’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
EPAPER
Updated: November 27, 2024, 1:39 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai
’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
اس کی امید کی جاسکتی ہے
سپریم کورٹ کا آرڈر اصل میں آخری ہوتا ہے کیونکہ یہ ملک کی اعلیٰ عدالتی اتھاریٹی ہے۔ جب سپریم کورٹ کسی کیس کا فیصلہ سناتا ہے تو یہ فیصلہ سب پر لازم ہوتا ہے اور اس کی تبدیلی یا اپیل نہیں کی جا سکتی۔ اس کا مقصد انصاف اور قانون کی بالادستی کو یقین دلانا ہوتا ہے۔ اکثر، سپریم کورٹ کے آرڈرز سے کسی بھی مسئلے کا حل نکلتا ہے، اور یہ فیصلے سماجی، سیاسی، یا معاشی مسائل پر اثر ڈالتے ہیں ۔ یوگی بابا جو ایک بڑی ریاست کے وزیر اعلیٰ ہیں وہ اپنی پوزیشن کا غلط استعمال کر کے اس کا حل نکالنے کی سوچ رہے ہیں۔ وہ بلڈوزر بابا بن چکے ہیں۔ وہ اپنے دم پر فوری اور آمرانہ فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے ’بلڈوزر سیاست ‘ شروع کی ہےجو سراسر انتقامی اقدام ہے میں امید کر سکتا ہوں سپریم کورٹ کے حکم کے بعد کوئی قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لے گا حالانکہ یوگی جیسی حکومت سے اس کی توقع کم ہے۔
امیر غفار خان (رائچور، کرناٹک )
فیصلہ قانون کی بالا دستی کی یاددہانی ہے
سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد بلڈوزر کارروائیوں پر پابندی کا معاملہ سماجی اور قانونی سطح پر توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ بلڈوزر کارروائیاں عام طور پر غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کے خلاف کی جاتی ہیں، مگر ان کے استعمال پر تنقید بھی ہوتی رہی ہے کہ یہ بعض اوقات قانونی عمل کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ نہ صرف قانونی دائرہ کار کی وضاحت کرتا ہے بلکہ ان کارروائیوں میں شفافیت اور بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنانے کی بھی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ یہ فیصلہ ان حلقوں کیلئے امید کی کرن ثابت ہو سکتا ہے جو بلڈوزر کارروائیوں کو اکثر ظالمانہ اور غیر منصفانہ سمجھتے ہیں۔ فیصلے کے مطابق، کوئی بھی بلڈوزر کارروائی بغیر مناسب نوٹس اور قانونی عمل کے نہیں کی جا سکتی۔ عدالت نے اس بات پر بھی زور دیا کہ حکومت ان افراد کو معاوضہ دے جن کی جائیدادیں غیر منصفانہ طریقے سے مسمار کی گئی ہیں۔ اس سے نہ صرف حکومتی عملداری میں شفافیت پیدا ہوگی بلکہ عام شہریوں کو یہ احساس ہوگا کہ ان کے حقوق محفوظ ہیں۔ تاہم، سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کیا کہ غیر قانونی تعمیرات کے خاتمے کی ضرورت اپنی جگہ اہم ہے، مگر اس عمل کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے انجام دینا ہوگا۔
اس فیصلے کے بعد امید کی جا سکتی ہے کہ بلڈوزر کارروائیوں میں کمی آئے گی اور حکومت اپنے عمل میں زیادہ احتیاط اور قانون کی پاسداری کرے گی۔ یہ فیصلہ ایک یاد دہانی ہے کہ قانون کی بالادستی ہر صورت میں مقدم ہے اور کسی بھی اقدام کو عوامی مفاد کے تحت انجام دینا ضروری ہے۔ اگر اس فیصلے کو عملی طور پر نافذ کیا گیا تو یہ عوام اور حکومت کے درمیان اعتماد کی فضا بحال کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
حکیم نسیم احمد نظامی(رامپورہ، سورت، گجرات)
حکم نہ ماننے والے توہین عدالت کے مرتکب ہوں گے
ملک کی کئی ریاستی حکومتیں بلڈوزر راج کے ذریعے کھلی قانون شکنی پر اتر آئی ہیں۔ اترپردیش سے شروع ہونے والی بلڈوزر کارروائی مدھیہ پردیش، راجستھان، ہریانہ، اتراکھنڈ، دہلی اور آسام سے ہوتے ہوئے مہاراشٹر تک پہنچ گئی ہے۔ اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ نے متعدد مرتبہ ریاستی حکومتوں کو ان کے اس عمل کو غير آئینی قرار دیتے ہوئے تنبیہ کی، مگر بلڈوزر کارروائی جاری رہی۔ حیرت انگیز طور پر میڈیا کے ایک مخصوص طبقے کے ذریعے اسے ’بلڈوزر انصاف‘ کا نام دیا گیا۔ حتىٰ کہ شمالی ہند کےکئی چینلوں کے اینکر بلڈوزر پر بیٹھ کر رپورٹنگ کرنے لگے۔ ایک بار پھر سپریم کورٹ نے بلڈوزر کارروائیوں کو غير قانونی قرار دیتے ہوئے ملک گیر سطح پر کچھ سخت رہنما خطوط جاری کئے ہیں۔ اب سوال یہ ہےکہ اس فیصلے کے بعد کیا بلڈوزر کارروائیوں پر روک لگ جائے گی؟ بلا شبہ ` بلڈوزر بابا کی فہرست میں اول مقام حاصل کرنے کی ذہنیت آئینی بالادستی کو تسلیم کرنے والی نہیں، جب تک کہ انہیں توہین عدالت کی پاداش میں کیفرکردار تک نہ پہنچایا جائے۔
افتخار احمد اعظمی(سابق مدیر ` ضیاء، مسلم یونیورسٹی، علیگڑھ)
فیصلہ اور حکم صرف کاغذ پر نہ رہ جائے
الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے علاوہ سپریم کورٹ اور اس کے دیگر جج بی جے پی اور ان کے سربراہوں کے آگےقدرے خائف اور ڈرے ہوئے نظرآتے ہیں ۔ کٹھ پتلی والی بات انہی پر صادق آتی ہے۔ الیکشن کمیشن ان کے سامنے اندھے، بہرے اور گونگے بن جاتے ہیں۔ حکمراں جماعت کے لیڈروں کی بڑی غلطیوں کو الیکشن کمیشن نظر انداز کرتا ہے جبکہ اپوزیشن کی معمولی غلطیوں کو قانونی گرفت میں لیتا ہے حالانکہ دونوں ادارے سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن خود مختار اورآزاد ہیں۔ انہیں کسی کے دباؤ میں کام نہیں کرنا چاہئے۔ الیکشن میں گڑبڑی، دھاندلی، بے ایمانی اور ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑکی سیکڑوں شکایات کے باوجود الیکشن کمیشن چپی سادھے ہوئے ہے۔ بلڈوزر انصاف نے عام تاثر یہ دیا ہے کہ اب ملک میں عدالت اور انصاف کرنے والے ججوں کی ضرورت نہیں ، عدالتوں کو مقفل کر دینا چاہئے۔ اس لیے بھی بلڈوزر انصاف کی مقبولیت میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ یہ یو پی سے نکل کر مدھیہ پردیش، ہریانہ، گجرات، دہلی اور جھارکھنڈ تک پہنچ گیا ہے۔ اس میدان میں اتر پردیش سر فہرست ہے جہاں ۱۵۳۵؍بلڈوزرکارروائیاں ہوئی ہیں ، مدھیہ پردیش دوسرے نمبر پر ہے جہاں ۲۵۹؍کارروائیاں ہوئی ہیں، تیسرے نمبر پر ہریا نہ ہے جہاں بلڈوزر کارروائی کے ۶۴؍ معاملات ہوئے ہیں ، چوتھے نمبر پرگجرات جہاں بلڈوزر کارروائی ۵۵؍ مرتبہ کی گئی ہے۔ راجستھان اور دہلی میں دس دس مرتبہ اور جھارکھنڈ میں بلڈوزر سے غیر قا نونی انہدام کے ۲؍ معاملات سامنے آئے ہیں ۔ اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جنہوں نےخود کو بلڈوزر بابا کہلوانا پسند کیا، ان کے دور میں ۲؍ ہزارملزمین کے خلاف بلڈوزر کارروائی انجام دیتے ہوئے ۱۵۳۵؍ سے زائد مکانات اور دکانوں کو منہدم کردیا گیا۔
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں اک گھر بنانے میں /تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں
سپریم کورٹ نے نہ صرف غیر قانونی تعمیرات کے خلاف بلکہ ایک مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بنانے کے رویے پر بھی سخت اعتراض کیا ہے۔ یاد رہے کے بلڈوزر کارروائیوں میں نشانے پرمسلمانوں کے آشیانے اور دکانیں ہی رہی ہیں ۔ حالانکہ عدالت نے اس نکتے کو واضح کیا ہے کہ جو اہلکار عدالتی فرمان کے خلاف ورزی میں ملوث پائے گئے ان کو اپنے خرچ سے مسمار کی گئی عمارت کو تعمیر کرنا ہوگا۔ دوسرے عدالت نے ریاستی حکومتوں کی من مانی کارروائی کی نشاندہی کرتے ہوئے مزید کہا کہ کسی بھی جائیداد کی مسماری سے قبل نوٹس دینا ضروری ہوگا۔ یہ تمام باتیں صرف کاغذ پر ہیں۔ سپریم کورٹ کو اس پربھی نظر رکھنی چاہئے کہ اس کے حکم کی تعمیل اور پاسداری کی جارہی ہے یا نہیں ۔
انصاری محمد صادق (حسنہ عبدالملک مدعو وومینس ڈگری کالج، کلیان)
سپریم کورٹ کا سخت ایکشن قابل تعریف ہے
پُرانے زمانے میں کسی خاندان کا کوئی فرد اگر کوئی جرم کرتا تو متوازی یا مساوی انصاف نظام کے تحت پورے خاندان کو سزا دی جاتی تھی۔ اسی نظام انصاف کو شاید یوگی آتیہ ناتھ چلا کر ہندوستان کو عہد قدیم میں لے جانا چاہتے تھے۔ جب کئی انصاف پسند اور باشعور ہم وطنوں نے اس بلڈوزر انصاف کی سخت مذمت کی اور پوچھا کہ اس پر عدالتیں کیوں خاموش ہیں ؟تب کہیں جاکر سپریم کورٹ نے انصاف پسند ہم وطنوں کے اعتراضات کا نوٹس لیا ہے۔ سپریم کورٹ کا سخت ایکشن قابل تعریف ہے۔ سپریم کورٹ نے اختیارات کے ناجائز استعمال سے بے لگام ہوئے `بلڈوزر راج ` کو غیر آئینی قرار د یا ہے اور سخت احکامات دئیے ہیں۔ کسی معاملے میں ملزم کے گھر پر بلڈوزر چلانےکوسراسر زیادتی قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ یہ کون سا انصاف ہے جوکسی شخص کو کسی جرم میں گرفتار کرنے کے چند گھنٹوں کے اندر اندر اس کے گھر کو غیر قانونی قرار دے کر بلڈوزر کارروائی انجام دی جارہی اور کارروائی اقلیتی فرقے کے خلاف ہوئی ہیں۔ یہ فیصلہ انصاف کے بنیادی تقاضوں سے ہم آہنگ اور خوش آئند ہے۔
ش شکیل (اورنگ آباد)
کارروائیوں پر روک کی امید جاسکتی ہے
یہ فیصلہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نےسنایا ہے۔ عدالت نےان کارروائیوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے فوری طور پر روکنے کا حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ ملک کا اعلیٰ ترین قانونی حکم ہوتا ہے،لہٰذا تمام اداروں کیلئے اس پر عمل کرنا لازمی ہوگا۔ ایسے میں کارروائیوں کے رکنے کی امید کی جاسکتی ہے۔ ویسے اگر حکومت یا متعلقہ ادارے حکم کی تعمیل نہ کریں تو ان کے خلاف توہین عدالت کے نوٹس بھی جاری کئے جاسکتے ہیں،اسی طرح عوام اور متاثرین خود بھی دوبارہ سے عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں۔بہرحال بلڈوزر کاروائیوں کے خلاف سپریم کورٹ نے انصاف پسند ہم وطنوں کے اعتراضات کا نوٹس لے کر اچھا پیغام دیا ہے اور حکومت کی لاقانونیت کو ختم کرنے کا اشارہ دیا ہے۔
مومن فیاض احمد غلام مصطفیٰ (بھیونڈی)
ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا
ملک کے موجودہ سیاسی حالات میں اس بات کی امید کم ہی ہے۔ حکومت ہر فیصلے کا ’توڑ‘ نکال لیتی ہے۔ نئے چیف جسٹس اس حکومت سے کیسے نمٹیں گے، ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ فی الحال ہمارے پاس ان پر بھروسہ کرنے کے علاوہ اور کوئی متبادل نہیں ہے۔ ویسے بھی موجودہ حکومت کا رویہ عدالتوں سے ٹکرانے اور اس کے فیصلوں کوپارلیمنٹ کے ذریعہ بدلنے والا بھی ہے۔ وہ سپریم کورٹ کے کئی فیصلے اسی طرح بدل چکی ہے اور افسوس کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت اس پر خاموش ہی رہی ہے۔ حکومت کے رویے پر نظر رکھنے کیلئے اپوزیشن تو خیر ہے لیکن وہ اتنی طاقتور نہیں ہے کہ اس کے فیصلوں کو رُکوا سکے۔ گزشتہ ۱۰؍ برسوں میں ہم نے یہی دیکھا ہے کہ یہ لوگ سازشیں کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔
مرتضیٰ خان( نیا نگر، میرا روڈ، تھانے)
عدالت عظمیٰ کو مسلسل نگاہ رکھنا ہوگا
بلڈوزر کے ذریعہ گھروں کی مسماری ان لوگوں کے حکم پر کیا جا رہا تھا،جو آئین کے تحفظ کا حلف لےکر آئینی عہدوں پر بیٹھے ہیں۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں،سماجی تنظیمیں اور عدالتیں اس دوران خاموش تماشائی بنی رہیں جبکہ ان تمام اداروں کو اس ظالمانہ کارروائی کے خلاف آواز اٹھانا چا ہئے تھا۔سپریم کورٹ نے تاخیر سے ہی سہی لیکن انصاف پر مبنی فیصلہ سنایا ہے جس سے امید تو بندھی ہے۔ حالانکہ یہ بھی درست ہے کہ آج کا حکمراں طبقہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ ایسے میں عدالت عظمیٰ کا امتحان یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ وہ خود ان کارروائیوں پر نگاہ رکھے اور رہنمایانہ خطوط کی خلاف ورزی کرنے والوں پر سخت کارروائی کرےورنہ ان سے آئین کی پاسداری کی امید کم ہی ہے ۔
سعید الرحمان محمد رفیق(گرین پارک روڈ،شیل تھانے)
اقلیتوں کے حقوق کیلئے سرکارسے خطرہ
سپریم کورٹ کے فیصلے سے عارضی ریلیف تو ملتا ہے لیکن اتھارٹیز کی طرف سےاس فیصلے کیخلاف بھی جانے کی کوشش کی جا سکتی ہے، اسلئے احتیاط کاتقاضا ہے۔ اقلیتی حقوق کے تحفظ اور انصاف کیلئے اجتماعی کوششیں ضروری ہیں۔بلڈوزر ایکشن کو مستقل طور پر روکنے کیلئےمسلسل عوامی دباؤ ضروری ہے لہٰذا ان نکات پرکام ہونا چاہئے:
حقوق سے آگاہی:
ایسے مہمات جو لوگوں کو بلڈوزر ایکشن کے بارے میں آگاہ کریں اور ان کے حقوق کیلئے آواز اٹھائیں۔
عوام کے حقوق کا پابندی سے جائزہ لینا:
اس بات کو یقینی بنایاجا نا چاہئے کہ حکام سپریم کورٹ کے فیصلے کی پابندی کریں اور بلڈوزر ایکشن کو فوری طورپر روک دیں۔
جاوید رحمان خان (پتہ نہیں لکھا)
فیصلے سے عدلیہ کے تئیں عوام کا اعتماد بحال ہوا ہے
سپریم کورٹ نے بلڈوزر کارروائی کے خلاف فیصلہ سناکر عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو بحال کیا ہے اور مظلوموں کی داد رسی کی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ گھر، ہر شہری کی بنیادی ضرورت ہے ، کسی افسر کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ بغیر کسی قانونی نوٹس کے کسی کے گھر کو مسمار کردے ۔اگر کسی نے غیر قانونی عمارت تعمیر کی ہے تو اس کیلئےبھی قانون ہے کہ اس کیلئے پہلے نوٹس جاری کیا جائے۔گھر بنانے میں انسان زندگی بھر محنت کرتا ہے ، جس طرح چڑیا اپنا گھونسلا بنانے کیلئے تنکا تنکا جمع کرتی ہے، اسی طرح ایک انسان بھی اپنی زندگی بھر کی کمائی کو اکٹھا کرتا ہے تب جاکر اس کا گھر تعمیر ہوتا ہے۔اس گھر کو منٹوں میں زمیں بوس کردینا ظلم ہے۔اس کارروائی پر روک لگاکر عدالت نےاچھا قدم اٹھایا ہے۔
لوگ ٹوٹ جاتےہیں ایک گھر بنانے میں : تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں
بلڈوزر کاروائی پر اگر سپریم کورٹ روک نہ لگاتی تو یہ ظلم بڑھتا ہی جاتا کیونکہ اترپردیش کی یوگی حکومت سے شروع ہونے والا یہ ظلم کئی صوبوں تک پہنچ گیا تھا۔ایسی صورت میں کورٹ اورقانون کا کوئی معنی نہیں رہ جاتا ہے۔ جب حکومت ہی کو فیصلہ کرنا ہے تو کورٹ اور جج کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ ہمارے ملک کے قانون نے ہر ایک ملزم کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ کورٹ میں اپنا دفاع کرے ۔بغیر کورٹ کے فیصلہ کے کسی کو سزا دینے کا اختیار نہیں ہے، اسی قانون کی بنیاد پر اجمل قصاب جیسے مجرم کو بھی فوراً سزا نہیں دی گئی تھی بلکہ کورٹ کے فیصلہ کے بعد ہی اسے پھانسی دی گئی تھی۔
ابو حماد صلاح الدین سنابلی( کرلا، ویسٹ، ممبئی)
مخالفین پر بلڈوزرکا استعمال جاری رہ سکتا ہے
جمہوری ملک میں شخصی آزادی بُنیادی اہمیت کی حامل ہے۔شہریوں کو اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ ہی اپنے دستور پر عمل کا حق میسر ہےمگر آج کئی ریاستوں کے حکمراں دستور سے زیادہ اپنے نظریات کے مطابق حکومت کرناچاہتے ہیں۔شہریوں کے اِس بنیادی حق کے تحفّظ کی ذمہ داری مقننہ،عدلیہ،عاملہ اور میڈیاکی ہے لیکن افسوس بیشتر اپنی ذمہ داریوں سے بھاگ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یوپی میں جس’ بلڈوزر راج‘ کا تجربہ کیا گیا، اس کااستعمال اب راجستھان، دہلی، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر تک میں ہورہا ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی یہ ’راج‘ ختم ہونے والا نہیں ہے ۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہاگیاہےکہ عوامی جگہ، ریلوے کی ملکیت یااجتماعی مفاد عامہ کیلئے محفوظ جگہوں پراِس فیصلے کا اطلاق نہیں ہوگا۔ ایسے میں دیکھا جائے توبلڈوزر کارروائی کی اجازت سپریم کورٹ کے اسی فیصلے میں چھپی ہوئی ہے۔اسلئے ریاستی حکومتیں اپنے مخالفین کو خاموش کرنے کیلئے بلڈوزرکا استعمال جاری رکھ سکتی ہیں۔
اسماعیل سلیمان (کرہاڈ خرد تحصیل پا چورہ ، جلگاؤں)
سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام ضروری ہے
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بلڈوزر کی کارروائی رک جانی چاہئے۔اگر اس فیصلے کے بعد بھی کارروائی نہیں رکتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ملک میں قانون نام کی كوئی چیز نہیں۔سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرنا ضروری ہے ۔ ملک میںسپریم کورٹ کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوتا ہے، ایسے میںاگر اس فیصلے پرعمل نہیں ہوا تو اسے جمہوریت کا قتل سمجھا جائیگا۔’بلڈوزر راج‘کی حمایت کسی صورت میں نہیں ہونی چاہئے۔ یہ ایک طرح سے ’غنڈہ راج ‘ کے مصداق ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ سیاسی جماعتیں اور ریاستی حکومتیں ملک کی عدالتوں کے فیصلے پرکس حد تک عمل کرتی ہیں؟ ان میں قانون کا ڈر باقی ہے یا آئین کے احترام کی طرح ان کے دلوں سے وہ خوف بھی ختم ہوچکا ہے؟
شیخ عبدالموحد عبدالرؤف (مہاپولی ،بھیونڈی)
انتظامیہ کو اس فیصلے پرعمل کرنا ہی چاہئے
بلڈوزر معاملے پر سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا ہے کہ صرف ملزم ہونے کی بنیاد پر کسی کا گھر گرانا مناسب نہیں۔ کسی ایک فرد کی غلطی کی سزا اس کے پورے گھر والوں کو دینا آئین کے خلاف ہے۔ اگر کوئی گنہگار ہے بھی تو اسے اس کے جرم کی سزا اس طرح نہیں دی جاسکتی کہ اس کا گھر ہی منہدم کردیا جائے۔کسی کے جرم کی سزا قانون کے مطابق ہونی چاہئےاور اس کی سزا اس کے اہل خانہ کو تو قطعی نہیں ملنی چاہئے۔ ایسے میں ریاستی حکومتوں کو چاہئے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو قبول کریں اور ماضی قریب میں جتنے بھی گھروں کو بلڈوز کیا گیا ہے، اس کا ہرجانہ ادا کریں۔ اگر حکومتوں نے اس فیصلے پرعمل کیا تو ملک میں نہ صرف قانون کا بول بالا ہوگا بلکہ حکومتوں کی بھی تعریف ہوگی کہ اس نے عدالت کے فیصلے کے بعد اپنے فیصلوں کو واپس لیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بات بھی واضح کردی ہے کہ کسی عمارت کی مسماری صرف اسی صورت میں ممکن ہوسکتی ہے جب وہ پوری طرح سے غیر قانونی ہو۔ لیکن افسوس کہ حکومتوں کا رویہ اس فیصلے کو قبول کرتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ ملک میں آئین و دستور کی حکمرانی کا خواب دیکھنے والوں کیلئے یہ رویہ پریشان کن ہے۔ ان حالات میں عوام کی ذمہ داری ہے کہ اگر کہیں بھی عدالت کی حکم عدولی ہوتا ہوا دیکھیں تو فوری طور پر قانون کی مدد کریں۔
غلام جیلانی( دارالعلوم قمر علی درویش، کیمپ، پونے)
لگتا تو نہیں..... شاید
جب سے ’بلڈوزر انصاف‘ کو بی جے پی والی ریاستوں نے اپنایا ہے، تب سے عام لوگوں کا یہی کہنا ہے کہ مودی کے ہندوستان میں عدالتوں کو ختم کردینا چاہئے اور تمام ججوںکوسبکدوش کرکے گھر بٹھا دینا چاہئے کیونکہ اب کچھ ریاستیں مسولینی اور ہٹلر کی راہ پر چل پڑی ہیں۔ ان ریاستوں نے لاقانونیت کو اپنا شیوہ بنالیا ہے اور کھلم کھلا فرقہ پرستی اور عصبیت پر اُترآئی ہیں ۔ ان بلڈوزر پرستوں کو شاید اس بات کا علم نہیں کہ لوگ ایک گھر بنانے میں ٹوٹ جاتے ہیں لیکن انہیں بلڈوزر چلانے میں مزہ آتا ہے کیونکہ اس میں ایک مخصوص طبقے کانقصان ہوتا ہے۔ نفرت کے ان پجاریوں کو شاید علم نہیں کہ یہ جمہوری ہندوستان ہے جس میں ملزم کو مجرم گرداننے کا حق صرف اور صرف کورٹ کو ہے ناکہ نفرت کے ان سوداگروں کو ۔ وہ تو اچھا ہوا کہ سپریم کورٹ نے سختی سے بلڈوز کلچر پر بریک لگا دیا ہے لیکن ہٹ دھرمی پر آمادہ انسانیت کے دشمنوں کو اس فیصلے میں بھی کوئی نکتہ مل جائے گا جس کی مدد سے وہ بلڈوزر کاررائی کو جاری رکھنے کی کوشش کریں گے۔ ویسے سپریم کورٹ کا فیصلہ قابل صدستائش ہے اور فطری تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔
محمد یعقوب ایوبی ( موتی پورہ ، مالیگاؤں)
کورٹ کے فیصلوں پر سختی سے عمل ہونا چاہئے
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بلڈوزر کا رروائیوں پر روک لگنی چاہئے۔اسی کے ساتھ ہی یہ بھی نہایت ضروری ہے کہ اگر کسی محکمے کا کوئی افسر کورٹ کے’اسٹے‘ کا احترام نہ کرے اور عدالتی اسٹے کے باوجود کسی اسٹرکچر کو توڑنے کی کارروائی انجام دے، تو اس آفیسر کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہئے۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ جو شخص متعلقہ محکمے کے آفیسر کو اعتماد میں لے کر کوئی غیر قانونی کام کرتا ہے تواس کے غیر قانونی کام کی حفاظت ہوجاتی ہے لیکن اس نےمتعلقہ آفیسر کو اعتماد میں لئے بغیر کوئی غیر قانونی کام کیا ہے تو اس کے خلاف فوراً ایکشن لیا جاتا ہے۔ دراصل ہمارے قوانین میں کافی جھول ہیں جن کا وہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جس شخص کو قانون کی مدد ملنی چاہئے وہ متعلقہ محکمہ کی سختی کا شکار ہوجاتا ہے اورکافی نقصان اٹھاتا ہے۔ایسے میں اگر کوئی افسر کورٹ کے آرڈر کے باوجود کارروائی کرتا ہے (خواہ وہ کسی بھی وجہ سے ہو) تو اس کے خلاف آئی پی سی کے تحت سخت کارروائی ہونی چاہئے۔ اگر افسران کو حکم عدولی کی سزا ملنے لگے گی تو کورٹ کے فیصلوں پر سختی سے عمل ہوگا۔
پرنسپل محمد سہیل لوکھنڈوالا ( سابق ایم ایل اے)
انانیت کا اظہار جاری بھی رہ سکتا ہے
حالیہ کچھ برسوں سے یوگی حکومت دھرم کے نام پر اقلیتوں کو جس طرح سے نقصان پہنچانے کے فارمولے پرعمل کررہی ہے، وہ انتہائی قابلِ مذمّت ہے۔آئین کو بالائے طاق رکھ کر حکمرانوں کا خود ہی جج بن جانے کا رجحان اترپردیش سے باہر دیگر ریاستوں میں بھی دیکھا جانے لگا ہے۔ معاملہ اس حد تک آگے بڑھ گیا کہ سپریم کورٹ کو خود آگے آنا پڑا اور مذکورہ ریاستوں کی مشقیں کسنی پڑیں۔ عدالت عظمیٰ کو سخت الفاظ کا استعمال کرنے پر مجبور ہونا پڑااوریوگی کے ساتھ ہی اُس قبیل کے دیگر نیتاؤں کو بھی اُن کی صحیح اوقات بتانی پڑی۔اس فیصلے کی وجہ سے سے لوگوں کو وقتی راحت ملتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔اس کے ساتھ ہی اس بات کا خدشہ بھی ہے کہ ہٹلرصفت لیڈران غریب عوام کو قابو میں رکھنے کیلئے بلڈوزر کے ذریعے اپنی انانیت کا اظہار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔
محمد سلمان شیخ (امانی شاہ تکیہ،بھیونڈی)
بلڈوزر کارروائی رک جائے گی، لگتا تو نہیں ہے
یہ بات واضح ہے کہ بلڈوزر کارروائی ہوتی ہی ہے بدلہ لینے کیلئے اور سبق سکھانے کیلئے خاص کر جب اس کی زد پر کوئی مسلمان ہو۔ یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ جن عمارتوں پر بلڈوزر چلایا جاتا ہے وہ پہلے سے کہیں نہ کہیں غیر قانونی تعمیرات کے زمرے میں موجود ہوتی ہیں ۔ گرام پنچایت ، میونسپلٹی اور میونسپل کارپوریشن کے ریکارڈبک میں ان غیر قانونی تعمیرات کو قانونی خانہ پری کرنے کے نام پر توڑے جانے کے نوٹس جاری کئے گئے ہیں،ایسا بتایا جاتا ہے ۔ یہ بھی سچ ہے کہ ایسی بیشتر عمارتیں افسران کی ملی بھگت اور لین دین کی بنیاد پر تعمیر ہوئی ہوتی ہیں ۔ اس لئے جب بھی کوئی قانونی پیچیدگی پیدا ہوتی ہے یا سبق سکھانا ہو یا سیاسی بدلہ لینا ہو اُس وقت یہی افسران ریکارڈبک میں موجود پرانی نوٹس کے جاری کئے جانے کا حوالہ دے کر ایکشن موڈ میں آجاتے ہیں اور اپنے سیاسی آقاؤں کے فرمان کے آگے سر نگوں ہوتے ہوئے آناً فاناً پرانی رکی ہوئی بلڈوزر کارروائی شروع کر دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے غیر قانونی بلڈوزر کارروائی پر روک لگانے کی بات کی ہے مگر غیر قانونی تعمیرات کو توڑنے پر روک نہیں لگائی ہے۔ اس لئے نہیں لگتا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد بھی بلڈوزر کارروائی پر کوئی روک لگے گی۔
ایڈوکیٹ سلیم یوسف شیخ (بھیونڈی)
قارئین کو حالات حاضرہ سے باخبر رکھنے کیلئے خبروں کے ساتھ خبروں کی تہہ میں جانا انقلاب کا خاصہ رہا ہے۔ اس کیلئے ہم مختلف سیاسی اور سماجی موضوعات پر ماہرین کی رائے اور تجزیاتی مضامین بھی پیش کرتے ہیں۔ کچھ ہفتوں سے قارئین کیلئے ایک سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس میں ہر ہفتے ایک موضوع دیا جارہا ہے۔ اس موضوع پر موصول ہونے والی آپ کی تحریریں ( آپ کی تصویر کے ساتھ) سنڈے میگزین میں شائع کی جارہی ہیں:
اس ہفتے کا عنوان
گزشتہ دنوں مہاراشٹرکے انتخابی نتائج نے سبھی کو حیران کردیا۔جس طرح کے نتائج سامنے آئے ہیں، کہا جاتا ہے کہ اس کی امید بی جے پی اوراس کی اتحادیوں کو بھی نہیں تھی۔اسی پس منظر میں اس بار سوال طے کیا گیا ہے کہ:
مہاراشٹر کے نتائج کو آپ کس طرح سے دیکھتے ہیں؟
اس موضوع پر آپ دو تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے وہاٹس ایپ نمبر (8850489134) پر جمعرات کو شام ۸؍ بجے تک بھیج دیں۔ منتخب تحریریں ان شاء اللہ اتوار (یکم دسمبر) کے شمارے میں شائع کی جائیں گی۔
نوٹ: مضمون مختصر اور جامع ہو اور موضوع پر ہو۔ اس موضوع پر موصولبقیہ آرا کل کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں۔ (ادارہ)