• Thu, 30 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ٹرمپ ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گئے ہیں

Updated: October 29, 2025, 1:59 PM IST | Pervez Hafeez | mumbai

ایک وقت تھا جب مودی جی ٹرمپ سے ملنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے اور ایک یہ وقت ہے کہ وہ ہر اس مقام پر جانے سے کترارہے ہیں جہاں ٹرمپ سے سامنا ہونے کا امکان ہو۔ آسیان سمیت حالیہ کئی اہم اجلاس میں شرکت سے مودی جی کے سیاسی اور سفارتی قد وقامت میں اضافہ ہوتا لیکن وہ ان سے دور رہے

INN
آئی این این

ڈونالڈ ٹرمپ بھلاکیوں  ہاتھ دھو کر ہمارے پیچھے پڑ گئے ہیں ؟ دیوالی کے موقع پر بھی امریکی صدر وزیر اعظم نریندر مودی جی کو تنگ کرنے سے باز نہیں  آئے۔ جب سارا ملک دیوالی کی خوشیاں  منارہا تھا، ٹرمپ ہمارے سب سے بڑے تہوار کا مزہ کرکرا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہوں  نے فون کرکے نریندر مودی جی کو دیوالی کی بدھائی دی، اچھا کیا۔ لیکن بدھائی سندیش میں  متنازع امور کا ذکر چھیڑ کر سب کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔مودی جی کے ساتھ فون پر ہوئی اپنی ذاتی نوعیت کی گفتگو کی تشہیر کرنے کی بھی ٹرمپ کو کوئی ضرورت نہیں  تھی۔ انہوں  نے خود سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ دیوالی کی مبارکباد دیتے وقت بات چیت دونوں  ملکوں  کی باہمی تجارت اور ٹیرف، روسی تیل کی خریداری اور پاکستان جیسے موضوعات پر مرکوز رہی۔ دیوالی کی مبارکباد دیتے وقت بھلا یہ باتیں  کرنے کی کیا تک تھی؟ٹرمپ کو مگر یہ سب کچھ کون سمجھائے؟ ویسے بھی وہ سیاستداں  کم اور بیوپاری زیادہ ہیں ۔وہ ڈائیلاگ نہیں  ڈیل میں  یقین رکھتے ہیں ۔ انگریزی کے علاوہ وہ صرف ایک اور زبان سمجھتے ہیں  وہ ہے دھندے کی زبان۔اسی لئے انہیں  Transactional یعنی سودے باز صدر کہا جاتا ہے۔
دوسری بار وہائٹ ہاؤس میں  قدم رکھنے کے بعد سے ٹرمپ لگاتار مودی جی کے ساتھ سودے بازی ہی تو کررہے ہیں ۔ جولوگ یہ سوچ رہے ہیں  کہ ٹرمپ کو اچانک یہ کیا ہوگیا ہے کہ وہ اپنے جگری دوست کے ساتھ اس طرح کا سلوک کررہے ہیں  انہیں  شاید یاد نہیں  ہے کہ امریکی صدر نے مودی جی کو اپنے اس بدلے ہوئے رخ کا جلوہ فروری میں  ہی دکھا دیا تھا جب وزیر اعظم ان سے ملنے وہائٹ ہاؤس پہنچے تھے۔ٹرمپ نے واضح کردیا تھا کہ ہندوستان سے وہ خصوصی طور سے ناراض ہیں  کیونکہ ان کے بقول امریکی مصنوعات پر دنیا بھر میں  سب سے زیادہ ٹیرف انڈیا لگاتا ہے۔ انہوں  نے یہ فرمان بھی جاری کردیا تھا کہ ہندوستان کو امریکہ سے تیل اور گیس امپورٹ کرکے امریکہ کا تجارتی خسارہ پورا کرنا ہوگا۔ روس سے تیل کی خریداری بندکرنے کاٹرمپ کا اصرار دراصل اسی لئے ہے کہ وہ چاہتے ہیں  کہ بھارت اب زیادہ سے زیادہ تیل امریکہ سے امپورٹ کرے۔
 ٹرمپ جیسے متلون مزاج شخص کی باتوں  کی وجہ سے اس وقت وزیر اعظم کی ’’خاموش رہوں  تو مشکل ہے/کہہ دوں  تو شکایت ہوتی ہے‘‘ والی کیفیت ہے۔ مئی سے ٹرمپ لگاتار مودی جی پر نشانہ سادھ رہے ہیں ۔ٹرمپ ہمارے اس دیرینہ اصولی موقف سے بخوبی واقف ہیں  کہ پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات ہم دوطرفہ بات چیت سے حل کرنے میں  یقین رکھتے ہیں  اور ہمیں  کوئی بیرونی مداخلت قابل قبول نہیں  ہے۔اس کے باوجود وہ لگاتار یہ دعویٰ کررہے ہیں  کہ ۱۰؍مئی کو سیزفائر انہوں  نے ہی کروایا۔
ادھر دس دنوں  سے ٹرمپ نے یہ دعویٰ کرکے کہ ہماری مشکلیں  اور بڑھادی ہیں  کہ مودی جی نے انہیں  یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ روس سے بتدریج تیل کی خریداری بالکل بند کردیں  گے۔ ۲۰۱۹ء میں  مودی جی نے ہیوسٹن کی ریلی میں  ہزاروں  ہندوستانی نژاد امریکیوں  کے سامنے ٹرمپ کو وہائٹ ہاؤس میں  ’’ہندوستان کا حقیقی دوست‘‘ کہہ کر پیش کیا تھا۔آج مودی جی کوسمجھ میں  آرہا ہوگا کہ انہوں  نے ٹرمپ کو سمجھنے میں  کتنی بڑی بھول کردی۔ کیا حقیقی دوست وطن عزیز کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرسکتا ہے؟ امریکی صدر نے مودی جی کی دوستی اور دریادلی کا کیسا صلہ دیا؟ آج مودی جی کو ٹرمپ کی طوطا چشمی پرکتنی دلی تکلیف ہورہی ہوگی۔ ایک وقت تھا جب مودی جی ٹرمپ سے ملنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں  دیتے تھے۔ اور ایک یہ وقت ہے کہ وہ ہر اس مقام پر جانے سے کترارہے ہیں  جہاں  ٹرمپ سے آمنا سامنا ہونے کا رتی بھر امکان ہو۔ ٹرمپ نے مودی جی کے غیر ملکی دوروں  کے شوق کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ ستمبر میں  اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں  مودی جی کا شرکت کرنا طے تھا لیکن آپریشن سیندور اور ٹیرف پرٹرمپ نے جورخ اختیار کیا اس کے بعد وزیر اعظم نے نیویارک جانے کاارادہ ترک کردیا اور اقوام متحدہ میں  ملک کی نمائندگی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کی۔ مصر کے شرم الشیخ میں  غزہ جنگ بندی کے جشن میں  حصہ لینے کے لئے جن سربراہان مملکت کو مدعو کیا گیا تھا ان میں  مودی جی بھی شامل تھے لیکن انہوں  نے اس تقریب میں  شرکت کرنا بھی مناسب نہیں  سمجھا۔ آسیان سربراہی اجلاس میں  وزیر اعظم ورچوئل شریک ہوئے اور کوالالمپورجانے سے گریز کیا۔ درج بالا تینوں  بین الاقوامی اجلاس کافی اہمیت کے حامل تھے اور ان میں  شرکت سے مودی جی کے سیاسی اور سفارتی قد وقامت میں  اضافہ ہوتا۔ وزیر اعظم ان اجلاس سے کیا اسلئے دور رہے کہ ٹرمپ سے قریب نہ آنا پڑے؟ 

یہ بھی پڑھئے : کیاجے ڈی یو نتیش کمار کے کنٹرول میں نہیں؟

ہماری پریشانی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ٹرمپ جب بے رخی پر اترآئے اور ہندوستان کے خلاف ان کا رویہ سخت گیر ہونے لگا تو وہ ہمارے دشمن پاکستان پر اچانک مہربان ہوگئے۔ پچھلے دس برسوں  سے واشنگٹن نے پاکستان کو منہ لگانا چھوڑ دیا تھالیکن شہباز شریف اور عاصم منیر نے ٹرمپ پر ایسا جادو کردیاکہ آج ان کی اور ان کے ملک کی تعریفیں  کرتے امریکی صدرکی زبان نہیں  سوکھ رہی ہے۔ ہندوستان کے برعکس پاکستان نے نہ صرف جنگ بندی کا پورا کریڈٹ ٹرمپ کو دے دیا بلکہ نوبیل انعام برائے امن کے لئے ان کے نام کی تحریری سفارش بھی کردی۔شرم الشیخ میں  ٹرمپ نے حد ہی کردی جب برطانوی وزیر اعظم کئیراسٹارمر کو روک کر پاکستانی وزیر اعظم کو دعوت سخن دے دی۔ شریف نے امریکی صدر کی تعریف میں  زمین آسمان کے قلابے ملادیئے۔ اگر ٹرمپ میں  ذرا سی بھی شرافت اور وضعداری ہوتی تو وہ شرم سے پانی پانی ہوجاتے۔
 انڈیا کے تحفظات اور خدشات کے باوجود امریکہ پاکستان کے ساتھ نہ صرف پرانا اتحاد بحال کرنے کا خواہاں  ہے بلکہ اب نئے اسٹریٹیجک شراکت داری کا پلان بھی بنارہا ہے۔ یہ انکشاف کسی اور نے نہیں  خود امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے دو دن قبل کیا۔ انہوں  نے کہا کہ دہشت گردی مخالف مہم میں  پاکستان کے ساتھ امریکی شراکت داری کی ایک طویل تاریخ ہے۔روبیو نےکہا کہ ہندوستان کو سمجھنا چاہئے کہ امریکہ کو اپنے مفادات کے حصول کیلئے متعدد ممالک کے ساتھ مراسم قائم کرنا ضروری ہے۔ ہمارے دیرینہ دشمن چین کے ساتھ پاکستان کا پرانا یارانہ ہے اب پاکستان ہمارے دیرینہ دوست امریکہ کی آنکھوں  کا بھی تارا بن گیا ہے۔ اب کہنے کو اور کیا رہ جاتا ہے سوائے ساحر کے اس فلمی گیت کے مکھڑے کو دہرانے کے:
 تم اگر مجھ کو نہ چاہو تو کوئی بات نہیں 
تم کسی اور کو ’’چاہوگے‘‘ تو مشکل ہوگی !

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK