد الزامات کے بعد نیویارک کی گورنری سے مستعفی ہو گئے تھے، اب دوبارہ سیاست میں واپسی کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے بحث کا آغاز پرائمری مباحثوں کی طرح کیا اور ممدانی کو ’’نااہل اور غیر تجربہ کار‘‘ قرار دیا۔ کومو نے کہا: ’’یہ نوکری تربیت حاصل کرنے کے دوران سیکھنے کی نہیں ہے۔ اگر آپ ناکام میئرز کو دیکھیں تو وہ وہی ہوتے ہیں جن کے پاس انتظامی تجربہ نہیں ہوتا۔ ‘‘ممدانی، جو۳۳؍ سالہ اسمبلی ممبر ہیں اور کوئینز سے تعلق رکھتے ہیں اور خود کو ’’ڈیموکریٹک سوشلسٹ‘‘قرار دیتے ہیں، نے کومو کو جواب دیتے ہوئے اپنے پانچ سالہ قانون ساز تجربے اور نیویارک سٹی میں اپنی زندگی کے تجربات کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا،’’میں وہ شخص ہوں جو واقعی اس شہر میں کرایہ ادا کرتا ہے، وہ جو بس کا انتظار کرتا ہے جو کبھی نہیں آتی، وہ جو اسی شہر سے اپنی خریداری کرتا ہے۔ ‘‘ کومو نے طنزیہ جواب دیا:’’اسمبلی مین نے جو کہا، اس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس کوئی تجربہ نہیں۔ ‘‘ ممدانی نے فوراً پلٹ کر کہا: ’’میرے پاس جو تجربہ نہیں، وہ میں دیانت داری سے پورا کرتا ہوں اور جو دیانت داری آپ کے پاس نہیں، اسے کبھی تجربے سے پورا نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: یمن: حوثی آرمی چیف میجر جنرل محمد الغماری کی اسرائیلی حملے میں شہادت کی تصدیق

کومو سے اس رات ان الزامات کے بارے میں بھی پوچھا گیا جن کے نتیجے میں انہیں گورنر کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا، اور کووِڈ-۱۹؍وبا کے دوران نرسنگ ہومز میں اموات کے ان کے طرزِ عمل پر بھی سوال اٹھایا گیا۔ ان سے پوچھا گیا کہ ووٹرز کیوں ان پر اعتماد کریں کہ ان کے پاس ’’میئر بننے کا کردار‘‘ موجود ہے؟کومو نے اپنے دفاع میں کہا کہ ’’یہ تمام الزامات بے بنیاد تھے اور ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ‘‘رات بھر، ریپبلکن امیدوار سلیوا جو’’گارڈین اینجلس‘‘تنظیم کے بانی ہیں،نے دونوں حریفوں پر تنقید کی، ممدانی کے منصوبوں کو ’’خیالی‘‘ قرار دیا اور کومو کو پرائمری ہارنے پر مذاق کا نشانہ بنایا۔ 
ڈونالڈ ٹرمپ بھی مباحثے کے پہلے حصے میں اہم موضوع بنے۔ ممدانی نے کہا کہ وہ ٹرمپ کے ساتھ اس وقت کام کرنے کو تیار ہیں ’’اگر اس سے نیویارک کے عوام کی زندگی کی لاگت کم کرنے میں مدد ملے‘‘مگر خبردار کیا کہ اگر وہ کبھی نیویارک کے لوگوں کے خلاف گئے، تو انہیں میرے جیسے میئر کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کومو نے کہا کہ وہ ٹرمپ کے ساتھ کام کریں گے مگر اگر ٹرمپ نے نیویارک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو وہ ان سے لڑیں گے۔ سلیوا نے کہا کہ و ہ بیٹھ کر مذاکرات کریں گے۔ انہوں نے کہا: ’’آپ سخت ہو سکتے ہیں، لیکن اگر سختی کی قیمت عوامی فنڈز کی کمی ہو تو یہ بے وقوفی ہے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ ایپک اجلاس میں شرکت کرنے کیلئے۲۹؍ اکتوبر کو جنوبی کوریا جائیں گے

تینوں امیدوار اس بات پر متفق تھے کہ ٹرمپ کو نیویارک سٹی میں نیشنل گارڈ بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ سلیوا نے کومو پر طنز کیا:’’آپ سمجھتے ہیں کہ آپ سب سے سخت آدمی ہیں ؟ آپ اپنی ہی پرائمری ہار گئے تھے۔ ‘‘غزہ میں حالیہ جنگ بندی پر بھی بحث ہوئی۔ ممدانی، جو اسرائیلی حکومت کے ناقد اور فلسطینی حقوق کے حامی سمجھے جاتے ہیں، سے حماس کے بارے میں پوچھا گیا۔ انہوں نے کہا:’’یقیناً میں سمجھتا ہوں کہ انہیں ہتھیار ڈال دینے چاہئیں۔ جنگ بندی کا مطلب ہے فائرنگ روک دینا سب فریقوں کو۔ ہم یہ اس لئے چاہتے ہیں کہ نسل کشی ختم ہو اور انسانی امداد بلا روک ٹوک پہنچ سکے۔ ‘‘کومو نے الزام لگایا کہ ممدانی حماس کی مذمت سے گریز کر رہے ہیں اور اشاروں میں بات کر رہے ہیں۔ ممدانی نے پلٹ کر کومو کو اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجامین نیتن یاہو کاقانونی دفاعی وکیل قرار دیا۔ ممدانی نے مزید کہا کہ انہیں یہودی نیویارکرز نے مشورہ دیا کہ وہ گلوبلائز دی انتفاضہ جیسے نعروں سے گریز کریں۔ 

یہ بھی پڑھئے: امریکی جج نے وفاقی ملازمین کی بڑے پیمانے پر برطرفی کے ٹرمپ کے منصوبے پر روک لگادی

انہوں نے کہا:’’میں بطور اس شہر کا پہلا مسلم میئر یہ چاہتا ہوں کہ ہم ہر نیویارکر یہودی، مسلم، یا کوئی اور کو متحد کریں۔ ہر شخص یہ محسوس کرے کہ وہ نہ صرف محفوظ ہے بلکہ اس شہر کا حصہ بھی ہے۔ ‘‘اس پر کومو نے انہیں ’’تقسیم پیدا کرنے والی شخصیت ‘‘قرار دیا۔ سلیوا اور کومو دونوں نے ٹرمپ انتظامیہ کی جنگ بندی معاہدہ میں کردار کی تعریف کی۔ ممدانی سے۲۰۲۰ءکی پرانی سوشل میڈیا پوسٹس کے بارے میں بھی پوچھا گیا جن میں انہوں نے نیویارک پولیس ڈپارٹمنٹ (NYPD) کو’’نسل پرست‘‘ قرار دیا اور پولیس کے فنڈز کم کرنے (Defund the Police) کا مطالبہ کیا تھا۔ ممدانی نے حال ہی میں ان بیانات پر پولیس سے معافی مانگی ہے اور کہا کہ وہ اب اس موقف پر نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا: ’’میں پولیس کو فنڈز سے محروم کرنے نہیں بلکہ ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں ہوں، تاکہ وہ وہی کام کر سکیں جس کیلئے انہوں نے یہ پیشہ چُنا ہے۔ ‘‘انہوں نے ڈپارٹمنٹ آف کمیونٹی سیفٹی کے قیام کی تجویز دی جو ذہنی صحت سے متعلق ۹۱۱؍کالز پر خصوصی ٹیمیں بھیجے گا۔ 

یہ بھی پڑھئے: اسرائیل کے ذریعے بھیجی گئی فلسطینیوں کی لاشوں پر تشدد کے نشانات: غزہ طبی عملہ

کومو نے۵؍ ہزار مزید پولیس افسر بھرتی کرنے اور ان میں سے۱۵۰۰؍ کو سب ویز پر تعینات کرنے کا وعدہ کیا۔ سلیوا نے۷؍ ہزار نئے افسران کی بھرتی اور کوالیفائیڈ امیونٹی کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ عوامی ٹرانسپورٹ پر بات کرتے ہوئے ممدانی نے’’تیز اور مفت بس سروس‘‘ کا منصوبہ پیش کیا، جس پر کومو نے کہا کہ یہ منصوبہ امیر بس سواروں سے ٹیکس لے کر غریبوں کیلئے سبسڈی بن جائے گا، اور بسیں بے گھر افراد کیلئے پناہ گاہ بن جائیں گی۔ ‘‘مہنگائی کے مسئلے پر جب امیدواروں سے پوچھا گیا کہ وہ ہفتے میں کتنے پیسے کھانے پینے پر خرچ کرتے ہیں، تو کومو نے کہا۱۵۰؍ ڈالر، سلیوا نے۱۷۵؍ ڈالر اور ممدانی نے۱۲۵؍ ڈالر۔ ممدانی نے دوبارہ کہا کہ ان کی مہم کا مرکز زندگی کی لاگت کم کرنا ہے وہ امیروں پر ٹیکس بڑھانے، کرایہ منجمد کرنے اور نئے گھروں کی تعمیر کے حامی ہیں۔ انہوں نے کومو پر طنز کیا: ’’میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس مباحثے کو ایک گھنٹہ بیس منٹ ہو چکے ہیں اور ہم نے گورنر کومو کو ‘افورڈیبلٹی’ کا لفظ بولتے نہیں سنا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پرائمری ہار گئے۔ ‘‘
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے جاری ہونے والے ایک سروے کے مطابق، ممدانی کو ۴۶؍ ووٹرز کی حمایت حاصل ہے، کومو۳۳؍ پر اور سلیوا ۱۵؍ پر ہیں۔ آخری میئر مباحثہ بدھ،۲۲؍ اکتوبر کو ہوگا۔ الیکشن کا دن منگل،۴؍ نومبر ہے، جبکہ قبل از وقت ووٹنگ۲۵؍ اکتوبر سے ۲؍نومبر تک جاری رہے گی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK