اے جی نورانی ہمارے عہد کی ایسی شخصیت تھے جن کی کمی کبھی پوری ہوسکے گی یا نہیں، اس کا علم خداوند عالم کےعلاوہ کسی کو نہیں۔ اسے مایوسی نہ سمجھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اب لگتا ہی نہیں کہ اِس قبیل کے لوگ مستقبل میں کبھی پیدا بھی ہوپائینگے۔
EPAPER
Updated: August 31, 2024, 5:54 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
اے جی نورانی ہمارے عہد کی ایسی شخصیت تھے جن کی کمی کبھی پوری ہوسکے گی یا نہیں، اس کا علم خداوند عالم کےعلاوہ کسی کو نہیں۔ اسے مایوسی نہ سمجھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اب لگتا ہی نہیں کہ اِس قبیل کے لوگ مستقبل میں کبھی پیدا بھی ہوپائینگے۔
اے جی نورانی، جن کا دو روز قبل انتقال ہوا، بہت بڑی شخصیت بھی تھے جن کا شمار اِس عہد کے عظیم دانشوروں میں کیا جاسکتا ہے۔ اگر آزادی کے بعد منصہ شہود پر آنے والے ممتاز ہندوستانی مسلمانوں کی فہرست مرتب کی گئی جنہوں نے ملک و ملت کی خدمت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا تو نورانی صاحب کا نام اُس میں ضرور آئیگا۔ اُن کی شخصیت کئی شخصیتوں کا مجموعہ تھی۔ قانون داں بھی تھے مصنف بھی، باقاعدہ وکالت کرنے والے وکیل بھی تھے اور ماہر آئین بھی، تاریخ داں بھی تھے اور تاریخ نویس بھی، صحافی بھی تھے اور دلِ دردمند رکھنے والےانسان بھی، جو تقریباً ہر عہد میں اقلیت میں ہوتے ہیں۔ اُن کے انتقال کی خبر دل پر شاق گزری۔ اب سوچتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے کہ نورانی صاحب بھی ممبئی میں سکونت پزیر تھے اور اسی شہر میں یہ مضمون نگار بھی فروکش ہے مگر اُن سے ملنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا۔
اِس کی کئی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ نورانی صاحب بڑی حد تک گوشہ نشین تھے۔ وہ محفلوں میں آتے جاتے نہیں تھے۔ لکھنا پڑھنا اور صرف لکھنا پڑھنا اُن کا روزمرہ تھا۔ ممکن ہے وہ ’’کس سے ملنا ہے اور کتنی دیر ملنا ہے‘‘ پر یقین رکھتے رہے ہوں مگر وہ رہتے سب کے ساتھ تھے۔ ہر ہندوستانی شہری کے ساتھ۔ ہر ہندوستانی مسلمان کے ساتھ۔ اسی لئے اُنہو ںنےایسے کئی موضوعات پر قلم اُٹھایا جن کا براہ راست تعلق ہندوستانی عوام اور ہندوستانی مسلمانوں سے ہے۔ وہ چاہے اُن کی کتاب ’’آر ایس ایس: ہندوستان کا روگ‘‘ (آر ایس ایس : اے مینیس ٹو اِنڈیا) ہو یا ’’کشمیر کا تنازع ۱۹۴۷ء تا ۲۰۱۲ء‘‘ ہو، نورانی صاحب تاریخی حقائق کے ساتھ لکھتے تھے اور حقائق کی تلاش کیلئے خود کو سرگرداں رکھتے تھے۔ چونکہ ہاتھ سے لکھنے میں زیادہ توجہ مرکوز رہتی ہے اس لئے، اُنہیں جاننے اور قریب سے دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ ٹائپ رائٹر آجانے کے باوجود نورانی صاحب ہمیشہ ہاتھ ہی سے لکھتے رہے۔ بامبے ہائی کورٹ کے پاس کوئی ٹائپسٹ تھا جو اُن کے مضامین ٹائپ کیا کرتا تھا۔
یہ بھی پڑھئے:بچیوں کی ذہانت اور منڈلاتے خطرات
یہ کمپیوٹر کا زمانہ نہیں تھا مگر مجھے یقین ہے کہ سامنے کمپیوٹر دھرا ہوتا تب بھی وہ ہاتھ ہی سے لکھنا پسند کرتے۔ اُنہیں جاننے والے یہ بھی بتاتے ہیںکہ اُن کا ذخیرۂ کتب غیر معمولی تھا۔ کتابوں کی الماریوں میں وہ فائلیں بھی ہوتی تھیں جن میں اخبارات کے تراشے موضوع کے اعتبار سے محفوظ کئے جاتے تھے تاکہ حوالہ جات کیلئے جب بھی ضرور ت ہو ان سے استفادہ کیا جاسکے۔
نورانی صاحب تاریخی حقائق اور حوالہ جات کو بطور دلیل پیش کرنے میں اس حد تک طاق تھے کہ اُن کا کوئی مضمون اس سے خالی نہیں رہتا تھا۔ اُن کی کتاب ’’دی مسلمس آف انڈیا‘‘ میں ایک باب ’’اُردو‘‘ پر ہے جسے یہاں واوین میں اس لئے لکھا گیا ہے کہ کتاب میں یہ اسی عنوان سے ہے۔ اس میں جواہر لال نہرو کی وہ تقریر نقل کی گئی ہے جو اُنہوں نے ۲۹؍ مارچ ۱۹۵۴ء کو لوک سبھا میں کی تھی۔ اس تقریر میں جواہر لال نے کہا تھا کہ ’’اُردو کسی مذہبی فرقے کی زبان نہیں ہے، یہ ہندوؤں، مسلمانوں، سکھوں اور اُن تمام لوگوں کی زبان ہے جو اسے بولتے ہیں۔ فرض کرلیجئے کہ یہ مسلمانوں ہی کی زبان ہے، جو کہ حقیقت نہیں ہے، تب بھی یہ بتائیے کہ کیا ہمارے ملک میں ساڑھے چار کروڑ مسلمان نہیں رہتے؟‘‘
اس تقریر میں جواہر لال نہرو نے شبلی اکیڈمی کیلئے منظور کی گئی ۶۰؍ ہزار روپے کی اعانت پر ہونے والے اعتراض کا یہ کہتے ہوئے جواب دیا تھا کہ اگر ایسے ادارے کو جو اُردو زبان کی بیش قیمت خدمت کررہا ہے، ۶۰؍ ہزار روپے دے دیئے گئے تو کیا یہ ایسی کوئی بات ہے جس کی مخالفت ہو اور یہ کہہ کر تنقید کی جائے کہ یہ مسلم کلچر کو فروغ دینے کی جانب قدم ہے؟‘‘ سوال یہ ہے کہ کتنے لوگ جانتے ہیں کہ ملک کے اولین وزیر اعظم نے ایسی کوئی تقریر کی تھی؟ کم از کم، یہ مضمون نگار تو نہیں جانتا تھا۔ نورانی صاحب کی کتاب ہی سے اِسے معلوم ہوا۔ آزادی کے بعد ملک میں اُردو کی کتنی مخالفت ہوئی اور کس کس نے کی نیز وہ کون لوگ تھے جو اُردو کی حمایت کررہے تھے اور اہل اُردو کا رجحان کیا تھا،ان تمام باتوں کا جواب نورانی صاحب کے اِس مضمون میں مل جاتا ہے۔سوچئے کتنی دیدہ ریزی کے ساتھ لکھا گیا ہوگا یہ مضمون۔ اسی میں ہندوستانی مسلمانوں کے بارے میں نہرو کا وہ بیان بھی نقل کیا گیا ہے جس میں کسی رکن پارلیمان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے اُنہو ںنے کہا تھا کہ ’’یہ بات اشارتاً کہی گئی یا ایسا تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ہندوستانی مسلمانوں کی شہریت غیر ملکی ہے، یہ حماقت کی حد ہے کیونکہ ہندوستان میں جو مسلمان ہیں وہ سیکڑوں نسلوں (ہنڈریڈس آف سنچریز) سے یہاں رہتے آئے ہیں۔‘‘ کتاب ہذا میں یہ مضمون بعنوان ’’اُردو‘‘ صفحہ نمبر ۲۸۸؍ سے ۳۴۴؍ تک پھیلا ہوا ہے یعنی چھپن صفحات پر مشتمل ہے۔
یہ مضمون نگار، نورانی صاحب سے اُس دَور سے واقف ہے جب ’’انقلاب‘‘ میں اس کی آمد آمد ہوئی تھی۔ اُس وقت کے ایڈیٹر مرحوم فضیل جعفری، جو انگریزی کے پروفیسر اور اُردو کے بلند پایہ ادیب و شاعر تھے، اے جی نورانی کے قدردان تھے چنانچہ ادارتی صفحہ کیلئے اُن کا مضمون خود ترجمہ کیا کرتے تھے۔ مجھے یاد نہیںکہ کبھی اُنہوں نے یہ مضمون اپنے کسی ماتحت کو دیا ہو۔
نورانی صاحب نے شاہ بانو کیس پر بھی لکھا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر بھی، مسلمانوں کے سیاسی رجحان پر بھی خامہ فرسائی کی اور ہندوتوا کے احیاء پر مسلمانوں کے ردعمل پر بھی ، بے شمار موضوعات اُن کی دلچسپی کا مرکز تھے۔ اُن کے راہیٔ ملک عدم ہوجانے کے بعد اُن کی کتابیں ہی ہیں جن سے اُن کے ذہن اور جذبے کو سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ کتابیں ہر اُس شخص کیلئے بہت اہم ہیں جو آزادی کے بعد سے اب تک کے حالات کو بہتر طور پر سمجھنے کا خواہشمند ہے۔ یہ کتابیں پڑھی جانی چاہئیں اور اُردو نیز دیگر زبانوں میں ان کا ترجمہ بھی ہونا چاہئے مگر.........مَیں خود پر حیران ہوں کہ یہ مشورہ اتنی آسانی سے کیسے دے دیا جبکہ اس پر عمل کرنے کیلئے کوئی صاحب یا ادارہ آگے بڑھے، اس کا امکان بڑی حد تک مفقود ہے۔ اِس دور کی سب سے بڑی مشکلوں میں سے ایک یہ ہے کہ لوگوں نے پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔ نورانی صاحب کی کتابیں کتنی ہی بیش قیمت ہوں، جب تک اُن کا مطالعہ نہیں کیا جائیگا، تب تک اُن کی کوئی اہمیت کو سمجھا نہیں جاسکتا۔ صاحب تصنیف چلا گیا، تصنیفات ہیں اور آن لائن پر بھی دستیاب ہیں، کاش ہم کتابوں کی اہمیت کو سمجھ سکتے!