مس ریچل، جن کا اصل نام ریچل گریفن-ایکرسو ہے، بچوں کیلئے ویڈیوز بنانے والی امریکی کونٹیٹ کریٹر اور یوٹیوبر ہیں۔ یوٹیوب پر ان کے چینل Ms Rachel کے تقریباً ڈیڑھ کروڑ سبسکرائبرز ہیں۔ مس ریچل نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر غزہ میں ۱۴ ہزار بچوں کی بھوک سے موت کے اقوام متحدہ کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے عالمی لیڈران سے مداخلت کرنے کی اپیل کی ہے۔
مس ریچل۔ تصویر: آئی این این
گوگل کے زیر ملکیت ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم یوٹیوب پر بچوں کیلئے ویڈیوز بنانے والی امریکی کونٹیٹ کریٹر "مس ریچل" نے منگل کو عالمی لیڈران سے اپیل کی کہ وہ اقوام متحدہ کے بیان، جس میں تنبیہہ کی گئی ہے کہ اگر اسرائیل غزہ کی سخت ناکہ بندی ختم نہیں کرتا ہے تو محصور علاقے میں اگلے ۴۸ گھنٹوں کے اندر ۱۴ ہزار سے زائد فلسطینی بچے بھوک سے ہلاک ہوسکتے ہیں، کے بعد غزہ کے معصوم بچوں کو بچانے کیلئے فوری اقدام کریں۔
مس ریچل، جن کا اصل نام ریچل گریفن ایکرسو ہے، نے اپنے آفیشل انسٹاگرام اکاؤنٹ پر لکھا، "اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں ۱۴ ہزار فلسطینی بچے اگلے ۴۸ گھنٹوں میں بھوک سے مر سکتے ہیں۔ براہِ کرم، آپ سب ان بچوں کیلئے کچھ کہیں۔ عالمی لیڈران، برائے مہربانی کچھ کہیں۔" اس جذباتی پوسٹ کے ساتھ ہی، انہوں نے اپنے نومولود بچے کو گود میں لئے اپنا ایک ویڈیو شیئر کیا جس میں ایک لاغر فلسطینی بچے کی تصویر بھی شامل تھی۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: مارک روبیوکی تقریر میں ۲؍ فلسطین حامی مظاہرین کی رخنہ اندازی
۴۲ سالہ امریکی یوٹیوبر نے لکھا، "عالمی لیڈران، براہِ کرم اس بچے کی مدد کریں۔ براہ کرم، اسے دیکھیں۔ براہ کرم، براہ کرم اسے دیکھیں۔ بس ایک منٹ کیلئے اس کی آنکھوں میں دیکھیں۔ اگر آپ اسے دیکھیں، اور اگر آپ کسی ایسے بچے کے بارے میں سوچیں جس سے آپ بہت پیار کرتے ہیں، تو ہم سب جان جائیں گے کہ آپ ۱۵ ہزار بچوں کو نہیں مار سکتے اور آپ ۱۴ ہزار بچوں کو بھوک سے مرنے نہیں دے سکتے۔"
مس ریچل نے مزید لکھا، "جو کچھ بھی آپ کو ان بچوں کیلئے کھڑا ہونے سے روک رہا ہے، جو خوراک اور طبی دیکھ بھال کے بغیر سخت پریشانیوں کا سامنا کررہے ہیں اور جن کے اعضاء انیستھیسیا کے بغیر کاٹے گئے ہیں، جو کچھ بھی آپ کو ان بچوں کے حق میں آواز اٹھانے سے روک رہا ہے، وہ آپ کی انسانیت سے بڑا نہیں ہے۔ آپ کو ان بچوں کو بچوں کے طور پر دیکھنا ہوگا، جیسے وہ ہیں۔۔۔ وہ خدا کے قیمتی بچے ہیں جو پرورش اور دیکھ بھال کیلئے ہمیں اجتماعی طور پر سونپے گئے ہیں۔"
یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: ۲۲؍ ممالک کا غزہ میں امداد کی مکمل بحالی کا مطالبہ
گزشتہ ہفتے بھی برطانوی-امریکی صحافی اور میڈیا کمپنی زیٹیو کے بانی مہدی حسن کے ساتھ ایک وائرل انٹرویو کے دوران مس ریچل نے غزہ کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ غزہ کے بچوں کے مصائب کے متعلق "کچھ نہ کہنا، متنازع ہونا چاہئے۔"
اقوام متحدہ کی تنبیہہ: ۱۴ ہزار فلسطینی بچے موت کے دہانے پر
مس ریچل کی عالمی لیڈران سے یہ اپیل، اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے سربراہ ٹام فلیچر کی تنبیہ کے بعد سامنے آئی کہ غزہ میں ۱۴ ہزار بچوں کو فوری خوراک اور طبی دیکھ بھال نہ فراہم کی گئی تو وہ اگلے دو دنوں میں ہلاک ہو جائیں گے۔ فلیچر نے کہا کہ اگر کافی امداد بروقت نہ پہنچی تو اگلے ۴۸ گھنٹوں میں غزہ میں ۱۴ ہزار سے زائد فلسطینی بچے بھوک سے مر سکتے ہیں۔ بی بی سی ریڈیو ۴ کے ٹوڈے پروگرام سے گفتگو کرتے ہوئے فلیچر نے ان اعداد و شمار کو "انتہائی چونکا دینے والا" قرار دیا اور کہا کہ وہ "اگلے ۴۸ گھنٹوں میں ان ۱۴ ہزار بچوں میں سے جتنی بھی تعداد کو بچانا ممکن ہو، بچانا چاہتے ہیں۔"
یہ بھی پڑھئے: غزہ میں بچوں کا قتل کرکے اسرائیل عالمی سطح پر الگ تھلگ ہوتا جارہا ہے: یائیرغولان
غزہ کے سرکاری میڈیا آفس (جی ایم او) نے اس ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ غزہ میں تقریباً ۲ لاکھ ۹۰ ہزار بچے اسرائیل کے ذریعے انسانی امداد کی ناکہ بندی کی وجہ سے موت کے دہانے پر ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا، "ایسے حالات میں، جب ۱۱ لاکھ بچوں کو روزانہ بقا کیلئے کم از کم غذائی ضروریات تک رسائی نہیں ہے، `اسرائیلی` قبضہ کے ذریعے بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے اور عالمی برادری خاموش ہے۔"
واضح رہے کہ ۲ مارچ سے اسرائیل نے غزہ پٹی میں خوراک، طبی سامان اور انسانی امداد کے داخلہ پر سخت پابندی لگا رکھی ہے جس سے محصور علاقے میں پہلے سے سنگین بحران مزید بدتر ہو گیا ہے۔ صہیونی ریاست کی تین ماہ سے جاری انسانی امداد کی ناکہ بندی نے غزہ کی پوری آبادی کو قحط جیسی صورتحال میں دھکیل دیا ہے جس کے نتیجے میں کئی اموات واقع ہوئی ہیں اور بھوک کی تاب نہ لا کر مرنے والوں میں زیادہ تر شیر خوار اور بچے شامل ہیں۔ پیر کو اسرائیل نے امدادی سامان سے لدے ۹ ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی، جسے اقوام متحدہ کے حکام نے "سمندر میں ایک قطرہ" قرار دیا۔ فلیچر کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے حالیہ اعلان کے بعد غزہ میں داخل ہونے والی امداد "سمندر میں ایک قطرہ" ہے اور آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے مکمل طور پر ناکافی ہے۔ اطلاعات کے مطابق، غزہ میں اب تک کم از کم ۵۷ بچے بھوک سے مر چکے ہیں جس سے اسرائیل کے مبینہ طور پر بھوک کو ہتھیار بنانے کے خلاف بین الاقوامی سطح پر غم و غصہ پیدا ہوا ہے، جو جنگی جرم کے مترادف ہے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ سے فلسطینیوں کا’’ الوداعی پیغام‘‘ ’’ کچھ دیر میں ہم قتل ہو جائیں گے‘‘
غزہ میں اسرائیلی حملے جاری
دریں اثنا، غزہ میں اسرائیل کے فضائی حملے جاری ہیں۔ منگل کو غزہ شہر میں نقل مکانی کی پناہ گاہ کے ساتھ کئی مقامات پر حملے کئے گئے جن میں زائد از ۸۵ فلسطینی شہید ہوئے۔ مہلوکین میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔ الجزیرہ کے مطابق، ایک اسکول، جس میں فلسطینیوں نے پناہ لے رکھی تھی، پر ہونے والے حملے میں ایک حاملہ خاتون بھی ہلاک ہوئیں۔ واضح رہے کہ اسرائیل کی ۱۹ ماہ سے جاری نسل کشی کی جنگ میں اب تک غزہ میں ۵۳ ہزار ۳۳۹ سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں، جن کی بڑی تعداد خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔ اسرائیلی کارروائیوں میں ایک لاکھ ۲۱ ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ غزہ کے سرکاری میڈیا آفس کے مطابق، اگر گمشدہ اور ملبہ میں دبے افراد کو مردہ سمجھا جائے تو ہلاکتوں کی تعداد ۶۱ ہزار ۷۰۰ سے تجاوز کرسکتی ہے۔