غزہ کے متوفین کی تعداد ۵۳؍ ہزار سے تجاوز کرچکی ہے، ان میں معصوم بچے بھی ہیں اور خواتین بھی اور بزرگ بھی، ان میں بیمار بھی ہیں جو زندہ رہنے کے حق کی تمنا میں ناحق مارے گئے اور وہ جوان بھی ہیں جنہیں اپنے غزہ سے اُتنا ہی لگاؤ تھا جتنا اپنے گھر سے، اپنے خاندان سے، اپنے آپ سے۔
بستی ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوجاتی ہے تو کیا ہوتا ہے ہم نہیں جانتے۔ اسپتال مریضوں کا علاج کرنے کے قابل نہیں رہ جاتے تو کیا ہوتا ہے ہم نہیں جانتے۔ مریض، جو بچ سکتا تھا، طبی امداد نہ ملنے کے سبب تڑپ تڑپ کر اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کی آغوش میں چلا جائے تب پسماندگان کی بے بسی کیسی ہوتی ہے ہم نہیں جانتے۔ ہم نہیں جانتے کہ جب ہر آنکھ کا خواب ٹوٹتا ہے تب کیسا لگتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ جب مستقبل غیر یقینی ہوجاتا ہے تب کیسا لگتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ خود فاقے سے ہونے کے باوجود بچوں کو بھوک سے بلکتا دیکھنا کیسا ہوتا ہے۔
غزہ کی فضاؤں میں نہ جانے کتنی چیخیں ہوں گی جو ممکن ہے اب بھی گونج رہی ہوں۔ نہ جانے کتنی آرزوئیں ہوں گی جو شکستہ بام و در سے ٹکرا کر پاش پاش ہورہی ہوں۔ نہ جانے کتنے نفوس ہوں گے جو فیصلہ نہ کرپاتے ہوں گے کہ اُنہیں متوفین پر رونا چاہئے یا اپنی بے سروسامانی پر، بچوں کی بدحالی پر آنسو بہانا چاہئے یا مستقبل کے غیر یقینی ہونے پر۔اُن کی آنکھیں پتھرا گئی ہوں گی، دل دھڑکنا بھول گئے ہوں گے، دماغ نے سوچنا بند کردیا ہوگا اور اپنوں کے لوٹ آنے کا انتظار دم توڑ چکا ہوگا۔ جنگ، اَور جگہوں پر بھی ہوتی ہے اور جہاں بھی ہوتی ہے تباہی اور تاراجی اور بھوک اور پیاس اور غم اور زندگی بھر مندمل نہ ہونے والے زخم ہی دے جاتی ہے مگر غزہ نے کئی جنگوں کی ایک جنگ دیکھی ہے۔ اس نے سفاکی کے گھناؤنے اور قابل نفریں چہرے کا مشاہدہ کیا ہے۔ اس نے انسانی قدروں کو کم ترین سطح پر پہنچتا ہوا دیکھا ہے۔ اس نے بے بسی اور بے کسی کی ہر شکل دیکھی ہے۔ اس نے عالمی قوانین کا مذاق اُڑتے دیکھا ہے۔ اس نے عالمی برادری کی مجرمانہ چشم پوشی دیکھی ہے۔ اس نے کیا نہیں دیکھا!
اس نے سب کچھ دیکھ لیا مگر وہ نہیں دیکھا جو دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ عالمی برادری انسانی جانوں کے بے دریغ اتلاف پر خون کے آنسو رو رہی ہے اور اسرائیل کے خلاف محاذ آرا ہوگئی ہے۔ غزہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اسرائیلی حکمرانوں کو جنگی جرائم کے ارتکاب کیلئے ہتھکڑیاں پہنائی گئی ہیں اور اُن آرمی افسروں کا کورٹ مارشل کیا جارہا ہے جنہوں نے معصوم بچوں تک کو نہیں بخشا۔ غزہ دیکھنا چاہتا تھا کہ عالمی برادری نے تل ابیب کو چوبیس گھنٹوں کی مہلت دی ہے کہ اگر ان چوبیس گھنٹوں میں بمباری نہیں روکی گئی تو اسے عالمی امن فوج سے لوہا لینا ہوگا۔ اگر بمباری نہیں روکی گئی تو اسے معاشی ناکہ بندی کے چیلنج سے نمٹنا ہوگا۔ اگر بمباری نہیں روکی گئی تو امریکہ، فرانس، جرمنی، روس، آسٹریلیا اور برطانیہ اس سے تعلقات ختم کرلینگے۔ غزہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اقوام عالم اُس کے ساتھ ہیں، غزہ میں نئے مکانوں کی تعمیر کے پروجیکٹوں کو منظوری دے جارہی ہے، اسکولوں، اسپتالوں، پلوں، نہروں، تالابوں، کھیل کے میدانوں اور نئی سڑکوں اور شاہراہوں کے نقشے بن رہے ہیں اور زیتون کے باغوں کو حیات ِ نو بخشنے کی تیاری کی جارہی ہے۔
غزہ یہ سب دیکھنا چاہتا تھا مگر عالمی برادری اور اقوام عالم نے اسے اُس کے حال پر چھوڑ دیا۔ عربوں نے بھی اس کی ہمدردی کا حق نہیں نبھایا۔اِس وقت غزہ درخت پر باقی رہ جانے والے اُس آخری پتے کی طرح ہے جسے دیکھتے سب ہیں مگر اِس طرح جیسے اُس کے بھی ٹوٹ کر گر جانے کا انتظار کررہے ہوں۔قربان جائیے اس آخری پتے پر جو طوفان باد و باراں کے خلاف اپنی مزاحمت کی مثال قائم کررہا ہے اور غیر معمولی حربی طاقت کی حامل دُنیا سے پوچھ رہا ہے کہ بتاؤ تم جری ہو یا مَیں ہوں؟ مَیں لڑرہا ہوں یا تم؟
فلسطین کے قومی شاعر محمود درویش نے آج کے غزہ کو اپنی دور بین نگاہوں سے دہائیوں پہلے دیکھ لیا تھا، اسی لئے کہا تھا:
کہاں جائیں گے ہم وہاںسے، جہاں سرحدیں ختم ہو جائیں گی، کہاں پرواز کریں گے پرندے، آخری آسمان کے بعد، کہاں سوئیں گے آخری آخری ہوا میں سانس لینے کے بعد، ہم اپنے نام قرمزی دھند سے لکھیں گے، ہم اپنی نظموں کے ہاتھ کاٹ دیں گے تاکہ ان کا اختتام، ہماری جلد پر ہو، یہیں مریں گے ہم، اسی آخری راستے میںاور یہیں ہمارے خون میں نمو پائیں گے زیتون کے درخت‘‘ (نظم ’’زمیں تنگ ہورہی ہے‘‘ کے آخری مصرعے)
کئی دہائی پہلے جب یہ نظم لکھی گئی ہوگی، تب زمین تنگ ہورہی تھی، اب زمین مکانوں کے ملبے سے اَٹی پڑی ہے، اس زمین پر قبضے کی تیاری ہورہی ہے، کوئی ایسا ہے جو صرف قبضہ چاہتا ہے تاکہ اس پر اپنی مرضی کی بستی بسائے تو کوئی ایسا ہے جو اسے فردوس ِارض بنانے کا سبز باغ دکھا رہا ہے۔ ایسے جیالوں میں کوئی نہیں جواہل غزہ کو غذا اور دوا فراہم کرے اور اُن کی آنکھوں میں اُمیدوں کی شمع روشن کرے اور اُن سے محفوظ زندگی کا وعدہ کرے اور کہے کہ زیتون کے درخت نئی زندگی پائیں گے اور اُن پر اُمیدوں کے پرندے دوبارہ بسیرا کرینگے اور اُن کی چھاؤں میں لکھی جانے والی محبتوں، شفقتوں اور بہتر مستقبل کی آرزوؤں کی کہانیاں دوبارہ لکھی جاسکیں گی۔ کوئی نہیں جو اُن سے کہے کہ انسانیت ابھی زندہ ہے۔
’’سیو دی چائلڈ‘‘ نامی ویب سائٹ پر دل کو لرزا دینے والی ایک سچی داستان شائع کی گئی ہے جس کی آخری سطریں اس قابل ہیں کہ اُنہیں پڑھا جائے، اس طرح فلسطینیوں کے جذبات کو سمجھا جاسکتا ہے کہ جب اُن پر قیامت ٹوٹ رہی تھی تب وہ کیا کررہے تھے اور آخری لمحات میں اُن کی زندگی کیسی تھی۔ اس سچی داستان میں جس خاندان کا تذکرہ کیا گیا ہے اُس کا سربراہ کہتا ہے:
’’مَیں نے کوشش کی کہ اپنے گھر والوں کو تسلی دوں، زندگی پر اُن کا بھروسہ برقرار رکھوں، اُن سے باتیں کرتا رہوں مگر ایک بار میری آنکھیں بھر آئیں اور مَیں رونے لگا، دوسری بار بھی ایسی ہی رقت طاری ہوئی اور مَیں آنسو روک نہیں سکا، تیسری بار بھی ایسا ہی ہوا، بعد ازاں ہم ایک دوسرے سے لپٹ کر روئے، دیر تک رویا کئے، ہمارے آنسو اُس ماضی کیلئے تھے جو ہم گزار چکے، ہمارے آنسو اُس حال کیلئے تھے جو ہمارے سامنے برپا ہورہا تھا، ہم مستقبل کیلئے نہیں روئے کیونکہ یہ علم نہیں تھا کہ مستقبل میں ہمارا حصہ ہے یا نہیں، اس پر ہمارا حق ہے یا نہیں، ہم اس میں سانس لیں گے یا نہیں۔‘‘