محمد یونس نے چینی صدر کو بنگلہ دیش کے ساحلی خطے کو چینی معیشت کے فروغ کیلئے استعمال کرنے کی کھلی دعوت دے کرنئی دہلی کے شبہات میں اضافہ کردیا۔محمد یونس کے اس بیان کو کیسے سمجھا جائے کہ ہندوستان کی ساتوں شمال مشرقی ریاستیں پوری طرح سے landlockedہیں؟
EPAPER
Updated: April 02, 2025, 1:56 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai
محمد یونس نے چینی صدر کو بنگلہ دیش کے ساحلی خطے کو چینی معیشت کے فروغ کیلئے استعمال کرنے کی کھلی دعوت دے کرنئی دہلی کے شبہات میں اضافہ کردیا۔محمد یونس کے اس بیان کو کیسے سمجھا جائے کہ ہندوستان کی ساتوں شمال مشرقی ریاستیں پوری طرح سے landlockedہیں؟
بنگلہ دیش کی عبوی حکومت کے سربراہ محمد یونس کے چار روزہ بیجنگ دورے کو’’تاریخی ‘‘اور’’ انقلابی تبدیلیوں والا‘‘ دورہ کہاجارہا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اس دورے کے نتیجے میں جنوبی ایشیا کی جیو پالیٹکس میں نمایاں تبدیلیاں بلکہ صف بندیاں رونما ہوسکتی ہیں ۔ ڈھاکہ میں یونس کے دورے کو بنگلہ دیش کی’’سفارتی فتح ‘‘کے طور پر دیکھا جارہا ہے کیونکہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران کے شکار بنگلہ دیش کو بیجنگ نے سفارتی، اقتصادی اور دفاعی تعاون اور سرپرستی کی یقین دہانی کرائی ہے۔
شیخ حسینہ کی گھریلو پالیسیوں میں کئی خامیاں تھیں اور ان کا طرز عمل آمرانہ تھالیکن ان کی خارجہ پالیسی کامیاب تھی۔حسینہ کی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ انہوں نے خطے کی دوبڑی طاقتوں بھارت اور چین جو ایک دوسرے کے حریف ہیں دونوں کے ساتھ بہترین سفارتی، اقتصادی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات رکھے۔ حسینہ حکومت کی خارجہ پالیسی کا محور ان کے والد شیخ مجیب کی’’سب کے ساتھ دوستی کسی سے نہیں بیر‘‘ والی پالیسی تھا۔
اگست میں حسینہ کا تختہ الٹتے ہی بنگلہ دیش کی خارجہ پالیسی راتوں رات بدل گئی۔ حسینہ کی دیرینہ حمایت اور سرپرستی کی وجہ سے ملک کے عوام بھارت سرکار سے ناراض تھے۔ حسینہ کو ہندوستان میں پناہ ملنے کی وجہ سے اس ناراضگی میں مزید اضافہ ہوگیا۔دوسری جانب ہندوستان میں بنگلہ دیش کے عوامی انقلاب پر یہ الزام لگایا گیا کہ اس کے پیچھے اسلامی شدت پسندوں کا ہاتھ تھا۔ شورش زدہ ملک میں تشددکی وارداتوں میں مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں کی ہلاکتوں پر بی جے پی اور سنگھ پریوار نے یہ واویلا مچایا کہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی نسل کشی ہورہی ہے۔ہندوستان اور بنگلہ دیش کے رشتے پچھلے سات ماہ میں خراب سے خراب تر ہوگئے۔
چین نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عبوری حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی اس کا گرم جوشی سے خیر مقدم کیااور بنگلہ دیش کے ساتھ تیزی سے تعلقات مستحکم کرنے لگا۔ یہ بین الاقوامی سفارت کاری کا مروجہ اصول ہے کہ کسی ملک کی عبوری حکومت کے ساتھ دوسرا ملک اہم باہمی معاہدات اور اشتراک سے اس وقت تک گریز کرتا ہے جب تک انتخابات کے بعد نئی منتخب حکومت وجود میں نہیں آجاتی ہے۔ لیکن چینی صدر شی جن پنگ نے یونس پر نوازشوں کی بارش کرتے وقت یہ نہیں دیکھا کہ ان کا عہدہ صرف چیف اڈوائزر کا ہے اور وہ بھی محض چند ماہ کے لئے۔ ان کو خصوصی صدارتی طیارے سے ڈھاکہ سے بیجنگ لایاگیا۔ صدرنے ان کو شرف ملاقات بخشا اور چین نے بنگلہ دیش کے ساتھ آٹھ معاہدوں پر دستخط کئے۔ بیجنگ نے دو بلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری اور آسان قرضے فوری طورپر فراہم کردئے۔میانمار میں نسل کشی سے جان بچاکر فرار ہونے والے دس لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلم رفیوجیوں کو جو بنگلہ دیش کی اکانومی پر بڑا بوجھ ہیں ، میانمار واپس بھجوانے کی ڈھاکہ کی کوششوں کی چین نے حمایت کا اعلان بھی کردیا۔
ظاہر ہے محمد یونس بیجنگ سے خوشی سے سرشار ہوکر ڈھاکہ واپس پہنچے لیکن یونس نے ملک کی دیرینہ خارجہ پالیسی سے انحراف کرکے چین کو گلے لگاتے وقت ہندوستان کے تحفظات کو یکسر نظر انداز کردیا۔ ورنہ تیستا ندی کے پروجیکٹ کے لئے چین کو مدعو کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ تیستا ندی دونوں ممالک کا باہمی معاملہ ہے اور حسینہ نے اپنی معزولی سے ایک ماہ قبل یہ اعلان کردیا تھا کہ گرچہ چین اس پروجیکٹ میں خاصی دلچسپی رکھتاہے لیکن انہوں نے اسے ہندوستان کو سونپنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ دراصل اس پروجیکٹ کے ’’چکن نیک کاریڈور‘‘ کے بے حد قریب ہونے کی وجہ سے ہندوستان نے اس میں چینی شمولیت کی ہمیشہ سے مخالفت کی تھی۔ یہ کاریڈور زمین کی ایک پتلی سی پٹی ہے جو سلی گوڑی میں واقع ہے اور شمالی مشرقی ریاستوں کو ہندوستان سے جوڑتی ہے۔ یہ راہداری بنگلہ دیش، نیپال اور بھوٹان سے گھری ہے۔چین اگر اس پروجیکٹ پر کام شروع کرتا ہے تو یہ ہندوستان کی سالمیت کے لئے خطرے کی بات ہوسکتی ہے۔
علاوہ ازیں محمد یونس نے چینی صدر کو بنگلہ دیش کے ساحلی خطے کو چین کی معیشت کے فروغ کے لئے استعمال کرنے کی کھلی دعوت دے کرنئی دہلی کے شک و شبہات میں اضافہ کردیا۔محمد یونس کے اس بیان کا کیا مطلب نکالا جائے کہ ہندوستان کی ساتوں شمال مشرقی ریاستیں پوری طرح سے landlockedہیں ؟ کیا اس میں چین کے لئے کوئی پیغام پوشیدہ ہے جو ہندوستان کی سالمیت کے لئے خطرے کا باعث ہوسکتاہے؟چین خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کیلئے بے چین ہے اور بھارت کو اپنی راہ کی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ اس لئے وہ جنوبی ایشیا کے ممالک کو امداد اور قرضے دے کر اپنے حلقہ اثر میں لارہا ہے۔اس کا Road and Belt Initiativeبھی پورے خطے میں چین کے وسعت پسندانہ عزائم کی تکمیل کا ایک ذریعہ ہے۔پاکستان، نیپال، مالدیپ اور سری لنکا وغیرہ چین کے بچھائے ہوئے جال میں پہلے ہی پھنس چکے تھے۔ اب بنگلہ دیش بھی اس جال میں پھنستا نظر آرہا ہے۔یونس نے کیا اس نکتہ پر غور کیا ہے کہ بنگلہ دیش اپنی سفارتی اور تزویراتی خود مختاری سے سمجھوتہ تو نہیں کررہا ہے اور شطرنج کے کھیل میں کسی بڑی طاقت کا پیادہ تو نہیں بن رہا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: مایوس ہو کر اک شخص بیٹھ گیا تھا، مَیں نے ہاتھ بڑھایا
ہندوستان بنگلہ دیش کا دیرینہ اتحادی اور دوست ہی نہیں بلکہ محسن بھی ہے۔ جنوبی ایشیا میں بنگلہ دیش وہ واحد ملک ہے جس کے ساتھ ہندوستان کے طویل عرصے سے سب سے مضبوط اور گہرے سیاسی، سفارتی اور اقتصادی تعلقات رہے ہیں ۔ بنگلہ دیش کی آزادی میں بھارت نے جو کردار ادا کیا وہ تاریخ میں رقم ہوچکا ہے۔ سب کچھ فراموش کرکے یونس کا چین جیسے ملک کی گود میں بیٹھ جانا ’’غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم‘‘ والی بات ہے۔
پس نوشت: ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ایک ملک اور اس کے عوام کے ساتھ اتنے دیرینہ تعلقات کوایک فرد(شیخ حسینہ) کی خاطر داؤ پر لگادینا کیا صحیح فیصلہ تھا؟ حسینہ کی معزولی کے بعد ڈھاکہ کے ساتھ سردمہری برتنا کیا ہماری سفارتی دانشمندی کہی جاسکتی ہے؟یونس کے پریس سکریٹری شفیق عالم نے یہ انکشاف کیا ہے کہ چیف اڈوائزر کی شدید خواہش تھی کہ ان کا پہلا دوطرفہ سرکاری دورہ بھارت کا ہو۔ دسمبر میں انہوں نے اس ضمن میں درخواست بھی بھیجی لیکن مودی سرکار نے بے اعتنائی برتی اور یونس کو دلی آنے کی دعوت نہیں دی۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے بیجا غرور میں کہیں خود ہی بنگلہ دیش کو چین کی گود میں تو نہیں ڈھکیل دیا؟