Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہوئے تم دوست جس کے۰۰۰

Updated: August 06, 2025, 1:37 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

ہمیں یہ باور کرایا گیا تھاکہ ٹرمپ ،مودی جی کے جگری یار ہیںاور اگر وہ دوبارہ صدر بن گئے تو ہندوستان کے وارے نیارے ہوجائینگے لیکن ہندوستانی تارکین وطن کے ساتھ ظالمانہ سلوک ، پہلگام سانحہ کے بعد ہند پاک جنگ رکوانے کے متواتر دعوے اور ٹیرف وار جیسے ایشوزسے واضح ہوتا ہے کہ ٹرمپ ’دشمن‘ کا کردار ادا کررہے ہیں

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 پچھلے ہفتے ٹرمپ نے ہندوستانی مصنوعات کی درآمدات پر ۲۵؍فیصد ٹیرف کے نفاذ کا اعلان کرکے کھلبلی مچادی ہے۔ ٹرمپ نے برطانیہ، یورپی یونین، جاپان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے بھی زیادہ ٹیرف کابوجھ ہم پر ڈالنے پر ہی اکتفا نہیں  کیا بلکہ روس سے تیل اور ہتھیاروں  کی خریداری کے ’’جرم‘‘ میں  اضافی جرمانہ عائد کرنے کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ انہوں  نے ہندوستان کی معیشت کو ’’مردہ معیشت‘‘قرار دے دیا اور یہ اعلان بھی کردیا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ باہمی اشتراک سے تیل کے ذخائر دریافت کرے گا اور ممکن ہے کل پاکستان سے ہندوستان کو تیل خریدنا پڑے۔
ٹرمپ نے ہم پر صرف اضافی ٹیرف عائد کیا ہوتا تو بھی ہمیں  گوارا ہوتا لیکن انہوں  نے ٹیرف کا اعلان جس انداز میں  کیا وہ نہ صرف بین الاقوامی سفارتی آداب کے منافی بلکہ توہین آمیز بھی تھا۔ امریکہ اگر دنیا کی قدیم ترین جمہوریت ہے تو ہندوستان کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ٹرمپ کو ہندوستان جنت نشان کے متعلق اس طرح کا تضحیک آمیز رویہ اختیار کرنے اور غیر اخلاقی زبان استعمال کرنے کی جرات کیسے ہوئی؟ ہندوستان کے حوالے سے ٹرمپ کے نازیبا بیانات سے ہندوستانیوں  کے دل ٹوٹے ہیں ۔ ہماری اجتماعی دل برداشتگی کا اہم سبب یہ ہے کہ ہمیں  یہ باور کرایا گیا تھاکہ ٹرمپ مودی جی کے جگری یار ہیں  اور اگر وہ دوبارہ صدر بن گئے تو ہندوستان کے وارے نیارے ہوجائیں  گے۔ اسی لئے پچھلے سال ٹرمپ کی انتخابی کامیابی کیلئے بھکتوں  نے ہندوستان میں  خصوصی پوجا اور ہون کروائے تھے۔
 ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں  ہیوسٹن میں  منعقد کی گئی ریلی میں  مودی جی نے فرط جذبات سے مغلوب ہوکر’’ اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘ کا نعرہ بلند کیاتھا۔ مودی جی نے دعویٰ کیا تھا کہ ٹرمپ کی شکل میں  انڈیا کو’’ وہائٹ ہاؤس میں  ایک حقیقی دوست‘‘ مل گیا ہے۔ ۲۰۲۰ء میں  کروڑوں  خرچ کرکے احمد آباد کے کرکٹ اسٹیڈیم میں  انہوں  نے ٹرمپ کی خاطر ہیوسٹن سے بھی بڑی ریلی منعقد کروائی جس میں  ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں  نے امریکی صدر کو ’’نمستے ٹرمپ‘‘ کہاتھا۔ لیکن وہائٹ ہاؤس میں  دوسری بار قدم رکھتے ہی ٹرمپ نے مودی جی اور کروڑوں  ہندوستانیوں  کی امیدوں  پر پانی پھیر دیا۔ انہوں  نے غیر ملکی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن میں  ہندوستانی شہریوں  کے ساتھ کوئی رعایت برتنے کے بجائے اور زیادہ سختی کا مظاہرہ کیا۔بھارتی شہریوں  کو بیڑیوں  میں  جکڑ کر خطرناک مجرموں  کی طرح مال بردار طیاروں  میں  واپس بھیجاگیا۔ ٹرمپ اگر مودی جی کے دعوؤں  کے مطابق واقعی ہندوستان کے دوست ہوتے تو کیا ہندوستانی شہریوں  کے ساتھ ایسا غیر انسانی سلوک کرتے؟ کتنی حیرت کی بات ہے کہ اپنی افتتاحی تقریب میں  ٹرمپ نے’’ دشمن‘‘ شی جن پنگ تک کو مدعو کیا لیکن’’ ڈیئر فرینڈ‘‘ مودی کو نہیں  بلایا۔ پہلگام میں  نہتے بھارتی سیاحوں  کے قتل اور آپریشن سیندور کے بعد بھی امریکہ نے ہمارے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ نہیں  کیا۔ ہندوستان کی حساسیت کا خیال کئے بغیر بار بار یہ دعویٰ کرکے کہ بھارت۔پاک جنگ انہوں  نے رکوادی، ٹرمپ دراصل مودی جی کو مسلسل رسوا کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ اگر ٹرمپ ہندوستان کے دوست ہوتے تو پہلگام سانحے کے بعد اسلام آباد کی سرزنش کرتے۔ اس کے بجائے انہوں  نے پاکستانی فوجی سربراہ عاصم منیر کو وہائٹ ہاؤس میں  لنچ پر مدعو کرلیا۔ 
یہ سب کچھ نریندر مودی حکومت کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا ثبوت ہے۔ واشنگٹن صرف نئی دہلی سے بدگمان ہوتا توپریشانی نہیں  تھی۔ پریشانی یہ ہے کہ وہ ہمارے دشمن پاکستان پر مہربان ہوگیا ہے۔اس سے قبل جو کبھی نہیں  ہوا تھا وہ پچھلے چند ہفتوں  میں  ہورہاہے: چین اور پاکستان دونوں  پاکستان پر فریفتہ ہیں  اور’’ہم لٹے لٹے، وقت سے پٹے پٹے،کارواں  گزر گیا غبار دیکھتے رہے‘‘ والی کیفیت سے دو چارہیں ۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے میڈیا مشیر اور معروف تجزیہ کارسنجے بروا کے مطابق’’ یہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی ناکامی ہے‘‘کیونکہ چین اور امریکہ کے اتحادکے مدنظر پچھلی تین دہائیوں  سے ہماری خارجہ پالیسی کی مسلسل کوشش رہی ہے کہ ہندوستان کو امریکہ کی حمایت اور سرپرستی حاصل رہے۔ میرے خیال سے خارجہ پالیسی اپنے ملک کے بنیادی مفادات کے تحفظ کا خیال رکھتے ہوئے دوسرے ممالک کے ساتھ سفارتی، اقتصادی، تجارتی اور تزویراتی تعلقات کو بہتر بنانے کا نام ہے۔اچھی خارجہ پالیسی کا مقصد اقوام عا لم میں  اپنے ملک کی ساکھ بڑھانا ہے نہ کہ ملک کے سربراہ کی دھاک جمانا۔

یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ چڑا رہے ہیں یااُن کا کوئی گیم پلان ہے؟


سارے مسئلے کی جڑ یہ ہے کہ موجودہ حکومت خارجہ پالیسی کو ملک کی اندرونی سیاست میں  وزیر اعظم کا دبدبہ بڑھانے اور انتخابی فائدہ اٹھانے کیلئے استعمال کررہی ہے۔جب بھی مودی جی کسی بیرونی دورے پر جاتے ہیں  تو بی جے پی اور گودی میڈیا یہ تشہیر کرنے لگتا ہے کہ دنیا میں  مودی جی کے نام کا ڈنکا بج رہا ہے اورانہوں  نے بھارت کو وشو گرو بنادیا ہے۔ 
ٹرمپ نے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد سے ساری دنیا کے خلاف تجارتی جنگ چھیڑرکھی ہے۔ ہر قیمت پر امریکی خزانہ بھرنے کی جستجو میں  وہ دوست اور دشمن کی تمیز بھی کھو چکے ہیں ۔ چین پر ٹرمپ نے پہلے ۱۴۵؍ فیصد ٹیرف لگایا لیکن شی جن پنگ نے جب ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کردیااور جوابی ٹیرف لگادیا تو ٹرمپ کو پسپا ہوکر ٹیرف ۱۴۵؍فیصد سے گھٹا کر۳۰؍فیصد کرنا پڑا۔ چین ایک عالمی طاقت ہے ٹرمپ کے سامنے اس کا ڈٹ کر کھڑے رہنا سمجھ میں  آتا ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ برازیل جیسے ملک نے بھی امریکہ کے سامنے خودسپردگی نہیں  کی۔برازیل کے سابق صدر Bolsonaro ٹرمپ کے جگری دوست ہیں ۔ ۲۰۲۲ء میں  لولا سے الیکشن ہارجانے کے بعد انہوں  نے بھی ٹرمپ کی تقلید کرتے ہوئے بغاوت کی کوشش کی۔ بولسونارو گرفتار ہوگئے اور ان پر بغاوت اور لولا کے قتل کی سازش کا مقدمہ چل رہا ہے۔ برہم ٹرمپ نے برازیل پر انتقامی کاروائی کرتے ہوئے ۵۰؍ فیصد محصول لگادیا لیکن صدر لولا نے ٹرمپ کی دھمکی کو ’’بلیک میل‘‘قرار دے کر مسترد کردیا۔ لولا نے صاف صاف کہ دیاکہ ’’کوئی غیر ملکی شخص ان کو آرڈر نہیں  دے سکتا ۔‘‘ ٹرمپ کی داداگیری کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بجائے نئی دہلی کو بھی ان کی آنکھوں  میں  آنکھیں  ڈال کر یہ کہنا چاہئے کہ ہندوستان کی اسٹریٹیجک خودمختاری میں  کوئی مداخلت قابل قبول نہیں  ہے۔ جو شخص جو زبان سمجھتا ہو اس کے ساتھ اسی زبان میں  بات کرنے کی ضرورت ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK