• Fri, 17 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسرائیل کے ذریعے بھیجی گئی فلسطینیوں کی لاشوں پر تشدد کے نشانات: غزہ طبی عملہ

Updated: October 16, 2025, 10:04 PM IST | Gaza

غزہ کے طبی عملے کو اسرائیل کے ذریعے بھیجی گئی فلسطینی قیدیوں کی لاشوں پر تشدد کے نشانات ملے، اس کے علاوہ کئی قیدیوں کی لاشوں پر جو نشانات ملے وہ ممکنہ طور پر پھانسی کےتھے۔

A prisoner released from an Israeli prison shows his wounds. Photo: X
اسرائیلی جیل سے رہا ایک قیدی اپنے ذخم دکھاتے ہوئے۔ تصویر: ایکس

غزہ کے محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ اسے ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کے ذریعے۴۵؍ فلسطینیوں کی باقیات موصول ہوئی ہیں جو اسرائیلی حراست میں تھے، جس کے ساتھ ہی امریکہ کی ثالثی میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے کے تحت واپس بھیجی جانے والی لاشوں کی کل تعداد۹۰؍ ہو گئی ہے۔محکمہ صحت نے بدھ کے روز ایک بیان میں کہا کہ طبی ٹیمیں ’’منظور شدہ طبی طریقہ کار اور پروٹوکول‘‘کے مطابق لاشوں کا معائنہ، دستاویز اور اہل خانہ کو حوالگی کی تیاری جاری رکھے ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی حمایت یافتہ جنگ بندی معاہدے کے تحت، اسرائیل کو ہر واپس بھیجی گئی اسرائیلی لاش کے بدلے۱۵؍ فلسطینیوں کی لاشیں حوالے کرنی تھیں۔ پیر کے روز۴۵؍ افراد کی باقیات واپس بھیجی گئیں۔فلسطینی بدھ اور منگل کو ناصراسپتال پہنچنے والی لاشوں کے بارے میں معلومات کا انتظار کرتے رہے۔ فورینسک ٹیم نے جسمانی زیادتی کے نشانات کی وضاحت کی۔

یہ بھی پڑھئے: اسرائیل نے غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کو نصف کردیا، ایندھن کی ترسیل پر بھی پابندی لگادی

الجزیرہ کو طبی ذرائع نے بتایا کہ کچھ فلسطینی لاشوں کی آنکھوں پر پٹی بندھی اور ہاتھ بندھے ہوئے تھے، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ انہیںجیل میں پھانسی دی گئی ہو گی۔توقع ہے کہ اسرائیل مزید لاشیں حوالے کرے گا، اگرچہ حکام نے یہ نہیں بتایا کہ اسرائیل کی تحویل میںمزید کتنی لاشیں ہیں یا کتنی واپس بھیجی جائیں گی۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ لاشیں اسرائیلی فوج نے زمینی حملے کے دوران قبرستانوں سے کھودی تھیں یا یہ ان قیدیوں کی ہیں جو اسرائیلی حملے کے دوران مارے گئے تھے۔ دراصل جنگ کے دوران، اسرائیلی فوج اپنے قیدیوں کی باقیات کی تلاش کیلئے لاشیں کھودتی رہی ہے۔ محکمہ صحت نے بدھ کے روز۳۲؍ نامعلوم لاشوں کی تصاویر جاری کیں تاکہ خاندانوں کو لاپتہ رشتہ داروں کو پہچاننے میں مدد مل سکے۔بہت سی لاشیں سڑی ہوئی یا جلی ہوئی نظر آئیں۔ کچھ کے اعضاء یا دانت غائب تھے، جبکہ کچھ ریت اور مٹی سے اٹی ہوئی تھیں۔ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ غزہ میں ڈی این اے جانچ کے سامان کی درآمد پر اسرائیلی پابندیوں کے باعث اکثر مردہ خانے کو شناخت کے لیے جسمانی خصوصیات اور کپڑوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔لاشوں کو وصول کرنے والی فورینسک ٹیم کا کہنا تھا کہ کچھ لاشیں ابھی بھی بیڑیوں میں جکڑی ہوئی یا ان پر جسمانی زیادتی کے نشاناتتھے۔ ناصراسپتال میں لاشوں کی وصولی کی ذمہ دار کمیٹی کے رکن صامح حمد نے کہا، ’’ لاشوں پرتشدد اور پھانسیوں کے نشانات ہیں۔‘‘یہ لاشیں۲۵؍ سے۷۰؍ سال کی عمر کے مردوں کی تھیں۔  زیادہ تر لاشیں شہری کپڑے پہنے ہوئے تھیں، لیکن کچھ یونیفارم میں تھیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فلسطینی جنگجو تھے۔

یہ بھی پڑھئے: ’’غزہ میں امن کا مطلب یہ نہیں کہ نسل کشی معاف کردی جائے‘‘

حمد نے کہا کہ ریڈ کراس نے صرف تین مردوں کے نام فراہم کیے ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے خاندان اپنے رشتہ داروں کے بارے میں غیر یقینی کا شکار ہیں۔محکمہ صحت کے مطابق اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں تقریباً۶۸؍ ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے، کیونکہ ہزاروں لاشوں کے ملبے تلے ہونے کا اندیشہہے۔ریڈ کراس اور فلسطینی سنٹرل بیورو آف شماریات کے مطابق ہزاروں مزید افراد لاپتہ ہیں۔۵۲؍ سالہ رسمیہ قدیح ناصراسپتال کے باہر انتظار کرتی رہیں، امید کرتی ہوئی کہ بدھ کے روز اسرائیل سے منتقل کی گئی۴۵؍ لاشوں میں ان کا بیٹا بھی ہوگا۔
دریں اثناء محکمہ صحت نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں طبی کارکن لاشوں کا معائنہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ باقیات کو خاندانوں کو واپس کر دیا جائے گا یا اگر شناخت نہ ہو سکی تو دفن کر دیا جائے گا۔یہ بھی یاد رہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیٹی نے اسرائیل پر غزہ میں نسل کشی کرنے کا الزام لگایا ہے، اور جنوبی افریقہ نے بین الاقوامی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ درج کیا ہے۔ اسرائیل ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK