Inquilab Logo Happiest Places to Work

کہاں ہے ایسے مناظر کو دیکھنے کی نگاہ؟

Updated: June 14, 2025, 1:41 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

حادثات اور سانحات، جنگیں اور جنگ جیسا ماحول، ان سب کے پیش نظر انسانوں کو بہت کچھ سوچنا چاہئے مگر زندگی کی کشاکش نے ہم سب کو اس حد تک مصروف کردیا ہے کہ ہم کچھ سوچنے، غور کرنے کے روادار نہیں ہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

احمد آباد میں   طیارہ گرنے کے واقعہ کو حادثہ سمجھنا کوتاہ بینی ہوگی۔ اسے زندگی اور موت کے نظریہ سے بھی دیکھنا چاہئے۔ پُرانے لوگوں   کی بہت سی خوبیوں   میں   سے ایک یہ تھی کہ وہ موت کو اُٹھتے بیٹھتے یاد کرتے تھے۔ اکثر لوگ کسی بھی کام کی انجام دہی کے ارادے کا اظہار کرتے تو ’’بشرطِ زندگی‘‘ ضرور کہتے تھے یعنی اگر زندگی رہی تو یہ کام کرینگے۔ ایسا نہیں   کہ فرصت کے کسی کام کیلئے وہ ایسا کہتے تھے، نہیں  ، وہ کام اگلی صبح انجام دینا ہوتا تب بھی یہی کہتے تھے۔ بہت سے ایسے بھی تھے جو نظیر کا مصرعہ ’’سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ‘‘سناتے تھے۔ ایک مصرعے کے ذریعہ، سنانے والا موت کو یاد کرتا اور سننے والے کو اس کی دعوت دیتا تھا۔ اب دن بھر زندگی کے تانے بانے بُنے جاتے ہیں   اور موت کو بھول سے بھی یاد نہیں   کیا جاتا۔ زندگی جب بہت اہم ہوجاتی ہے تو موت غیر اہم لگنے لگتی ہے، پھر انسان اس سے آنکھیں   چرانے لگتا ہے۔ آنکھیں   چراتے چراتے ہی اچانک اس سے ڈرنے لگتا ہے۔ اُسے علم نہیں   ہوتا کہ یہ ڈر کب اُس میں   حلول کرگیا۔ زندگی اور موت میں   کتنا فاصلہ ہے اس حادثہ نے کھول کر سامنے رکھ دیا ہے۔ ۲۴۱؍ مسافر آن واحد میں   لقمۂ اجل بن گئے اور ایک مسافر بچ کر طیارہ سے باہر نکل آیا اور پیدل چلتا ہوا ایمبولنس کی جانب بڑھتا دیکھا گیا۔ ۲۴۱؍ کی موت پر ایک کے بچ نکلنے کی خبر حاوی ہوگئی۔ حقیقت یہ تھی کہ موت ۲۴۱؍ مسافروں   کا پروانہ لے کر چلی تھی۔ اُسے ایک کو بخش  دینا تھا، سو اس نے وہی کیا۔ اس مسافر کی نشست بالکل کنارے پر نہ ہوتی تب بھی وہ بچ جاتا کیونکہ موت اُسے بخشنے کا فیصلہ کرچکی تھی۔ 
 زندگی سے محبت عظیم جذبہ ہے مگر موت کو فراموش کرکے نہیں  ۔ ان دونوں  ، یعنی زندگی سے محبت اور موت کے احساس، کو ایک دوسرے کے آگے پیچھے رہنا چاہئے۔ کبھی یہ آگے، کبھی وہ آگے۔ زندگی سے محبت اس لئے ضروری ہے کہ اس کے ذریعہ انسان اپنے شب و روز کو کارآمد بناتا ہے۔ موت کااحساس اسلئے ضروری ہے کہ اس سے شب و روز کی تنظیم کا احساس تقویت پاتا ہے جسے تنظیم وقت کہا جاتا ہے۔ حسن نعیم نے کیا خوب کہا تھا:
کون مجھ سے پوچھتا ہے روز اِتنے پیار سے
کام کتنا ہوچکا ہے وقت کتنا رہ گیا

یہ بھی پڑھئے : بے بات کی بات کرنے والوں کا کیا؟

 موت کا احساس انسان کو اپنے احتساب کی بھی دعوت دیتا ہے، وہی دعوت جو اس شعر میں   دی گئی ہے۔ احتساب سے زندگی زیادہ کارآمد اور نافع بنتی ہے۔ زندگی اور موت دونوں   ایک دوسرے کے ہم جلیس، ایک دوجے کی ضرورت اور فطرتاً لازم و ملزوم ہیں  ۔ عام طور پر انسان زندگی کو لامحدودتصور کرتا ہے یا اس حد تک تجاہل عارفانہ میں   مبتلا رہتا ہے کہ موت کو فراموش ہی کردیتا ہے جبکہ زندگی مختصر ہے۔  اس کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کسی کو نہیں   معلوم کہ اُس کی شام کب ہوگی۔ آدمی اپنی عمر کو ماہ و سال کی پیمائش سے آنک سکتا ہے کہ وہ دُنیا میں   کتنے سال گزار چکا ہے مگر آئندہ کتنے سال موجود رہے گا اس کا کسی کو علم نہیں  ، اور جانا سب کو ہے۔ رہنے کیلئے کوئی نہیں   آیا۔ اِس مضمون نگار نے اکثر کہا ہے کہ پینتیس سالہ صحافتی زندگی میں   اس نے اخبار میں   لاکھوں   اموات کی خبریں   لکھی ہوں   گی مگر وہ خبر نہیں   لکھ سکا جو آج تک کسی نے نہیں   لکھی کیونکہ کبھی ایسا ہوا ہی نہیں   کہ دُنیا کے کسی ملک کے کسی علاقے کے کسی گوشے میں   کوئی شخص موت سے بچا رہ گیا ہو اور خبر میں   بتایا گیا ہو کہ اُس کا تعلق ابتدائے عالم سے ہے، اُس کے دَور کے بعد ہزاروں   دَور آئے، کروڑہا انسان پیدا ہوئے اور رخصت ہوگئے مگر یہ شخص زندہ بچا رہ گیا۔ یہ خبر آج تک نہ تو آئی نہ ہی تاقیامت آسکے گی کیونکہ موت سب کا مقدر ہے، کسی کا جلدی بُلاوا آجاتا ہے کسی کا دیر سے، اس کے باوجود انسان زندگی ایسے گزارتا ہے جیسے ابھی اُسے بہت عرصہ رہنا ہے۔
 بہت عرصہ رہنے کا احساس جب دیوانگی کی شکل اختیار کرتا ہے تو انسان ہر لمحے دُنیا کے نقشے میں   اپنی فتوحات کے رنگ بھرنا چاہتا ہے، ایسے منصوبے بناتا ہے جیسے اُسے دُنیا سے جانا ہی نہیں   ہے۔ یہی دیوانگی بھوک اُگاتی ہے اور پیاس کے جزیرے بناتی ہے۔ یہی دیوانگی نفسا نفسی کی کیفیت پیدا کرتی ہے اور محکوموں   کو عزت نفس کے ساتھ جینے کی اجازت نہیں   دیتی۔ یہی دیوانگی امن کے شبستانوں   میں   جنگ کی چنگاریاں   بھڑکاتی ہے اور پھر انہیں   دور دور تک پھیلتا ہوا دیکھ کر لطف اندوز ہوتی ہے۔ یہی دیوانگی تمام وسائل پر قابض ہونے کی مہم شروع کرواتی ہے اور فاقہ زدوں   کو دیکھ کر پھولے نہیں   سماتی یا اُنہیں   چند مٹھی اناج دے کر اُن پر احسان جتاتی ہے۔ یہی دیوانگی آج کے دور کے انسانوں   کو ایسا غلام بنانے کے درپے رہتی ہے کہ اُنہیں   اپنے غلام ہونے کا احساس تک نہ ہو، وہ خود کو آقا سمجھتے رہیں   مگر اُن کا آقا کوئی اور ہو۔ یہی دیوانگی ذخیرہ اندوزی کا رجحان پیدا کرتی ہے اور اس کی حفاظت کرتی ہے، پھر منافع خوری اس کا وطیرہ بن جاتی ہے۔ یہی دیوانگی زندگی کا خواب دِکھا کر موت کے نقشے تیار کرتی ہے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی کے پس پشت بھی یہی دیوانگی تھی اور ویتنام اور یوگوسلاویہ کے پیچھے بھی یہی۔ اسی دیوانگی نے قدرتی وسائل کو اپنی جاگیر سمجھ لیا اور منصفانہ تقسیم کو دُنیا کا سب سے بڑا اِشیو بنادیا۔ یہی دیوانگی مشرق میں   بھی ہے مغرب میں   بھی، یہی شمال میں   بھی ہے اور جنوب میں   بھی، یہی میرے قریب بھی ہے اور آپ کے قریب بھی، یہی اُن میں   بھی ہے جنہوں   نے مانگ کر طاقت حاصل کی، پھر ایوانِ اقتدار سجایا اور پھر خود کو خلق کا خدا سمجھ بیٹھے مگر یہی دیوانگی کسی نہ کسی درجے میں   مجھ میں   بھی ہے اور آپ میں   بھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہماری دیوانگی کی دسترس ہمارے اختیار تک محدود ہے اور دُنیا کے بڑے دیوانوں   کی دیوانگی اُن کے اختیار کے اعتبار سے وسیع ہے۔ وہ دیگر ملکوں   پر حملہ کرتے ہیں  ، ہم اپنے عزیزوں   کا حق مارتے ہیں  ۔ اُن کی دیوانگی دُنیا کا نقشہ لے کر بیٹھتی ہے ہماری دیوانگی اپنے آس پاس کے جغرافیہ پر نظر رکھتی ہے۔ وہ غیر محدود وسائل کیلئے تگ و دو کرتے ہیں   ہم پیسہ پیسہ کرتے ہوئے مادّی خواہشات کیلئے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں  ۔ وہ جھوٹ کی فصلیں   اُگاتے ہیں   مگر چند بیج تو ہم بھی روزانہ بوتے ہیں  ۔ اُن کے مقابلے میں   کم اور بہت کم مقدار میں   سہی مگر دیوانگی تو ہم بھی ہے۔ کیا یہ غلط ہے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK