ماضی میں نتیش کمار جب کبھی یاترا پر نکلے ہیں تو یاترا کے بعد ان کے سیاسی فیصلے چونکانے والے ہوتے رہے ہیں اس لئے سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ شاید اس یاترا کے بعد بہار کی سیاست میں کوئی بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔
EPAPER
Updated: December 05, 2024, 1:36 PM IST | Dr. Mushtaq Ahmed | Mumbai
ماضی میں نتیش کمار جب کبھی یاترا پر نکلے ہیں تو یاترا کے بعد ان کے سیاسی فیصلے چونکانے والے ہوتے رہے ہیں اس لئے سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ شاید اس یاترا کے بعد بہار کی سیاست میں کوئی بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔
حالیہ برسوں میں پارلیمانی اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابی نتائج کے بعد یہ حقیقت عیاں ہوئی ہے کہ جن ریاستوں میں خواتین ووٹروں کے ذریعہ ووٹنگ میں جوش وخروش کے ساتھ حصہ لیا گیا ہے وہاں نہ صرف ووٹ فیصد میں اضافہ ہوا بلکہ جن سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں کے حق میں خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ان کی فتح بھی یقینی ہوئی ہے ۔لہٰذا اب ہر ایک سیاسی جماعت خواتین کو خود مختار بنانے کی حمایت اور سیاست میں اس کی حصہ داری بڑھانے کی وکالت کرنے لگی ہے۔دراصل خواتین کے ووٹوں کی اہمیت کا احساس سب سے پہلے تمل ناڈو کی وزیر اعلیٰ آنجہانی جےللیتانے کرایا تھا کہ انہوں نے ۲۰۰۱ء میں خواتین کے لئے خصوصی سرکاری اسکیمیں شروع کی تھیں اور اس کا خاطر خواہ فائدہ انہیں ملا تھا ۔ اس کے بعد نتیش کمار شمالی ہند میں پہلے سیاسی رہنماتھے جنہو ںنے بہا ر میں ۲۰۰۶ء میں اسکولی طالبات کیلئے مفت سائیکل اسکیم کا آغاز کیا ۔ واضح رہے کہ نتیش کمار نے نویں اور دسویں درجہ میں پڑھنے والی طالبہ کے لئے سائیکل اسکیم کے ساتھ ساتھ پوشاک اسکیم شروع کی اور اس کا خاطر خواہ نتیجہ بھی سامنے آیا کہ ریاست بہار کے پرائمری سے لے کر سکنڈری اسکولوں کے شرح داخلہ میں اضافہ ہوا اور بالخصوص پسماندہ طبقے کی لڑکیوں کے شرح داخلہ میں بہت اضافہ ہوا۔
اس کے بعد نتیش کمار نے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں لڑکیوں کے داخلہ فیس کو معاف کرنے کی اسکیم شروع کی اور آج بھی ریاست کے کالجوں میں گریجویٹ درجے تک لڑکیوں سے کوئی داخلہ فیس نہیں لی جاتی ہے ۔اس کے بعد نتیش کمار نے میٹرک اور انٹر میں فرسٹ ڈویژن سے پاس کرنے والی طالبات کے لئے دس ہزار اسکالر شپ دینے کا اعلان کیا اور اب وہ اسکیم بڑھ کر پچیس ہزار تک پہنچ گئی ہے۔اتنا ہی نہیں گریجویٹ کرنے والی لڑکیوں کو پچاس ہزار اسکالر شپ دیا جانے لگا ہے اور قومی سطح کے مقابلہ جاتی امتحانات میں شامل ہونے والی طالبہ کو ایک لاکھ تک کی رقم دی جا رہی ہے۔یہاں اس حقیقت کا اعتراف توکرنا ہوگا کہ نتیش کمار کی مذکورہ اسکیموں کی وجہ سے ریاست میں لڑکیوں کی تعلیم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور سماج میں اس کے اثرات بھی نمایاں ہوئے ہیں ۔نتیش کمار نے ریاست بہار میں پنچایتی نظام میں پچاس فیصد ریزرویشن دے کر خواتین کو خود مختار بنانے کی جو کوشش کی وہ بھی قومی سیاست کیلئے ایک نیا نسخہ ثابت ہوا ۔ پھر انہو ںنے ریاست کی سرکاری ملازمتوں میں ۳۵؍ فیصد ریزرویشن برائے خواتین جیسا انقلابی قدم اٹھایا ہے اس کی وجہ سے ریاست بہار کے مختلف محکموں میں خواتین کی حصہ داری میں اضافہ ہوا ہے ۔حالیہ دنوں میں ریاست کے پرائمری تا ہائی سکنڈری اسکولوں میں بڑی تعداد میں اساتذہ کی بحالی ہوئی ہیں ۔نتیش کمار نے اپنے دورِ اقتدار میں تقریباً ایک کروڑ سے زائد جیویکا دیدی کی بحالی کی ہیں جو پنچایتی سطح پر سرکاری فلاحی اسکیموں کو گھر گھر پہنچانے کا کام کرتی ہیں اور طبی سہولیات فراہم کرنے میں معاون ہوتی ہیں۔ بہار میں نتیش کمارنے شروع سے ہی خواتین کو خود مختار بنانے کے لئے طرح طرح کی اسکیمیں شروع کیں اور اس کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں لیکن حال میں مدھیہ پردیش میں جس طرح ’’لاڈلی بہن یوجنا‘‘ کے ذریعہ شیو راج سنگھ چوہان نے اسمبلی انتخاب میں ایک تاریخی جیت حاصل کی اور پارلیمانی انتخاب میں بھی مدھیہ پردیش میں اس کا فائدہ ہوا ۔شیو راج سنگھ چوہان کی اس اسکیم کی نقل مہاراشٹر میں بھی اسمبلی انتخاب سے محض تین چار ماہ پہلے شروع کی گئی اور لاکھوں خواتین کے بینک کھاتوں میں متعینہ رقم ڈالی گئی ۔اسی طرح جھارکھنڈ میں بھی ’’میّا یوجنا‘‘ کا آغاز ہوا اور اس کا فائدہ جھارکھنڈ مکتی مورچہ کو ہوا ہے کہ ہیمنت سورین پھر سے وزیر اعلیٰ بن گئے ہیں ۔
بہر کیف!نتیش کمار نے آئندہ اسمبلی انتخاب کے مدنظر ’’مہیلا سمپرک یاترا‘‘ یعنی خواتین رابطہ مہم کا آغاز آئندہ ۱۵؍ دسمبر سے کرنے کا اعلان کیا ہے ۔بہار کی سیاست میں دلچسپی رکھنے والے اور سیاسی مبصرین اس حقیقت سے آگاہ ہوں گے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے بہار میں نتیش کمار کی قیادت والی حکومت ہے اس مدت کار میں وہ دوبار بہت کم وقتوں کے لئے راشٹریہ جنتا دل کے ساتھ رہے ہیں ورنہ قومی جمہوری اتحاد یعنی بی جے پی کے ساتھ حکومت چلاتے رہے ہیں ۔نتیش کمار نے اب تک پندرہ یاترائیں کی ہیں اور ان کی ہر ایک یاترا کسی نہ کسی مقصد کے تحت ہی ہوتی رہی ہے۔نتیش کمار ایک منجھے ہوئے سیاست داں ہیں اور وہ بہار کی سیاست کے سمت ورفتار کی صرف سمجھ ہی نہیں رکھتے ہیں بلکہ یہاں کے عوام کے نبض شناس بھی ہیں۔اس لئے جب کبھی انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاست کی زمینی حقیقت کیا ہے تو وہ یاترا پر نکل جاتے ہیں ۔ اب جب کہ آئندہ سال ۲۰۲۵ءبہار اسمبلی انتخاب ہونا طے ہے تو وہ ایک بار پھر خواتین رابطہ یاترا کے ذریعہ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ ان کے مسائل جاننے کے ساتھ سیاسی رجحانات کی بھی واقفیت حاصل کریں اس لئے اس یاترا کو اسی نظریے سے دیکھا جانا چاہئے۔اگرچہ ان دنوں ریاست بہار میں طرح طرح کی افواہیں گردش کر رہی ہیں اور ماضی میں نتیش کمار جب کبھی یاترا پر نکلے ہیں تو یاترا کے بعد ان کے سیاسی فیصلے چونکانے والے ہوتے رہے ہیں اس لئے سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ شاید اس یاترا کے بعد بہار کی سیاست میں کوئی بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔دریں اثناء حزب اختلاف کے لیڈر تیجسوی یادو نے بھی چار دسمبر سے اپنی یاترا کا اعلان کیا ہے ۔ظاہر ہے کہ اسمبلی انتخاب کے مدنظر اس طرح کی یاترائیں ہو رہی ہیں اور ہر ایک سیاسی جماعت اپنی زمینی حقیقت جاننے کی کوشش میں ہے۔
بہر کیف! نتیش کمار کی یہ یاترا صرف اور صرف آئندہ اسمبلی انتخاب کی تیاریوں کا آغاز ہے اور اب تک نتیش کمار کے ذریعہ خواتین کیلئے جتنی بھی سرکاری فلاحی اسکیمیںچلائی گئی ہیں اس کا جائزہ لینا بھی مقصود ہے۔ اسلئے جنتا دل متحدہ کے کارکنوں کے ذریعہ یاترا کی تیاری کیلئے پارٹی کے کارکنوں کو فعال کیا جا رہاہے اور ماضی میں جس طرح نتیش کمار کی یاترائیں کامیاب ہوتی رہی ہیں اسی طرح اس یاترا کو بھی کامیاب بنانے کیلئے پارٹی کی طرف سے پنچایتی سطح پر مہم شروع ہوگئی ہے اور سرکاری عملے کی فعالیت بھی بڑھ گئی ہے۔