Inquilab Logo Happiest Places to Work

ٹرمپ حکومت کے تلاطم خیز ۱۰۰؍ دن

Updated: April 30, 2025, 1:39 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

پہلے سو دنوں میں ٹرمپ نے جو جو اقدام کئے ہیں ان کا مقصد زیادہ سے زیادہ طاقت اور اختیار اپنے ہاتھوں میں سمیٹ لینا ہے۔امریکہ کو دنیا کی قدیم ترین جمہوریت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اگر ٹرمپ کے عزائم پر لگام نہیں لگائی جاسکی تو وہ دن دور نہیں جب امریکہ عہد آمریت میں داخل ہوجائیگا

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 اپنے منہ میاں   مٹھو بننا کوئی ڈونالڈ ٹرمپ سے سیکھے۔ ٹائم میگزین کو دیئے گئے اپنے تازہ انٹرویو میں   ۴۷؍ویں   امریکی صدر نے دعویٰ کیا کہ ان کے دوسرے دور اقتدار کے پہلے ’’سو دن میں   ان کی صدارت بے حد کامیاب‘‘رہی ہے۔ ٹرمپ کے اس بلندبانگ دعوے کے برعکس خلق خدا کی رائے اس کے بالکل برعکس ہے۔ پچھلے چند دنوں   میں   امریکہ میں   جتنے بھی اوپینین پولز ہوئے ہیں   سب کا ایک ہی نتیجہ سامنے آیا ہے: ٹرمپ کی مقبولیت میں   کافی کمی آئی ہے۔
سی این این کے پول کے مطابق پچھلی سات دہائیوں   میں   جتنے امریکی صدور گزرے ہیں   پہلے سو دنوں   میں   ان کی عوامی پسندیدگی اور مقبولیت کی جو شرح تھی ٹرمپ کی ان سب سے کم ہے۔ اے بی سی نیوز اور واشنگٹن پوسٹ کے مشترکہ اوپینین پول کے نتیجے میں   یہ بات سامنے آئی ہے کہ پچھلے ۸۰؍ برسوں   میں   کسی بھی امریکی صدر کی مقبولیت اور عوامی پسندیدگی اتنی کم نہیں   تھی جتنی ٹرمپ کی پہلے سو دنوں   میں   دیکھی جارہی ہے۔جس شخص نے چند ماہ قبل اتنی بڑی اکثریت سے اتنی واضح فتح حاصل کی تھی اس کی مقبولیت میں   اتنی بے تحاشہ گراوٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ ٹرمپ تیزی سے امریکی عوام کا اعتماد کھو رہے ہیں  ۔ عوام کے رویے میں   اس تبدیلی کی واجب وجوہات بھی ہیں  ۔ ٹرمپ نے ۲۰؍ جنوری کو صدر کا حلف اٹھانے کے بعد ایک کے بعد ایک ایسے اقدام کئے جن کے نتیجے میں   سارے ملک میں   ہلچل مچ گئی اور ساری دنیا میں   ہنگامہ برپا ہوگیا۔شاید یہی وجہ ہے کہ نیویارک ٹائمز کے ایک پول میں   ۶۰؍ فی صد سے زیادہ امریکیوں   نے ٹرمپ کی صدارت کو ’’ڈراؤنی‘‘اور’’اول جلول‘‘قرار دیا۔
اول جلول انتظامیہ میں   ایک نیا شعبہ قائم کیا گیا ہے جس کانام ہےDOGEاور اس کی سربراہی دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک کو سونپی گئی ہے۔ مسک اس وقت ٹرمپ انتظامیہ میں   دوسرے سب سے طاقتور اور اہم شخص ہیں  ۔انتظامیہ کی اہلیت اور کارکردگی بہتر بنانے اور اخراجات میں   کٹوتی کرنے کے نام پر مسک اورکمپیوٹر ماہرین کی ان کی ٹیم تمام قانونی ضابطوں   کی دھجیاں   اڑاتے ہوئے آئینی اور وفاقی اداروں   کو بند کررہی ہے، سرکاری اہلکاروں   کو راتوں   رات نکال باہر کررہی ہے اورغیر ملکی امداد پر پابندی لگارہی ہے۔ اب تک ایک لاکھ سے زیادہ وفاقی اہلکاروں   کی نوکری ختم کردی گئی ہے۔ وائس آف امریکہ اور USAID جیسے اہم ادارے بند کردیئے گئے ہیں  ۔ صحت عامہ، تعلیم، دفاع جیسے اہم سرکاری شعبے اور سی آئی اے اور پنٹاگان جیسے کلیدی ادارے بھی مسک کا عتاب جھیلنے والے ہیں  ۔ امریکہ کی وزارت خارجہ میں   بھی چھنٹائی ہورہی ہے۔ مسک نے درجنوں   سفارت خانوں   کو بند کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ 
ٹرمپ نے وہائٹ ہاؤس میں   قدم رکھتے ہی پہلے دن یوکرین اور روس کی جنگ بند کروانے کی پیشن گوئی کی تھی۔ جنگ آج تک جاری ہے۔ ٹرمپ نے اپنے وعدے کے مطابق غزہ میں   جنگ بند کروا تودی تھی لیکن ساتھ ہی بنجامن نیتن یاہو کی صہیونی فوج کو دوبارہ بمباری کی کھلی چھوٹ دے کر اپنے کئے کرائے پر خود ہی پانی پھیر لیا۔ غزہ میں   جاری فلسطینیوں   کی نسل کشی اور یوکرین میں   جاری روسی جارحیت پہلے سو دنوں   میں   ٹرمپ کی دو بڑی ناکامیاں   ہیں  ۔
ٹرمپ نے ساری دنیا کے خلاف ٹیرف(محصولات) کی جو جنگ چھیڑی تھی اس میں   بھی شاید انہیں   منہ کی کھانی پڑے گی۔ ٹیرف کے اعلان کے چند دنوں   کے اندر ہی انہوں   نے خود ہی اس کے عمل درآمد پر نوے دنوں   کی روک لگادی۔ چین کو مزا چکھانے کے چکر میں   امریکہ خود ہی تجارتی جنگ کا خمیازہ بھگتنے جارہا ہے۔ چینی مصنوعات پر بھاری محصولات عائد کردینے سے ان کی قیمتوں   میں   کافی اضافہ ہوجائے گا یہ اضافی بوجھ کسی اور کو نہیں   بلکہ عام امریکی صارفین کو ہی اٹھانا پڑے گا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مہنگائی کم کرنے اور عوام کی روز مرہ کی زندگیاں   آسان بنانے کے جو وعدے ٹرمپ نے اپنے ووٹروں   سے کئے تھے وہ ان کو پورا نہیں   کرسکیں   گے۔ اقتصادی ماہرین کو ڈر ہے کہ افراطِ زر میں   اضافہ ہوگا، بے روزگاری بڑھے گی اور اس بات کا امکان ہے کہ امریکہ کو کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑے۔ اس میں   کوئی شک نہیں   کہ ٹرمپ نے غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن کا جو وعدہ کیا تھا وہ انہوں   نے حرف بحرف پورا کیا۔ پہلے سو دنوں   میں   ہی ہزاروں   غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کرکے ملک بدر کردیا گیا۔ ٹرمپ کے امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) کے چھاپہ ماروں   کی ایسی دہشت پھیل گئی ہے کہ میکسکویا کینیڈا بارڈر کے ذریعہ چوری چھپے امریکی حدود میں   دراندازی کرنے کی کوئی شخص جرأت نہیں   کررہا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے : کل کا بنگلہ دیش اور آج کا بنگلہ دیش

ٹرمپ نے امریکہ کے آئینی اور جمہوری اداروں   مثلاً پارلیمنٹ، عدلیہ، یونیورسٹیاں  ، میڈیا، جمہوریت کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ جس امریکہ کو آزادی اظہار رائے کے لئے ساری دنیا میں   احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا وہاں   طلبہ کوگرفتار کرکے ملک بدر کیا جارہا ہے۔ ان کا گناہ صرف یہ ہے کہ انہوں   نے غزہ میں   فلسطینیوں   کے قتل عام کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ پہلے سو دنوں   میں   ٹرمپ نے جو جو اقدام کئے ہیں   ان کا مقصد زیادہ سے زیادہ طاقت اور اختیار اپنے ہاتھوں   میں   سمیٹ لینا ہے۔ وہ فطر تاًنا شاہ ہیں   اور انہیں   لگتا ہے کہ امریکی ووٹروں   نے جو مینڈیٹ دیا ہے وہ انہیں   اس بات کی کھلی چھوٹ دیتا ہے کہ وہ اپنی من مانی کرتے رہیں  ۔ امریکہ کو دنیا کی قدیم ترین جمہوریت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اگر ٹرمپ کے عزائم پر لگام نہیں   لگائی جاسکی تو وہ دن دور نہیں   جب امریکہ عہد آمریت میں   داخل ہوجائے گا۔ بیباک امریکی سینیٹر برنی سینڈرس کا دعویٰ ہے کہ امریکہ میں   جمہوریت منہدم ہورہی ہے۔ امریکہ کی ٹاپ ایک فی صد آبادی کے پاس نچلی نوے فی صد آبادی سے زیادہ دولت ہے اور دھنا سیٹھ دونوں   سیاسی پارٹیوں   کو کنٹرول کررہے ہیں  ۔ سینڈرس کے مطابق امریکہ میں   جمہوریت نہیں   oligarchy چل رہی ہے۔
سیاسی مبصرین اور دانشور وں   کو یہ اندیشہ ہے کہ امریکہ ایک ’’بدمعاش ریاست‘‘ بن چکی ہے جس کی قیادت ایک ایسا بد دماغ اور دبنگ شخص کررہا ہے جسے قانون کی بالادستی اور امریکی اقدار کی نہ کوئی واقفیت ہے اور نہ کوئی احترام۔ معروف امریکی کالم نویس تھامس فریڈ مین نے تویہ وارننگ تک دے دی ہے کہ اگر ٹرمپ نے اپنا شرانگیزانہ رویہ ترک نہیں   کیا تو وہ ان تمام اقدار اور اداروں   کو تباہ کردیں   گے جن کی وجہ سے امریکہ طاقتور، قابل احترام اور خوشحال بنا ہے۔ فریڈ مین نے تسلیم کیا کہ وہ امریکہ کے مستقبل کے تعلق سے پہلے کبھی بھی اتنا زیادہ خوفزدہ نہیں   ہوئے تھے۔ان کا خوفزدہ ہونا فطری بھی ہے کیونکہ کئی سیاسی مبصرین ٹرمپ میں   ہٹلر کی جھلک دیکھ رہے ہیں  ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK