Inquilab Logo Happiest Places to Work

خارجہ پالیسی میں ناکامی پر غوروخوض سے پہلے سوچئے!

Updated: June 15, 2025, 1:43 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

ہماری پاکستان مخالف کارروائی کے دوران دُنیا میں کسی نے ہماری حمایت نہیں کی، اس کی وجوہات پر غور ضروری ہےمگر سوال یہ ہے کہ خارجہ پالیسی ہے کیا ؟

Photo: INN
تصویر:آئی این این

بارہ جون کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں  ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں  ، غزہ میں  فوری، غیر مشروط اور پائیدار جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ اسرائیل، متاثرہ عوام کو غذا سے محروم رکھ کر بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کرے۔ اس قراردار کی حمایت میں  ۱۴۹؍ ملکوں  نے ووٹ دیا جبکہ امریکہ اور اسرائیل نے اس کی مخالفت کی۔ ہندوستان نے ووٹنگ میں  حصہ نہیں  لیا۔ مودی کے دور میں ، مرکزی حکومت کا یہ وطیرہ بن گیا ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سے ہندوستانی مایوس ہوئے کیونکہ یہ ہندوستان کی طویل مدت سے چلی آرہی فلسطین پالیسی کے برخلاف ہے لیکن یہ بی جے پی کے نظریۂ ہندوتوا کے عین مطابق بھی تو ہے۔ دوسری جانب بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں  جو حکومت کے ہمنوا ہیں  مگر وہ بھی مایوس ہیں  کیونکہ پاکستان کے خلاف کارروائی (جنگ) کے پیش نظر دُنیا کے ملکوں  نے ہمارا ساتھ دینا گوارا نہیں  کیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم الگ الگ ملکوں  کو اپنے موقف کی تائید کیلئے رضامند نہیں  کرپائے۔
 یہ مضمون ہندوستان کی خارجہ پالیسی کی تنقید پر مشتمل نہیں  ہے بلکہ اس میں  کوشش یہ کی جائیگی کہ اس کی وضاحت کی جائے۔ بی جے پی جب بی جے پی نہیں  بنی تھی بلکہ جن سنگھ تھی تب ۱۹۵۰ء کی دہائی میں  بھی اس کے انتخابی منشوروں  میں  خارجہ پالیسی سے متعلق نظریہ کا فقدان تھا۔ تاہم موجودہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اپنی تحریروں  میں  اس موضوع پر روشنی ڈالی ہے اس لئے اُن تحریروں  سے استفادہ کرتے ہوئے یہ سمجھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے کہ ہمارا ملک عالمی اُمور میں  کس طرح کا کردار ادا کررہا ہے۔ 
 جے شنکر کا مطمح نظر یہ ہے کہ ہمارے وقت میں  امریکہ اور یورپ مستقبل کی طرف دیکھیں  گے اور چین کا ترقیاتی سفر جاری رہے گا۔ اس صورت ِ حال میں  ہندوستان جیسے ملکوں  کیلئے اتنی گنجائش پیدا ہوگی کہ وہ بیرونی ملکوں  سے اپنے روابط میں  موقع پرستانہ طرز عمل اختیار کرسکیں  اور اس طرز عمل میں  مستقل مزاجی کی ضرورت نہیں  ہے۔ یاد رہے کہ جے شنکر کے مضامین کا پہلا مجموعہ تب شائع ہوا تھا جب ٹرمپ صدارتی الیکشن ہار گئے تھے یعنی ۲۰۲۰ء میں ۔ 
 ہندوستان ’’کثیر قطبی ایشیاء‘‘ چاہتا تھایعنی ایسا خطہ جس میں  ہندوستان خود کو چین کے ہم پلہ قرار دے سکے۔ یہ بات ایس جے شنکر نے لکھی اور یہ بھی کہا کہ فضا میں  کئی گیندیں  ہونی چاہئیں  تاکہ ہم اپنی پسند کی گیند کو پکڑ سکیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ خصوصیت ہندوستانی تہذیب کا حصہ ہے۔ قتل عام یا نسلی تطہیر کے خلاف (ووٹنگ سے ) ہماری غیر حاضری یا اسرائیل کے ذریعہ غزہ کے بچوں  کو بھوکا مارنے کی حقیقت (سے ہماری لاتعلقی) کو اسی پس منظر میں  سمجھنا چاہئے۔
 جے شنکر کے مطابق: ’’مہابھارت کا سبق یہ ہے کہ دھوکہ یا غیر اخلاقیت کا معنی صرف اتنا ہے کہ جس طریق کار کو صحیح تصور کیا جاتا ہے اُس کی پروا نہ کریں  (ناٹ پلے بائی رو‘لس)۔ درونا چاریہ نے اکلویہ کا انگوٹھا طلب کیا تھا، اندر نے کرن کے اسلحہ جاتی ذخیرہ کو بڑھایا تھا، ارجن نے شکھنڈی کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا تھا یہ روایتیں  اور طریقے تھے۔ پالیسی میں  مستقل ہونا درست نہیں  تھا لیکن اس کی ضرورت تھی کیونکہ مستقل رہنے سے بعض اوقات تبدیل شدہ صورت حال کا سامنا کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔‘‘ تب خارجہ پالیسی کو کس طرح کا ہونا چاہئے؟ (اس کے جواب میں ) ایس جے شنکر نے اپنی ایک تقریر میں  پہلے تو موقع پرستی کا اپنا فلسفہ (برائے خارجہ پالیسی) پیش کیااور پھر غیر مستقل ہونے پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اس مطمح نظر کو کوئی نام دینا مشکل ہے، اُنہوں  نے ایک اصطلاح کا ذکر کیا ’’بیک وقت کئی وابستگیاں ‘‘ (ملٹی الائنمنٹ) جو کافی موقع پرستانہ اصطلاح ہے اور پھر ’’انڈیا فرسٹ‘‘ کی اصطلاح کا استعمال کیا (جو کافی خود پرستانہ ہے) مگر ان دونوں  اصطلاحات کو خود اُنہوں  نے خارج کیا اور پھر اس طرز عمل کو ’’خوشحالی کے فروغ اور اثرورسوخ کو بڑھانے‘‘ سے تعبیر کیا اور کہا کہ اس سے ہمارے طرز عمل کی ترجمانی تو ہوجاتی ہے مگر نہ تو اسے اصطلاح کہا جائیگا نہ ہی اس میں  کشش ہے مگر اُن کا خیال تھا کہ طویل عرصہ تک اس (’’اصطلاح‘‘ کا استعمال ہوتا رہا تو کوئی باقاعدہ اصطلاح سوجھ ہی جائیگی کیونکہ ہمیں  جس چیلنج کا سامنا ہے اُس میں  یہ بات شامل ہے کہ ابھی ہم ایک بڑی تبدیلی کےابتدائی مرحلے میں  ہیں ۔ 

یہ بھی پڑھئے کہاں ہے ایسے مناظر کو دیکھنے کی نگاہ؟

 کیا خارجہ پالیسی کے مخالفین اس مطمح نظر اور طرز عمل کو مان لیں  گے؟ جی نہیں ، وہ کہیں  گے کہ یہ تو خارجہ پالیسی ہوئی ہی نہیں  بلکہ اب تک جو کچھ بھی ہوتا آیا ہے یہ اُس کا غلاف ہے۔ اس کی تشریح اسی طرح کی جاسکتی ہے کہ جس طریق کار سے وزیر اعظم مودی کو دلچسپی تھی اور جو غیر مستقل ہونے کے باوجود جشن تہنیت میں  تبدیل کیا گیا یہ اُسےڈھک کر یہ سمجھانے کی کوشش ہے کہ جو کچھ ہوتا رہا وہ بامعنی تھا۔خارجہ پالیسی کے مخالفین یہ بھی جاننا چاہیں  گے کہ جے شنکر کا مطمح نظر بی جے پی کی بیان بازیوں  سے الگ کیوں  ہے۔ اس مطمح نظر میں  وشو گرو والی بات اور کسی نہ کسی شکل میں  اخلاقیات کیوں  نہیں  ہے؟  اس مطمح نظر سے کیوں  ظاہر نہیں  ہوتا کہ ہندوستان ایک تکثیری ملک ہے۔ دُنیا لین دین کی جگہ ہے اور ہمیں  اس قابل ہونا چاہئے کہ ہم جو چاہتے ہیں  حاصل کرسکیں ۔ اس مطمح نظر کا ایک پہلو وہ تھا جو یوکرین جنگ کے دوران دیکھنے کو ملا کہ ہندوستان نے روس سے سستا تیل خریدنا شروع کیا۔ یورپ روس سے حاصل کی گئی گیس پر انحصار کیا کرتا تھا مگر وہ دوسرے ملکوں  کو اس بات پر رضامند نہیں  کرسکا کہ وہ بھی روس سے خریداری کیا کریں ۔ ہندوستان نے یہ کام کیا اور چین نے بھی۔ سوال یہ ہے کہ کتنا سستا تھا وہ تیل جو ہم نے خریدا؟ دیگر ملکوں  سے کی گئی خریداری اور روس سے خریداری میں  ۲؍ ڈالر فی بیرل کا فرق تھا مگر یہ فائدہ بھی عام آدمی تک نہیں  پہنچا۔
 جے شنکر یہ نہیں  سمجھ سکے کہ اُن کی تھیوری دونوں  طریقے سے اثر پزیر ہوتی رہی۔ اگر ہم موقع پرستانہ طرز عمل اختیار کریں  تو دیگر ممالک کیوں  ہمارے ساتھ بھی ویسا ہی طرز عمل نہیں  اپنائیں  گے؟ اس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کے خلاف کارروائی میں  دُنیا کیوں  ہمارے ساتھ کھڑی نہیں  ہوئی۔بڑے ممالک اس طرز عمل کا مشاہدہ کرکے ہمارے ساتھ ویسا ہی سلوک کرینگے، موقع پرستانہ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK