یہ پیغام زندگی کا نہیں بلکہ زندگی کے خطرے اور خاتمے اعلان تھا۔ لفظ مے ڈے سے زیادہ لوگ واقف بھی کہاں ہیں۔مے ڈے فرانسیسی لفظ میدے سے بنا ہے جس کا مطلب ہے ’’میری مدد کرو‘‘ یہ لفظ خطرے کا اعلان ہی نہیں بلکہ نشان بھی ہے۔
EPAPER
Updated: June 16, 2025, 1:31 PM IST | sawar-u-huda | Mumbai
یہ پیغام زندگی کا نہیں بلکہ زندگی کے خطرے اور خاتمے اعلان تھا۔ لفظ مے ڈے سے زیادہ لوگ واقف بھی کہاں ہیں۔مے ڈے فرانسیسی لفظ میدے سے بنا ہے جس کا مطلب ہے ’’میری مدد کرو‘‘ یہ لفظ خطرے کا اعلان ہی نہیں بلکہ نشان بھی ہے۔
یہ پیغام زندگی کا نہیں بلکہ زندگی کے خطرے اور خاتمے اعلان تھا۔ لفظ مے ڈے سے زیادہ لوگ واقف بھی کہاں ہیں ۔مے ڈے فرانسیسی لفظ میدے سے بنا ہے جس کا مطلب ہے ’’میری مدد کرو‘‘ یہ لفظ خطرے کا اعلان ہی نہیں بلکہ نشان بھی ہے۔ جب کوئی لفظ نشان بن جاتا ہے تو اس کی معنویت دو چند ہو جاتی ہے مگر اس لفظ کا استعمال یوں ہی نہیں کیا جا سکتا۔
۱۲؍ جون کی دوپہر ایئر انڈیا کا جہاز حادثے کا شکار ہو گیا۔ مرنے والوں کی تعداد کے بارے میں اگر کچھ نہ لکھا اور کہا جائے تو اس سے واقعے کی صحت پر کیا فرق پڑے گا۔ ایسا دردناک حادثہ تاریخ میں پہلے بھی رونما ہو چکا ہے۔ مرنے والوں کی تعداد کچھ کم یا زیادہ ہو سکتی ہے مگر سچ یہ ہے کہ یہ زندگیاں واپس نہیں آ سکتیں ۔ ان کے بارے میں کچھ ایسا لکھا اور کہا نہیں جا سکتا جس سے مستقل طور پر اہل خانہ کے دکھ کا مداوا ہو جائے۔ جب ایک ساتھ اتنی زندگیاں ختم ہو رہی ہیں تو ایسے میں ان زندگیوں کو الگ الگ کر کے دیکھنا غیر انسانی رویہ ہے۔ ایک ساتھ سفر کرتے ہوئے کس نے سوچا تھا کہ جہاز حادثے کا شکار ہو جائے گا، اور پل بھر میں اتنی زندگیاں ختم ہو جائینگی۔ ابھی جہاز کو اور بلند ہونا تھا، یہ بلندی دیکھتے دیکھتے پستی میں تبدیل ہو گئی۔ جو تصویریں سامنے آرہی ہیں ، انہیں دیکھ کر دل بھر آتا ہے۔بلکہ دیکھا نہیں جاتا۔ جہاز ہلتا جاتا تھا، اور مسافروں کے سر جھکے ہوئے تھے۔ جہاز کے اندر کی آوازیں زبان اور تہذیب کے فرق کو مٹا کر ایک ہو گئی تھیں ۔ بس ایک پہچان تھی کہ وہ مسافر ہیں اور اس افسوسناک صورتحال میں سب کے سب ایک ہی منزل کی طرف گامزن ہیں ۔ یگانہ نے کہا تھا:
بلند ہو تو کھلے تجھ پہ راز پستی کا
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا
رخصت ہونے والے مسافروں کی جو تفصیلات سامنے آرہی ہیں ، وہ یہ بتاتی ہیں کہ انسانی زندگی کتنی ناپائیدار ہے۔لیکن زندگی کی ناپائیداری کا تصور بڑی حد تک اس موت سے ہے جو آ جاتی ہے اور کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے زندگی دوبارہ مل گئی ہے۔
حادثاتی موت کے بارے میں کوئی خیال یا تصور حادثے کی صورت اور شدت کو ایک حد تک گرفت میں لے سکتا ہے۔ جس حادثہ سے میں اتنی انسانی زندگیاں ختم ہو گئی ہوں ، اس کے بارے میں منطقی اور علمی گفتگو کرنا ہماری ضرورت ہو سکتی ہے مگر یہ خیال ذہن میں گردش کرتا جاتا ہے کہ زندگیاں لوٹائی نہیں جا سکتیں ۔ کاش حادثے کی تفصیلات کا تجزیہ کرتے ہوئے کوئی ایسی صورت نکل آئے کہ دوبارہ اتنا خوفناک اور دہشت ناک حادثہ رونما نہ ہو۔ ہلتے ہوئے جہاز اور دھڑکتے ہوئے دل میں کیا مناسبت ہے؟ فضا میں جہاز کا ہلنا کوئی ایسا خطرناک اعلان تو نہیں ہے مگر جہاز کا ہلنا بھی ہمیشہ ایک طرح کا نہیں ہوتا۔ اتنے بڑے حادثے کو دیکھ کر دھڑکتے ہوئے دل کا خیال بھی مشکل سے آتا ہے۔سینے میں سانس کی جگہ پر جب آرا چل رہا ہو تو ایسے میں اس عمل کو معمول کا عمل تو ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔صرف ایک مسافر کی زندگی بچ گئی۔ وشواس کمار کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ جیسے زندگی نے ابھی ہار تسلیم نہیں کی ہے لیکن ایک شخص کی زندگی اتنی ختم ہونے والی زندگیوں کا کیا بدل ہو سکتی ہے۔ پھر بھی ایک شخص کا باقی رہ جانا اس چراغ کی طرح ہے جو دیر تک اور دور تک رخصت ہونے والوں کی یادوں کو روشن کرتا رہے گا۔ سیٹ نمبر ۱۱؍ اے ہمیشہ کے لیے یادداشت کا حصہ بن گیا۔ اس خبر کو دیکھ کر تھائی لینڈ کے ایک شخص نے فیس بک پر لکھا کہ ۲۷؍ سال پہلے وہ بھی ۱۱؍ اے سیٹ پر بیٹھا تھا اور وہ بچ گیا تھا۔
۱۷؍ستمبر۱۹۰۸ء کو پہلی مرتبہ ہوائی جہاز حادثےکا شکار ہوا تھا۔ ’’ہوائی جہاز کے لیے فضا کا سازگار ہونا بہت ضروری ہے‘‘یہ فقرہ بڑی حد تک ہوائی جہاز کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ طیارہ کب اور کہاں کس وجہ سے حادثے کا شکار ہوا اس کی ایک لمبی فہرست ہے۔ تصویروں اور تصویروں پر ہونے والی گفتگو کو سن کر نگاہ جھک جاتی ہے۔ ماہرین اور صحافیوں کے تجزیوں میں اختلاف کے باوجود دکھ کا احساس مشترک ہے۔ یہ وہ دکھ ہے جو کسی زمانے کی آگہی اور سیاست کو مہذب بنا دیتا ہے۔ اختلاف کی زبان کتنی سنھبلی ہوئی ہے۔ انسانیت کا کتنا احترام ہے۔
ان تمام حقائق کے باوجود ان کے بارے میں سوچ لی جن کے لیے رخصت ہوئے تو یہ سب کچھ بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی ناکافی معلوم ہوتا ہے۔ طیارے کا بلیک باکس مل گیا۔ بلیک باکس حادثے کی تاریکی کو کتنا روشن کرے گا۔ ٹریفک کنٹرول کو کال کیا گیا، وہ کال بھی حادثے کا شکار ہونے والوں کی آوازوں کے ساتھ مل گئی۔ آواز کتنی باہر گئی اور کتنی اندر رہ گئی۔ اصل میں بس ایک آواز تھی۔ یہ آواز کتنی آوازوں کے ساتھ زندگی کے لمبے سفر پر روانہ ہوا چاہتی تھی۔ کچھ دیر پہلے ایئرپورٹ سے رخصت کر کے لوگ گھر لوٹے تھے، کچھ لوگ راستے میں تھے۔
یہ بھی پڑھئے : خارجہ پالیسی میں ناکامی پر غوروخوض سے پہلے سوچئے
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ جہاز اس طرح حادثے کا شکار نہیں ہو سکتا۔ایسا کہتے ہوئے ان کی زبان پر یہ فقرہ آ جاتا ہے کہ میری بات بس ایک گمان بھر ہے، یہ اور بات ہے کہ اس کی بنیاد جہاز کے تکنیکی علم پر ہے۔ طیارے سے اٹھتا ہوا دھواں ان نوجوان ڈاکٹروں کی زندگیوں کو بھی چھپائے ہوئے تھا جو وہاں ایک ہاسٹل میں موجود تھے۔ ڈاکٹروں کے خواب خواب ہی رہ گئے۔ انسانی زندگیوں کی دیکھ بھال کی خاموشی آگ کی لپٹوں میں کھو گئی۔ ڈاکٹروں کی عمریں کتنی کم تھیں اور وہ بچے جو اپنی ماؤں کے ساتھ طیارہ میں سفر کر رہے تھے، ان روشن تصویروں کو دیکھتے ہوئے کتنے گھنٹے بیت گئے۔ گھر بیٹھے ان تصویروں کو دیکھنا، اس بارے میں کیا کہا جائے یعنی کتنی زندگیاں ختم ہو گئیں ۔ آج بھی جہاز کے ملبے سے دبی ہوئی ایک زندگی ملی۔ زندگی کا یہ لہو لہان چہرہ اپنے ساتھ انسانی زندگی کا وہ رخ پیش کرتا ہے جس کا صرف ایک مذہب ہے اور وہ ہے ایک انسان کی زندگی۔زندگی بچائی جا سکتی تھی، زندگی بچائی جا سکتی ہے ۔یہ دو جملے حال اور تاریخ کو ایک ڈور سے باندھ دیتے ہیں ۔ زندگی کیوں نہیں بچائی جا سکتی؟
زندگی صرف اور صرف اس لیے ہے کہ اس کی بقا کا انتظام کیا جائے۔ عجیب کشمکش کا عالم ہے کہ تکنیکی باتیں کرتے ہوئے بھی یقینی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ کہتے کہتے نگاہیں جہاز کی طرف اٹھ جاتی ہیں ۔ خبروں اور تصویروں کے درمیان کہیں ہمارا جذبہ اور احساس اپنی شدت کو اخلاقی طور پر باقی رکھنا چاہتا ہے۔ سال ۲۰۲۵ء کے جون کی ۱۲؍ تاریخ کا لہو لہان چہرہ بہت دیر تک آئینہ دکھاتا رہے گا۔