Inquilab Logo

لوک سبھا انتخابات اور عالمی میڈیا

Updated: April 24, 2024, 1:06 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

زیادہ تر اخبارات کا خیال ہے کہ یہ انتخابات ہندوستان کے دیگر عام انتخابات سے بالکل الگ ہونے والے ہیں کیونکہ ان میں صرف اگلے پانچ برسوں کی حکومت کا فیصلہ نہیں ہونا ہے بلکہ یہ بھی طے کیا جانا ہے کہ آیا ہندوستان میں جمہوری نظام اپنی موجودہ شکل و صورت میں برقرار رہے گا یا نہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

ہندوستا ن میں  عام انتخابات کا آغاز ہوچکا ہے اور ساری دنیا بڑی دلچسپی اور قدرے تشویش کے ساتھ دُنیا کے سب سے بڑے الیکشن کے ہر پہلو کا جائزہ لے رہی ہے۔ پچھلے ہفتے دُنیا بھر کے اخبارات اور جریدوں  میں  ہندوستان کے اٹھارہویں  لوک سبھا انتخابات پر اداریے اور خصوصی تبصرے شائع ہوئے۔ زیادہ تر اخبارات کا خیال ہے کہ یہ انتخابات ہندوستان کے دیگر عام انتخابات سے بالکل الگ ہونے والے ہیں  کیونکہ ان میں  صرف یہ فیصلہ نہیں  ہونا ہے کہ اگلے پانچ برسوں  کے لئے کس پارٹی یا اتحاد کی حکومت بنے گی بلکہ یہ بھی طے کیا جانا ہے کہ آیا ہندوستان میں  جمہوری نظام اپنی موجودہ شکل و صورت میں  برقرار رہے گا یا نہیں ۔
 بین الاقوامی میڈیا کی اکثریت کا یہ ماننا ہے کہ ان انتخابات میں  مودی جی کی کامیابی پکی ہے تاہم بیشتر کالم نویسوں  اور تجزیہ کاروں  نے اپنی تحریروں  میں  واضح طورپر یہ لکھا ہے کہ ان کے دس سالہ دور اقتدار میں  ملک میں  جمہوری اور سیکولر اقدار کی بیخ کنی ہوئی ہے، آئینی اداروں  کی خود مختاری ختم کی گئی ہے، شہریوں  کے حقوق پامال کئے گئے ہیں ،اقلیتوں  کے خلاف مذہبی منافرت پھیلائی گئی ہے، میڈیا کی آزادی سلب کی گئی ہے، سیاسی اور نظریاتی حریفوں  کو ریاستی جبرکا نشانہ بنایا گیا ہے اور مرکزی جانچ ایجنسیوں  کا غلط استعمال کرکے اپوزیشن کو ٹھکانے لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔ برطانوی اخبار’فنانشیل ٹائمس‘‘ نے اس خدشے کا اظہارکیا ہے کہ یہ انتخابات جمہوری ہندوستان کے آخری انتخابات ثابت ہو سکتے ہیں ۔ بین الاقوامی میڈیا میں  وزیر اعظم مودی  کے آمرانہ عزائم پر ہو رہے تشویش کے اظہار سے ناراض ہوکر سنگھی کالم نویس سپن داس گپتا نے شکوہ کیا ہے کہ مغرب کا میڈیا مودی کی جیت کو ناجائز ثابت کرنے کے لئے ابھی سے سرگرم عمل ہوگیا ہے۔
 فارین پالیسی نے بھارتی الیکشن پر ایک خصوصی شمارہ شائع کیا ہے جس کے سرورق پر مودی جی کی تصویر ہے۔ دوماہی عالمی جریدہ کے ادارتی مضمو ن New Idea of Indiaمیں  مضمون نگار نے دعویٰ کیا ہے کہ مودی کے دور اقتدار میں  ملک’’ کم جمہوری لیکن زیادہ خود اعتماد‘‘ بنا ہے۔
 نیویارک ٹائمس پچھلے کئی دنوں  سے لوک سبھا انتخابات کی جتنی بڑی کوریج کررہا ہے کوئی اور بین الاقوامی روزنامہ اس کا مقابلہ نہیں  کرسکتا۔ اِس مقبول امریکی اخبارکے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف مجیب مشعل نے مودی جی کی مقبولیت کے اسباب پر روشنی ڈالی اور لکھا ہے کہ وہ ایک ایسی نایاب نسل کے طاقتور حکمراں  ہیں  جنہیں  زمینی حقائق کی مکمل آگہی ہے حالانکہ انہوں  نے ہندوستان کو "illebral democracy"  بنادیا ہے اور ان کی مطلق العنانیت بھی بڑھی ہے اس کے باوجود وہ عوام میں  بے حد مقبول ہیں ۔ان کے ناقدین کو ڈر ہے کہ مودی جی اس وقت تک چین سے نہیں  بیٹھیں  گے جب تک ہندوستانی جمہوریت کو ’’یک جماعتی حکمرانی‘‘ میں بدل نہ دیں ۔
 دی گارجین نے اپنے ایک حالیہ اداریے میں  انتباہ کیا ہے کہ ہندوستانی رائے دہندگان کو نریندر مودی کو ایک اور مینڈیٹ فراہم کرنے سے قبل کافی سوچ بچار کرلینا چاہئے۔ اِس مقبول برطانوی روزنامہ کے مطابق الیکشن کا نتیجہ خواہ جو بھی ہو جمہوریت کی شکست طے ہے۔برطانوی ویکلی میگزین دی اکنامسٹ نے لوک سبھا انتخابات پر ایک خصوصی گوشہ شائع کیا ہے ۔ ایک مضمون میں  جس کی سرخی ہے India’s democracy needs a stronger oppositionہندوستان میں  اپوزیشن اور خصوصاً کانگریس کی ناگفتہ بہ حالت کا بھرپور تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس مضمون نے جو خصوصی توجہ کا متقاضی ہے یہ انتباہ کیا ہے کہ اگر اوپینین پول درست ثابت ہوئے تو اپوزیشن کیلئے بھاری تباہی منہ کھولے کھڑی ہے اور کانگریس کو لگاتار تیسری شکست فاش کا سامنا ہے۔ جواہرلا ل نہرو اور ان کے سیاسی جانشینوں  کی قائدانہ صلاحیتوں  کی بدولت جس کانگریس نے ۵۴؍ برس تک ہندوستان پر راج کیا اور ایک ماڈرن سیکولر انڈیاکی تعمیر میں  کلیدی کردار ادا کیا وہ آج مکمل لاسمتی کا شکار ہوچکی ہے۔ دی اکنامسٹ کو امید ہے کہ پارٹی کے شرمناک زوال سے عبرت حاصل کرکے بڑے پیمانے پر اصلاحات کو راہ دی جائیگی۔
 نیو یارک ٹائمس میں  ایک مضمون بعنوان Why India’s Opposition Can’t Get It Together شائع ہوا ہے جس میں  کانگریس پارٹی کے زوال کے متعلق مضمون نگار کہتا ہے کہ جو پارٹی نصف صدی تک سیاست کا مرکزی کردار تھی وہ اب بڑی بے کسی کی تصویر بن چکی ہے کیونکہ بی جے پی کی ہندو قوم پرستی کے نظریے کے جواب میں  وہ کوئی مؤثر نظریاتی متبادل پیش کرنے سے قاصرہے۔ اسی اخبار کے ایک حالیہ شمارے میں  Modi`s Temple of Liesشائع ہوا ہے۔کالم نویس سدھارتھ دیب کا دعویٰ ہے کہ مودی جی کی مقبولیت اور انتخابی کامیابی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہندوستان ایک متنوع اور روادار جمہوریت سے ایک شدت پسند مذہبی ریاست میں  تبدیل ہوگیا ہے۔’’ مودی کے دس سالہ دور حکومت کے بعد ہندو اکثریتی انڈیا نے جمہوریت کا مکھوٹا تو پہن رکھاہے لیکن رام مندر کے افتتاح کے بعد یہ واضح ہوچلا ہے کہ ملک ہندو راشٹر تقریباً بن ہی چکا ہے۔‘‘
 فرانس کے معروف روزنامہ Le Mondeمیں  ہندوستانی انتخابات پر ایک عمدہ تجزیاتی مضمون شائع ہوا ہے جس میں  ہندوستانی امور کے ماہر Christophe Jaffrelotنے دعویٰ کیا ہے کہ مودی چاہتے ہیں  کہ اب لوگ انہیں  ملک کا سیاسی سربراہ نہیں  بلکہ ہندو دھرم کا کوئی مہاپرش سمجھیں ۔فرنچ اسکالر کرسٹوفر جیفرلو کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ مودی سرکار ایک سیکولر جمہوریت کو ایک ایسے ہندو اسٹیٹ میں  بدل دینے پر مصر ہے جس میں  مسلمانوں  کی حیثیت دوئم درجے کے شہریوں  جیسی ہوجائے گی۔ 
 بلومبرگ میگزین میں  Modi Is Making India’s Polls All About Himself کے عنوان سے ایک دلچسپ مضمون شائع ہوا ہے جس میں  کالم نویس نے دعویٰ کیا ہے کہ پچھلے دس برسوں  میں  ملک میں  شخصیت پرستی کا فروغ ہوا ہے۔ ثبوت کے طور پر بی جے پی کے ۶۹؍ صفحات والے انتخابی منشور کا حوالہ دیا گیا ہے جومودی جی کی ۵۰؍ سے زیادہ تصاویر سے مزین ہے۔ مینی فیسٹو میں  بی جے پی نے رائے دہندگان سے جو وعدے کئے ہیں  انہیں  بھی ’’مودی کی گارنٹی‘‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مضمون کا یہ اختتامیہ جملہ بے حد معنی خیز ہے: ہندوستان کی جمہوریت کے تحفظ کی’’ مودی کی گارنٹی‘‘ نہیں  ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK