پہلگام سانحہ کے بعد کسی نے ہماری ہمنوائی کیوں نہیں کی؟ دراصل عالمی اُمور میں جتنی سنجیدگی درکار ہے وہ نہیں برتی گئی۔ اس کی ایک مثال یہاں درج کی گئی ہے۔
EPAPER
Updated: August 10, 2025, 2:39 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
پہلگام سانحہ کے بعد کسی نے ہماری ہمنوائی کیوں نہیں کی؟ دراصل عالمی اُمور میں جتنی سنجیدگی درکار ہے وہ نہیں برتی گئی۔ اس کی ایک مثال یہاں درج کی گئی ہے۔
فروری۲۰۱۸ء میں ٹرمپ کے وہائٹ ہاؤس نے ’’انڈو پیسفک کیلئے ایک جامع لائحہ عمل‘‘ تیار کیا تھا۔ اس دستاویز میں ، جسے جنوری ۲۰۲۱ء میں کلاسیفائی کیا گیا، یہ بات درج تھی کہ امریکہ اس خطے میں اپنی اسٹراٹیجک فوقیت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے اور اس کیلئے چین کو روکنا چاہے گا جو اس خطے پر چھا جانا چاہتا ہے اور پھر کوشش کریگا کہ عالمی سطح پر امریکہ کے اثر ورسوخ کو کم کرے۔ اس منصوبہ میں یہ بھی درج کیا گیا تھا کہ مذکورہ بالا مقصد کو پانے کیلئے ضروری ہوگا کہ ہم خیال ملکوں کے تعاون سے ہندوستان مستحکم ہو اور خطے میں چین کی بالادستی کو یکطرفہ نہ رہنے دے بلکہ طاقت کے توازن کیلئے خود طاقتور بنے۔ دیگر ہم خیال ملکوں کے تعاون کی بات کہنے کے بعد امریکہ نے خود کو سلامتی اُمور میں ہندوستان کے پارٹنر کی حیثیت سے پیش کیا تھا تاکہ بحری سلامتی کو یقینی بنایا جائے اور چین کے اثرورسوخ کے مقابلے میں طاقت کا ایک اور مرکز قائم کیا جائے۔ امریکہ چاہتا تھا کہ ہندوستان، جاپان، آسٹریلیا اور امریکہ مل کر چین کے اثرو رسوخ کے خلاف مزاحمتی دیوار بنیں ۔اس لائحہ عمل اور منصوبہ کی بابت بتایا گیا تھا کہ اس سے ہندوستان بہت بڑا دفاعی شراکت دار بنے گا جس کی مضبوط فوج امریکہ سے ضروری تعاون حاصل کرتی رہے گی اور اس پوری سرگرمی کا مقصد یہ ہوگا کہ چین فوجی اور تکنیکی صلاحیتیں اتنی آسانی سے نہ حاصل کرپائے جتنی کہ بصورت دیگر ممکن ہوگی۔
اس منصوبے کے بارے میں ہندوستان کا موقف کیا تھا یہ ہم نہیں جانتے کیونکہ یہ بات نہ تو پارلیمنٹ میں بتائی گئی نہ ہی ذرائع ابلاغ کو انٹرویوز دیئے گئے، نہ تو پریس کانفرنس کی گئی نہ ہی اس کا ذکر انتخابی منشور میں کیا گیا مگر مودی حکومت مذکورہ بالا منصوبے کے تحت آگے بڑھتی رہی اور امریکہ سے یہ اسٹراٹیجک اور ملٹری اتحاد کیا۔
فروری ۲۰۲۰ء میں ، جب ٹرمپ ہندوستان آئے تھے اور لداخ کا بحران شروع ہونے سے کئی روز قبل مودی نے چین کے خلاف اس معاہدہ کو قبول کرلیا۔ ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۰ء کو جب امریکی وزیر دفاع مائیک پامپیو ہندوستان کے دورہ پر تھے، نئی دہلی نے ایک معاہدہ پر دستخط کئے جسے بیسک ایکس چینج اینڈ کو آپریشن ایگریمنٹ (بی ای سی اے) نام دیا گیا۔اس معاہدہ کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان، امریکی انٹلی جنس تک رسائی حاصل کرے اور اپنی فوج کے میزائلوں اور ڈرون کو تیر بہدف بنانے کی صلاحیت پیدا کرلے۔ اس معاہدہ کے ذریعہ فضا سے فضا میں مار کرنے کا بھی تعاون شامل تھا۔ اسی وقت جو دوسرا معاہدہ ہوا تھا وہ تھا: لاجسٹکس ایک چینج میمورینڈم آف ایگریمنٹ جس کے ذریعہ طے کیا گیا تھا کہ دونوں ملکوں (ہند امریکہ) کی فوجیں ایکدوسرے کے مراکز اور سپلائی کے ٹھکانوں سے ایند’ن، کل پرزے اور خدمات حاصل کرسکتی ہیں ۔ آخر الذکر معاہدہ ہندوستان اور امریکہ کی بحریہ کیلئے کیا گیا تھا۔
بی ای سی اے معاہدہ کے وقت مائیک پامپیو نے چین پر براہ راست تنقید کی تھی۔ اُنہوں نے کہا تھا: ’’مجھے خوشی ہے کہ امریکہ اور ہندوستان ہر طرح کے خطروں کے خلاف ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر آمادہ ہیں اور ان خطرات میں چین کی کمیونسٹ پارٹی ہی کا خطرہ شامل نہیں ہے۔اس موقع پر امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک ایسپر نے بھی خطاب کیا اور کہا تھا کہ ’’ایک آزاد اور کھلے ہوئے انڈو پیسفک کیلئے ہم سب شانے سے شانہ ملا کر کھڑے ہیں بالخصوص چین کی جارحیت اور غیر مستحکم کرنے والی سرگرمیوں کے خلاف‘‘ ۔ وزیر دفاع راج ناتھ نے اظہار خیال کیلئے جو تحریر تیار کی تھی اُس میں پہلے یہ سطر تھی جسے بعد میں حذف کردیا گیا کہ دفاع کے نقطۂ نظر سے ہمیں اپنے ملک کی شمال سرحدوں پر بے قابو جارحیت کا سامنا ہے۔ اُن کی تقریر کے انگریزی ترجمے کیلئے یہ سطر ہندوستانی مترجم کو نہیں دی گئی جس نے تقریر (انگریزی میں ) پڑھ کر سنائی تھی اور جس کی نقل امریکیوں کو دی گئی تھی۔
جب اس دستاویز کو کلاسیفائی کیا گیا تب چین نے یہ کہہ کر ردعمل ظاہر کیا تھا کہ امریکہ کو گینگ بنانے یا گروہ بندی کا خبط ہوگیا ہے جس کا اظہار کرکے وہ اپنے دُہرے معیار اور نقصان پہنچانے کے عزائم کو طشت از بام کرتا ہے۔اس امریکی دستاویز کو منظر عام پر لایا گیا تو ہندوستان نے اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ چھ ماہ بعد ایک تیسرا معاہدہ جس کا نام تھا کمیونیکیشن کمپیٹی بلیٹی اینڈ سیکوریٹی ایگریمنٹ اینڈ سسٹمس۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستانی اور امریکی فوجی کمانڈروں کو مواصلاتی آلات اور دیگر تکنیکی باتوں تک رسائی حاصل ہو جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دونوں ملکوں کے فوجی طیارے اور بحری جہاز ایک محفوظ نیٹ ورک کے ذریعہ ایکدوسرے سے رابطہ کرسکیں ۔
یہ بھی پڑھئے : یہ ایسا خط ہے جو، طے ہے، پہنچ نہ پائے گا
ممکن آپ سوال کریں کہ آپ کا یہ کالم نگار کئی برس پہلے ہوئے ان معاہدوں کے بارے میں کیوں لکھ رہا ہے اور ان کا آج کے حالات اور واقعات سے کیا تعلق ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس ماہ جو واقعات ہوئے ہیں وہ نہ تو ہوتے اگر ہم نے ایک طرف امریکہ سے تعلق بڑھانے کے ساتھ ساتھ دوسری طرف چین سے تعلق نہ بڑھایا ہوتا جو اس بات کا اشارہ تھا کہ ہماری ترجیحات طے نہیں ہیں کہ کس ملک سے ہمارا کیسا رابطہ اور تعلق ہونا چاہئے اور اُس سے ہم کون سے معاہدے کریں گے اور کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی سے کیا گیا معاہدہ کسی دوسرے ملک سے ہمارے تعلقات میں تلخی پیدا کردے۔ یہ سب ہم نے نہیں دیکھا جس کا نتیجہ ہے کہ آج ہم کنفیوژ ہیں اور ہمارا کوئی دوست نہیں ہے۔
یاد رہے کہ جب لداخ کا بحران جاری تھا تب قومی سلامتی کے سابق مشیر ایم کے نارائنن نے لکھا تھا کہ لداخ میں ہونے والی ہلاکتوں کے پیش نظر، وزیر اعظم مودی کو یہ کہہ کر متنبہ کیا تھا کہ ’’یہ موقع نہیں ہے کہ ہندوستان دوسرے ملکوں سے اس طرح اتحاد کرے کہ چین اسے خود کو حاشئے پر ڈالنے کی کوشش سمجھے۔‘‘ نارائنن نے یہ بھی کہا تھا کہ ہندوستان اور چین کے درمیان جتنے بھی معاہدے سرحد سے متعلق ہیں اُن میں یہی بات دونوں فریقین کے ذہن میں ہے اور یہی اُن معاہدوں کی بنیاد ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کے تئیں غیر جانبدار (نیوٹرل) رہیں گے۔