تین عرب بادشاہوں نے امریکی صدر کے چار دنوں کے مختصردورے میں اُن پر قارون کے خرانے لٹادیئے۔ ان بے پناہ نوازشوں کے احسان تلے دبے امریکی صدر سے کیا عرب فرمانروا غزہ میں جاری نسل کشی رکوانے کا اصرار نہیں کرسکتے تھے؟
EPAPER
Updated: May 21, 2025, 5:14 PM IST | Pervez Hafeez | Mumbai
تین عرب بادشاہوں نے امریکی صدر کے چار دنوں کے مختصردورے میں اُن پر قارون کے خرانے لٹادیئے۔ ان بے پناہ نوازشوں کے احسان تلے دبے امریکی صدر سے کیا عرب فرمانروا غزہ میں جاری نسل کشی رکوانے کا اصرار نہیں کرسکتے تھے؟
گزشتہ ہفتے ڈونالڈ ٹرمپ نے نہایت قلیل مدت میں جتنے سارے اہم کام نپٹادیئے وہ شایدان کے علاوہ کسی اور امریکی صدر کے بس کی بات نہیں تھی۔ ٹرمپ نے سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات جیسے تین سب سے اہم خلیجی ممالک کا چار روزہ طوفانی دورہ مکمل کیا جو ان کے ملک اور خود ان کے لئے بے حد کامیاب ثابت ہوا۔ ٹرمپ نے عرب فرمانرواؤں سے کھربوں ڈالر اینٹھے، شام پر برسوں سے عائد پابندیاں ہٹانے کا اعلان کیا، حماس کو سمجھا بجھاکر فلسطینی مزاحمتی تنظیم کے قبضے سے یرغمالی امریکی شہری کو رہا کروالیا،یمن کے حوثی جنگجوؤں کے ساتھ امن کا معاہدہ کرلیا، ایران کے ہمراہ ایک نئے جوہری معاہدہ کے لئے مذاکرات کا ایک اور دور مکمل کروالیا۔ ان سب کارناموں کو سر انجام دینے سے ذرا پہلے انہوں نے جنوبی ایشیا کے دو ہمسایہ ممالک ہندوستان اور پاکستان کو سیز فائر کے لئے آمادہ بھی کروالیا۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ٹرمپ نے و ہ ایک سب سے اہم کام نہیں کیا جس کا انتظار ساری دنیا بے صبری سے کررہی تھی اور امریکی صدر نے چند روز قبل خود جس کام کا عندیہ بھی دیا تھا:انہوں نے غزہ میں جاری فلسطینیوں کا قتل عام بند نہیں کروایا۔ ۲۰۱۷ء کے اپنے مشرق وسطیٰ کے دورے کے برعکس اس بار ٹرمپ نے حالیہ دورے کی فہرست میں اسرائیل کو شامل نہیں کیا جس کی وجہ سے امریکی اور اسرائیلی میڈیا مسلسل یہ لکھ رہا تھا کہ امریکی صدر بنجامن نیتن یاہو سے بدگمان ہوگئے ہیں اور اب وہ ان کی ناراضگی کی پروا کئے بغیر مشرق وسطیٰ کے تعلق سے آزادانہ فیصلے کررہے ہیں۔یہ قیاس آرائیاں بھی کی جارہی تھیں کہ اپنے سعودی دورے کے موقع پر ٹرمپ غزہ اور فلسطینیوں کے حوالے سے کوئی بڑا دھماکہ کرنے والے ہیں۔ یروشلم پوسٹ نے ایک امریکی نیوز ایجنسی کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دعویٰ تک کردیا تھا کہ ٹرمپ فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرنے والے ہیں۔لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ٹرمپ کے چار روزہ دورے کے دوران غزہ میں صہیونی درندگی جاری رہی۔ ریاض میں اپنی تقریر کے دوران ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ مشر ق وسطیٰ میں اب’’ انتشار نہیں تجارت ‘‘ہوگی اور’’ٹیررزم نہیں ٹیکنالوجی‘‘ چلے گی۔ جب ٹرمپ یہ دلفریب دعوے کررہے تھے اس وقت بھی صہیونی دہشت گردبمباریاں کرکے غزہ کے کھنڈرات میں اضافہ کررہے تھے۔ ٹرمپ کا ارمان ہے کہ تاریخ میں ان کانام عالمی Peacemaker کی حیثیت سے لکھا جائے۔ ساری دنیا یہ مانتی ہے کہ دوریاستی فارمولہ ہی مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کا واحد حل ہے۔ شاید اسی لئے واشنگٹن میں یہ قیاس آرائیاں ہورہی تھیں کہ ٹرمپ سعودی عرب کی سر زمین سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرکے اس کے اقوام متحدہ کا ۱۹۴؍ واں رکن بننے کی راہ ہموار کرینگے۔
یہ بھی پڑھئے:بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
پچھلے ہفتے ایک بار پھر دنیا بھر میں غزہ میں فلسطینی نسل کشی کے خلاف عوام نے سڑکوں پر اتر کر احتجاج کیا۔ افسوس ریاض، دوحہ یا ابوظہبی میں ٹرمپ کے قیام کے موقع پر ایسا کوئی مظاہرہ نہیں ہوااور نہ ہی امریکی صدر کے لئے کی گئی خیر مقدمی تقاریر میں کسی عرب لیڈر نے غزہ کی ہولنا ک صورتحال کا ذکر کرنا ضروری سمجھا۔میز بان ممالک کے حکمرانوں نے امریکی صدر کے لئے اپنے خزانوں کا منہ کھولتے وقت کاش غزہ کے قتل عام پر اپنی زبان کھولی ہوتی۔
وہائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ پچھلے ہفتے تین عرب ممالک سے مختلف سودوں (deals) میں دو ٹریلین ڈالر کا سرمایہ وصول کرنا ٹرمپ کا تاریخی کارنامہ ہے۔ یقیناً اس خطیر رقم سے امریکہ کی معیشت میں زبردست اچھال آئے گی اور لاکھوں نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ خود ٹرمپ کے خاندان والوں اور ارب پتی دوستوں کی بھی چاندی ہوگی کیونکہ عرب بادشاہوں نے ان کے منہ بھی موتیوں سے بھر دیئے۔دو ٹریلین ڈالر کتنی خطیر رقم ہوتی ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ دنیا کی چھٹی سب سے بڑی اکانومی برطانیہ کی معیشت تین اور چار ٹریلین ڈالر کے درمیان ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ چار دنوں کے مختصر عرصے میں تین عرب بادشاہوں نے ٹرمپ پر قارون کے خرانے لٹادیئے۔ان بے پناہ نوازشوں کے احسان تلے دبے امریکی صدر سے کیا عرب فرمانروا غزہ میں جاری نسل کشی رکوانے کا اصرار نہیں کرسکتے تھے؟ جنوری میں جو سیز فائر ٹرمپ نے کروایا تھا مارچ سے اسرائیل جس کی دھجیاں اڑارہا ہے۔ کیا نیتن یاہو سے سیز فائر کی پاسداری کروانے کا ان کا فرض ٹرمپ کو یاد نہیں دلایا جاسکتا تھا؟ اگر جنگ بندی ممکن نہیں بھی تھی تو کیا کم از کم بھوک سے تڑپتے غزہ کے بچوں کے لئے دودھ کی فراہمی کا وعدہ بھی نہیں لیا جاسکتا تھا؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ سعودی عرب نے ۱۴۲؍بلین ڈالر کے دفاعی معاہدے کرکے اور ۶۰۰؍بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کرکے ٹرمپ سے کیا کیا حاصل کرلیا؟ سیریا پر عائد پابندیا ں ختم کروادیں اور شام کے عبوری صدر احمد الشرع سے ٹرمپ کے مذاکرات کروادیئے۔ یہ شخص القاعدہ جیسی خطرناک تنظیم کا رکن تھا اور اس کے سر پر امریکہ نے دس ملین ڈالر کا انعام مقرر کر رکھاتھا۔سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی سفارش کے بعد ٹرمپ نے اس کے ساتھ نہ صرف گرم جوشی سے مصافحہ کیا بلکہ نصف گھنٹے تک سیریا اور مشرق وسطیٰ کے حال اور مستقبل پر تبادلہ خیال بھی کیا۔
ٹرمپ کو حوثیوں پر بمباری بند کرکے صلح کرنے کے لئے بھی سعودی ولی عہد نے ہی رضا مند کیا۔ اسی طرح قطر نے ٹرمپ کے ساتھ اربوں ڈالر کے سرکاری معاہدے ہی نہیں کئے بلکہ ۴۰۰؍ ملین ڈالر کا ایک پر تعیش ہوائی جہاز بھی ٹرمپ کے ذاتی استعمال کے لئے تحفے میں دے دیا۔ ساری دنیا میں کسی نے کسی کو اتنا بیش قیمت تحفہ آج تک نہیں دیا ہوگا۔ بدلے میں قطر ٹرمپ کو ایران کے ساتھ اختلافات ختم کرکے نیا جوہری معاہدہ کرنے کی راہ پر لے آیا ہے۔
Jeffrey Sachs یہودی نژاد امریکی اسکالر ہیں جو جابر حکمرانوں کے سامنے سچ بولنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے ٹرمپ کے دورے سے قبل کہا کہ اس ہفتے ٹرمپ اورعرب رہنماؤں کو ایک تاریخی موقع مل رہا ہے کہ وہ اس جھگڑے کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیں جو ایک صدی سے جاری ہے۔ معروف امریکی دانشور کے مطابق دو ریاستی حل اپناکر ٹرمپ نہ صرف اسرائیل اور فلسطین بلکہ لبنان، سیریا اور ایران میں بھی امن قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس ہفتے امریکہ اور عرب دنیا کو تاریخ رقم کرنے کا موقع ملا تھا۔ افسوس انہوں نے اسے گنوادیا۔