فلوٹیلا روک دیا گیا۔ حکمرانوں کو غیرت آنی چاہئے کہ اُن کے جبر نے بھوک کو غذا تک اور غذا کو بھوک تک پہنچنے نہیں دیا جبکہ غذا بھوک کیلئے ہے اور بھوک غذا کیلئے۔ انہیں سب کچھ میسر ہے اسلئے ان کا مزاج بگڑگیا ہے، انہیںتب غیرت آئیگی جب مسلسل فاقہ ان کا مقدر بنے۔
دُنیا کے چالیس سے زائد ملکوں کی اِمدادی کشتیاں غزہ پہنچنےسے پہلے روک دی گئیں ۔ ایک طرف بھوک تھی، دوسری طرف غذا ۔ بھوک کو غذا تک اور غذا کو بھوک تک پہنچنے سے بہر قیمت روکنے کیلئے طاقت کا استعمال کیا گیا جیسے امدادی کشتیوں سے اسلحہ اسمگل کیا جارہا ہو اور چالیس ملکوں کے ۵۰۰؍ سے زائد رضاکار اہل غزہ کو اسلحہ چلانے کی تربیت دینے کیلئے وارد ہوئے ہوں ۔
بھوک غذا تک اور غذا بھوک تک نہ پہنچے یہ اہتمام وہی کرسکتا ہے جو بھوک کی شدت اور غذا کی اہمیت کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہو۔ ان امدادی کشتیوں کے استقبال کا انتظار غزہ کے فاقہ زدہ لوگ اُس دن سے کررہے تھے جس دن قافلے کی پہلی کشتی روانہ ہوئی تھی اور پھر اس کے ساتھ یا آگے پیچھے بہت سی کشتیاں چل پڑی تھیں غذا اَور دوا کی بہت بڑی کھیپ لے کر۔ یہ اگست کے اواخر کی بات ہے۔
ایک ماہ سے زائد عرصے کا سمندری سفر، محدود وسائل، کسی بھی وقت حملے کا خطرہ، ٹائم زون کی تبدیلی، جسمانی و ذہنی صحت پر بحری سفر کے اثرات اور ایسی ہی کتنی دشواریوں کا مقابلہ کرتے ہوئے یہ پانچ سو افراد غزہ کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ انہیں علم تھا کہ اُن کے سفر کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ انہیں اندازہ تھا کہ حکومت ِ اسرائیل اُن کا خیرمقدم کس انداز میں کریگی۔ انہیں یہ بھی احساس رہا ہوگا کہ ممکن ہے صحیح سلامت گھر لوٹنا ممکن نہ ہو اس کے باوجود ایک آس، ایک اُمید اور یہ عزم اُنہیں سفر پر گامزن کئے ہوئے تھا کہ زندہ رہے تو انسانیت کی خدمت کے شرف کے ساتھ گھر لوٹیں گے اور اگر فوت ہوگئے تو بقائے انسانیت کی جدوجہد کا تاج سر پر سجا ہوگا۔ اگر فیصلہ نہ تو زندہ رہنے کا ہوا نہ ہی فوت ہوجانے کا بلکہ گرفتار کرکے وطن بھیج دیئے جانے کا ہوا تو خالی ہاتھ لوٹنے کی کسک کے باوجود ظلم و جبر کے اندھیرے میں انسانیت کی شمع روشن کرنے کا اطمینان بھی ہوگا۔ کل کا مورخ جب ان کی داستان رقم کریگا تب یہ لکھنے پر مجبور ہوگا کہ جب ساری دُنیا بے حسی کی چادر اوڑھے خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی، چالیس ملکوں کے یہ پانچ سو رضاکار انسانی فرض ادا کرنے کیلئے ہزار چیلنجوں کا مقابلہ کررہے تھے۔ بھوک کی شدت اور غذا کی اہمیت کو سمجھنے والے یہ رضاکار کامیاب نہیں ہوئے مگر انہوں نے جبر کا منہ نوچ لیا۔ جابر حکمراں آئینے میں غور سے دیکھیں تو اُنہیں اپنے چہروں پر خراشیں نظر آئیں گی، اتنی خراشیں کہ چہرا پہچانا نہیں جاسکے گا۔
گزشتہ دِنوں جب امدادی کشتیوں کا قافلہ ’’فلوٹیلا صمود‘‘ غزہ کے قریب پہنچ چکا تھا تب اس اندیشے کے باوجود کہ اسرائیلی بحری افسران کسی بھی وقت دھاوا بول دینگے، مجھے بھوک اور غذا کا درمیانی فاصلہ کم ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ انٹرنیٹ کو بار بار ریفریش کرکے مَیں اُس خبر کا متلاشی تھا جو نہیں آنی تھی اور آخر کار نہیں آئی۔ اسی دوران نگاہوں کے سامنے سے کئی منظر گزر گئے۔ ایک شخص جو بھوک سے پریشان ہے، گھر کی جانب تیزی سے جاتا ہوا دکھائی دیا۔ وہ رُکنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ بھوک شدت اختیار کرچکی تھی۔ وہ شوگر پیشنٹ تھا۔ بھوک کا علاج نہ کرے تو غش کھا کر گر پڑے، اسلئے نقاہت کے باوجود اُس کی کوشش تھی کہ جلد سے جلد گھر پہنچ جائے۔ بھوک اور غذا کا فاصلہ لمحہ بہ لمحہ کم ہورہا تھا اور میرے ذہن میں یہ سوال اُبھر رہا تھا کہ اس شخص کے دل میں غذا کی جتنی قدر و قیمت اِس وقت ہے کیا عموماً اُتنی ہی رہتی ہے یا کم ہوجاتی ہے؟ کیا یہ شخص غذا کے ایک ایک دانے کی اُتنی ہی حفاظت کرتا ہے جتنا کہ اُس کا حق ہے؟ مگر اس سے قبل کہ کوئی جواب نمودار ہوتا، تصور کے پردہ پر منظر بدل چکا تھا۔
پھر ایک بزرگ خاتون کی تصویر اُبھری۔ وہ ہر خاص و عام کے سامنے ہاتھ پھیلا رہی تھی۔ کسی نے اُسے چند سکے دیئے کسی نے کرنسی نوٹ۔ ایک خاتون نے اپنے مکان اُسے آواز دی اور قریب بلا کر اُس کے برتن میں گھر کی بنی ہوئی کچھ اشیاء ڈال دیں ۔ وہ گداگر آگے بڑھ گئی اور قدرے دور جاکر دیکھا کہ برتن میں کیا ہے، پھر پتہ نہیں کیا سوچا اور برتن میں جو کچھ تھا اُسے ایک پیڑ کے نیچے پھینک کر آگے بڑھ گئی۔ معلوم ہوا کہ کبھی بھوک غذا کا انتخاب کرنا چاہتی ہے اور ہر اُس چیز کو قبول نہیں کرلیتی جس سے پیٹ بھرتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے : آزاد مملکت ِ فلسطین کا قیام منحصر ہے قوتِ مزاحمت پر
اسی دوران بچپن میں پڑھی ہوئی کہانی کا مرکزی کردار ذہن میں اُبھرا۔ یہ ایک چھوٹی سی لڑکی ہے جو ماچس بیچتی ہے۔ ماچس کی چند ڈبیاں بیچ کر یعنی دو پیسے کما کر ہی اُسے گھر جانا تھا مگر اُس شام وہ ایک بھی ڈبیا نہیں بیچ پائی تھی۔ اُمید مایوسی میں تبدیل ہونے لگی۔ سردیوں کی شام رات میں ڈھل گئی تو اُسے ٹھنڈ نے آگھیرا۔ کافی دیر اُس نے ٹھنڈ سے مزاحمت کی مگر جب نہ رہا گیا تو ڈبیا سے ماچس کی تیلی نکال نکال کر جلانے لگی تاکہ جسم کو گرمی پہنچا سکے۔ جب بھی وہ تیلی جلاتی اُس کی روشنی میں اُسے قریب کے مکان کی کانچ کی دیوار کے اُس پار کا منظر دکھائی دیتا جس میں انواع و اقسام کے کھانے اُس کی اشتہاء بڑھا دیتے مگر جیسے ہی تیلی بجھتی وہ منظر غائب ہوجاتا۔ اُس منظر کو دیر تک دیکھتے رہنے کی تمنا میں اُس نے بے شمار تیلیاں جلا دیں مگر اُس منظر کو بہت دیر تک روکنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ جن لوگوں نے کہانی پڑھی ہوگی وہ جانتے ہوں گے کہ ’’لٹل میچ گرل‘‘ کا کیا انجام ہوا۔ مَیں اُس انجام کو یاد کئے بغیر بھوک اور غذا کے درمیانی فاصلے کی پیمائش میں تھا۔ اُس لڑکی کی بھوک میں اور غذا میں سیکڑوں میل کا فاصلہ تھا مگر کانچ کی دیوار والے گھر میں جہاں انواع و اقسام کی غذا سجی ہوئی تھی، بھوک اتنی نہیں تھی جتنی غذا تھی۔ دُنیا میں یہ بھی ہوتا ہے۔ کہیں بھوک غذا سے زیادہ ہوتی ہے کہیں غذا بھوک سے زیادہ۔ کہیں کہیں بھوک غذا کو نمائشی دیکھ کر خود بھی نمائشی بن جاتی ہے اور سونگھ سونگھ کر پیٹ بھرتی ہے مثلاً شادیوں میں ۔ یہاں غذا کا ناس یا اتلاف اس لئے ہوتا ہے کہ بھوک ادائیں دکھانے لگتی ہے، پہلے اُچٹتی سی نگاہ ڈالتی ہے پھر تھوڑا تھوڑا سا چکھ کر آگے بڑھ جاتی ہے۔
غذااَور غزہ میں زیادہ فرق نہیں ہے مگر کون جانتا تھاکہ مشترک حروف والے ان سہ حرفی الفاظ میں اتنی ٹھن جائیگی کہ غذا، غزہ سے بہت دور رہے گی اور پھر قریب آنے کے بعد ضبط کرلی جائیگی۔ اس جبر پر میرا آپ کا کوئی اختیار نہیں ، میرا اور آپ کا اختیار اپنی بھوک اور اپنے حصے کی غذا پر ہے۔ ہمیں بھوک کو بھی نعمت سمجھنا چاہئے اور غذا کو بھی لہٰذا کوشش یہ ہو کہ بھوک غذا کا حق ادا کرے اور غذا بھوک کا۔