• Wed, 05 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں طلبہ یونین کے انتخابات کیلئے ووٹنگ، نتائج کا اعلان کل

Updated: November 05, 2025, 1:32 PM IST | Agency | New Delhi

۴؍ اعلیٰ عہدوں،صدر، نائب صدر، جنرل سکریٹری اور جوائنٹ سکریٹری کیلئے بیس امیدوار میدان میں ہیں، بائیں بازو کے طلبہ کا اے بی وی پی سے براہ راست مقابلہ۔

A view of JNU during voting. Photo: INN
ووٹنگ کے دوران جے این یو کا منظر۔ تصویر: آئی این این
جواہر لال نہرو یونیورسٹی طلبہ یونین (جے این یو ایس یو) انتخابات کیلئے ووٹنگ منگل کو شروع ہوئی ، جس میں طلبہ نے کیمپس میں نئے مرکزی پینل اور اسکول کونسلرز کے انتخاب کیلئے اپنا ووٹ ڈالا۔ ووٹنگ کا عمل صبح۹؍ بجے شروع ہوا اور شام ساڑھے ۵؍ بجے تک جاری رہا۔الیکشن کمیٹی کے مطابق ووٹوں کی گنتی کا عمل رات۹؍ بجے شروع ہوگا اور حتمی نتائج کا اعلان جمعرات (۶؍ نومبر) کو کیا جائے گا۔مرکزی پینل میں ۴؍ اعلیٰ عہدوں،صدر، نائب صدر، جنرل سکریٹری اور جوائنٹ سکریٹری کیلئے بیس امیدوار میدان میں ہیں۔ ان  انتخابات کو اکثر ملک کے وسیع تر نظریاتی منظرنامے کی عکاسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس دوران  ایک بار پھر لیفٹ یونٹی اور بی جے پی کی حمایت یافتہ ’اے بی وی پی‘ کے درمیان زبردست مقابلہ نظر آرہا ہے۔ 
بائیں بازو کے اتحاد جس میں اے آئی ایس اے، ایس ایف آئی اورڈی ایس ایف شامل ہیں، کی طرف سےادیتی مشرا صدر کے عہدے کیلئے، کزہ کوٹ گوپیکا بابو نائب صدر کیلئے، سنیل یادو جنرل سکریٹری کیلئے اور دانش علی جوائنٹ سکریٹری کیلئے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ دوسری جانب، اے بی وی پی کی کی طرف سے وکاس پٹیل، تانیا کماری، راجیشور کانت دوبے اور انوج بالترتیب انہی عہدوں کیلئے امیدوار ہیں۔ اصل مقابلہ براہ راست انہیں دونوں میں ہے۔ 
ووٹنگ کیلئے صبح ہی سے مختلف ہاسٹلز اور مراکز میں طلبہ جوش و خروش کے ساتھ ووٹ ڈالنے کیلئے پہنچنے لگے تھے۔یونیورسٹی کے تمام اسکولوں اور مراکز کے طلبہ اس الیکشن میں ووٹ دینے کے اہل ہیں۔ اس کیلئے گزشتہ کئی دنوں سے مختلف طلبہ تنظیموں نے ہاسٹلوں اور شعبوں میں جا کر ووٹروں سے رابطہ مہم چلائی تھی۔ تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ انتخاب صرف نظریاتی جدوجہد نہیں بلکہ ’خدمت اور حل کی سیاست‘ کی علامت ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے ووٹنگ کیلئے کل۸؍ مراکز قائم کئے ہیں۔ اس سال کل۹؍ ہزار۴۳؍ طلبہ ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔خیال ر ہے کہ مختلف بائیں بازو کی تنظیمیں، اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (ایس ایف آئی)، آل انڈیا اسٹوڈنٹس اسوسی ایشن (آئیسا) اور ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (ڈی ایس ایف)، طویل عرصے بعد مشترکہ طور پر انتخاب لڑ رہی ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بائیں بازو کا پلڑا بھاری ہے۔اگر انتخابات میں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی تو اس کا جیتنا تقریباً طے ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK