Inquilab Logo Happiest Places to Work

بے بات کی بات کرنے والوں کا کیا؟

Updated: June 13, 2025, 1:29 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

پہلگام میں ایک خاص مذہب کے ماننے والوں کو نام پوچھ کر مارنے والے تو دہشت گرد تھے۔ انسانیت اور ہندوستان کے دشمن تھے مگر دہشت گردوں کو نشانہ بنانے والوں میں محض نام کی وجہ سے کرنل صوفیہ کو نشانہ بنانے والے کون تھے؟ یا کون ہیں؟ کیا دونوں کی ذہنیت اور طریقۂ کار ایک نہیں ہے؟

Photo: INN
تصویر:آئی این این

یہ تو صحیح ہے کہ حکومت پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہے اور حکومت کو پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلا کر بتانا چاہئے کہ آپریشن سیندور کی ہمیں  یعنی ہمارے ملک کو کیا قیمت چکانی پڑی اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوئے؟ مگر اس سلسلے میں  الزام تراشیوں  کا کوئی جواز نہیں  ہے۔ پہلگام میں  دہشت گردوں  نے حملہ کرکے کئی جانیں  لیں  اور ہندوستان نے ایک سوچے سمجھے اور پہلے سے اعلان شدہ پروگرام کے مطابق پڑوسی ملک میں  دہشت گردوں  کے اڈوں  کو نشانہ بنایا۔ ایسا کرنے میں  ہندوستان کا نقصان بھی ہوا ہوگا مگر ہماری نگاہ ان نقصانات پر ہو تو کسی شرپسند چاہے وہ فرد، ٹولہ، ملک یا ملک کا پروردہ ہو سزا دینا مشکل ہوجائے گا اس لئے پورے مسئلہ کو سمجھنے کے لئے کچھ سوالات کا قائم کیا جانا ضروری ہے۔
 پہلا سوال یہ ہے کہ کیا پہلگام میں  سیاحوں  کو نشانہ بنایا گیا؟ جواب ہے ہاں ۔ یہاں  نام پوچھ کر نشانہ بنانے کی خبر ہے تو مسلمانوں  کے ان کی جان بچانے کی بھی خبریں  ہیں ۔ دہشت گردوں  یا ان کو بھیجنے والوں  نے سوچا ہوگا کہ جیسے ہی پہلگام میں  ایک مذہب کے سیاحوں  کا نام پوچھ کر ان کو قتل کئے جانے کی خبر عام ہوگی۔ ملک بھر میں  کہرام مچ جائے گا، قتل کئے جانے والوں  کے ہم مذہب ملک بھر میں  فرقہ وارانہ بنیاد پر قتل شروع کر دیں  گے مگر پہلگام کے مسلمانوں  نے نہ صرف سیاحوں  کی مدد کی بلکہ ملک بھر کے ہندوؤں  اور مسلمانوں  نے بھی اتحاد، یکجہتی اور انسانی رشتوں  کی حفاظت کی۔ حملہ آوروں  کی پہلی ناکامی تو یہی تھی مگر بدقسمتی سے حملے کے اس پہلو کی زیادہ تشہیر نہیں  ہوئی، حالانکہ ہونی چاہئے تھی کہ ہندوستان کے لوگ مذہب کے اختلاف کے باوجود ایک تھے، ایک ہیں  اور ایک رہیں  گے۔ ہندوستان نے بدلہ لینے کے لئے ایک منصوبہ بنایا اور اس کی کمان کرنل صوفیہ اور ایئر ونگ کمانڈر، ویومیکا سنگھ کو سونپی مگر کچھ لوگوں  نے کرنل صوفیہ کو نشانہ بنایا اور ایک بڑی تعداد نے ان کی مضحکہ خیز باتوں  پر تالیاں  بجائیں ۔ ذرا سوچئے کہ پہلگام میں  ایک خاص مذہب کے ماننے والوں  کو نام پوچھ کر مارنے والے تو دہشت گرد تھے۔ انسانیت اور ہندوستان کے دشمن تھے مگر دہشت گردوں  کو نشانہ بنانے والوں  میں  محض نام کی وجہ سے کرنل صوفیہ کو نشانہ بنانے والے کون تھے؟ یا کون ہیں ؟ کیا دونوں  کی ذہنیت اور طریقۂ کار ایک نہیں  ہے؟ مزید خرابی پیدا کرنے کی کوشش کی ان چند لوگوں  نے جنہوں  نے علامتی قربانی کا شوشہ چھوڑا؟ میں  اسے قبول نہیں  کرسکتا،  میں  تو قربانی کرنے اور اسی طرح کرنے کا قائل ہوں  جس طرح نبی محترمﷺ نے کیا یا فرمایا ہے۔ ہاں  قربانی کے جانوروں  کے ذریعہ قربانی سے پہلے یا بعد میں  دلآزاری اور گندگی کا مخالف ہوں ۔ اسی طرح نمائشی عبادت یا علامتی عبادت بھی ہمارے لئے کوئی چیز نہیں ۔
 دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا دہشت گردوں  کا پاکستان سے کوئی تعلق ثابت ہے؟ جواب ہے، جی ہاں  ثابت ہے۔ اس سلسلے میں  کافی شواہد سامنے آتے اور پیش کئے جاتے رہے ہیں ۔ تازہ ترین ثبوت وہ تصویریں  ہیں  جن میں  پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے اسپیکر ملک احمد خان کو لشکر طیبہ کے دہشت گردوں  سیف اللہ قصوری اور طلحہ سعید کے ساتھ ایک ہی ریلی کے ڈائس پر بیٹھے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ سیف اللہ قصوری کے بارے میں  کہا جاتا ہے کہ پہلگام میں  جو ہوا اس کی سازش اسی نے رچی تھی اور لشکر طیبہ میں  اس کی حیثیت ڈپٹی چیف کی ہے۔ اسی طرح طلحہ سعید حافظ سعید کا بیٹا ہے۔ ہندوستان اور امریکہ نے اس کو گلوبل ٹیرورسٹ یعنی عالمی دہشت گرد قرار دیا ہے۔ دونوں  ملکوں  نے اقوام متحدہ میں  اس کے لئے قرار داد بھی پیش کی مگر چین نے دہشت گردوں  کو بچا لیا۔ اب ثابت ہوگیا ہے کہ پاکستان میں  دہشت گردی کے اڈے صرف ہندوستان کے لئے نہیں  بلکہ دنیا کے لئے بڑا خطرہ ہیں ۔ بنگلہ دیش میں  حسینہ واجد کے خلاف جو تحریک کھڑی ہوئی اس کو کھڑا کرنے میں  بھی ان دہشت گردوں  کا بڑا ہاتھ تھا۔ شاید وہ سمجھتے ہیں  کہ ۱۹۷۱ء میں  وہ جو ذلت اٹھا چکے ہیں  اس کا بدلہ ڈھاکہ میں  شدت پسندوں  کو مضبوط کرکے حاصل کرسکتے ہیں ۔

یہ بھی پڑھئے : خط ِافلاس کا ڈیٹا اور سرکاری دعویٰ؟

 اب آیئے اصل مسئلہ پر۔ ہندوستان کے سی ڈی ایس انل چوہان نے سنگاپور میں  صاف لفظوں  میں  اعتراف کیا کہ ہم نے جنگی حکمت عملی مسلسل تبدیل کی، اپنی غلطی سدھاری اور پھر جو حملے کئے تو وہ پڑوسی ملک میں  ۳۰۰؍ کلومیٹر تک کامیاب رہے۔ ان کی شدت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے ایئر ڈیفنس سسٹم کے سپورٹ کے باوجود ۴؍ دنوں  میں  پاکستان گھٹنوں  پر آگیا۔ سی ڈی ایس نے تعداد تو نہیں  بتائی مگر یہ اعتراف کیا کہ ہمارے بمبار گرائے گئے۔ اس قسم کی باتیں  سبرامنیم سوامی وغیرہ نے بھی کیں  مگر انداز جداگانہ تھا۔
 کوئی بھی ذی عقل سمجھ سکتا ہے کہ ہندوستانی بمبار مار گرائے گئے ہوں  گے کہ طاقتور سے طاقتور ملک کا حملہ بھی نقصان سے خالی نہیں  ہوتا۔ چیف آف ڈیفنس اسٹاف (سی ڈی ایس) نے جو کہا اور جتنا کہا صحیح کہا۔ ہمارا یعنی ہندوستان کے انصاف پسندوں  کا اصرار اس پر ہونا چاہئے کہ ہمارا ملک جس طرح عالمی سطح پر حقیقی صورتحال بیان کر رہا ہے، پاکستان کی فوج و حکومت سے دہشت گردوں  کے تعلق کے بارے میں  دو ٹوک رائے رکھتا ہے۔ اسی طرح اپنے ملک میں  کبھی کرنل صوفیہ کو نشانہ بنا کر اور کبھی کوئی اور شوشہ چھوڑ کر ماحول کو خراب کرنے کی جو روش عام ہوگئی ہے اس کو قابو میں  کریں ۔ پہلگام کے دہشت گردوں  کو اگر پڑوسی ملک میں  عزت دی جا رہی ہے تو ہمارے ملک میں  بیہودہ اور لغو بات کرنے اور کام کرنیوالوں  کا اعزاز کرنے والے بھی بہت ہیں ۔ یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اسی طرح ان عناصر کی سرکوبی کرے جس طرح پڑوسی ملک کے دہشت گردوں  کی کر رہی ہے۔ ہمیں  خوشی ہے کہ ہماری حکومت مضبوط حکومت ہے اور وہ اپنی پارٹی یا ملک میں  ماحول خراب کرنے والوں  کے سامنے کمزور نہیں  پڑے گی مگر اس کا کچھ ثبوت بھی تو سامنے آئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK