Inquilab Logo

کیا واقعتاً تلنگانہ کے اقتدار کی کلید اس بارمسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے؟

Updated: November 19, 2023, 4:17 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

ملک کی پانچ ریاستوں میں سے تین ریاستوں میزورم، چھتیس گڑھ اورمدھیہ پردیش میں پولنگ ہوچکی ہے۔ ۲۵؍ نومبر کو راجستھان اور۳۰؍ نومبر کو تلنگانہ میں ووٹنگ ہوگی جبکہ تمام ریاستوں کے انتخابی نتائج ایک ساتھ ۳؍ دسمبر کو ظاہر ہوں گے۔

In one of Rahul Gandhi`s election rallies held in Telangana, one can see the excitement of the people, this is the situation in all his rallies. Photo: INN
تلنگانہ میں منعقدہ راہل گاندھی کی ایک انتخابی ریلی میں عوام کا اژدہام دیکھا جاسکتا ہے، ان کی تمام ریلیوں میں یہی کیفیت ہوتی ہے۔ تصویر : آئی این این

ملک کی پانچ ریاستوں میں سے تین ریاستوں میزورم، چھتیس گڑھ اورمدھیہ پردیش میں پولنگ ہوچکی ہے۔ ۲۵؍ نومبر کو راجستھان اور۳۰؍ نومبر کو تلنگانہ میں ووٹنگ ہوگی جبکہ تمام ریاستوں کے انتخابی نتائج ایک ساتھ ۳؍ دسمبر کو ظاہر ہوں گے۔ ان تمام ریاستوں میں سب سےکم توجہ میزورم کو اور اس کے بعد تلنگانہ کو ملی، حالانکہ اس مرتبہ جنوبی ریاست تلنگانہ سے کچھ اُلٹ پھیر کی بھی امید کی جارہی ہے۔ 
 تلنگانہ میں انتخابی عمل شروع ہونےکے بعد اول دن سے کانگریس ریاست میں اقتدار کی تبدیلی اور اپنی جیت کا دعویٰ کرتی رہی ہے لیکن اسے بحث کا موضوع خود حکمراں جماعت بی آر ایس (بھارت راشٹرسمیتی) کے سربراہ اور تلنگانہ کے وزیراعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ (کے سی آر) نے بنایا ہے۔ انہوں نے یہ کہہ کر کہ ’’اگر کانگریس ریاست میں برسر اقتدار آئی تو یہاں کی ساری فلاحی اسکیمیں بند کردے گی‘‘ کانگریس کو ایک موضوع دے دیا ہے۔ کانگریس کی طرف سے وزیراعلیٰ کے اس بیان کو بی آر ایس کی شکست کے ا عتراف کے طور پر مشتہر کیا جارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے قبل بی آر ایس واضح اکثریت کے ساتھ اقتدار میں واپس آنے کی بات کہتی رہی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا جب انہوں نے ’اگر‘ کے ساتھ کانگریس کے اقتدا ر میں آنے کی بات قبول کی ہے۔ تلنگانہ کے تعلق سے اب تک کئی انتخابی جائزے سامنے آچکے ہیں اور ان تمام جائزوں میں کافی تضاد ہے۔ کسی میں بی آر ایس کو تو کسی میں کانگریس کو آگے بتایا جارہا ہے لیکن تمام جائزے اس بات پر اتفاق کررہے ہیں کہ بی آر ایس اور کانگریس کے درمیان مقابلہ سخت ہے جبکہ بی جے پی مقابلے سے باہر ہے۔معلق اسمبلی کا بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ریاست میں آئندہ بی جے پی کی مدد سے بھی حکومت بن سکتی ہے۔ ریاست کیلئے یہ بھی ایک بڑا اُلٹ پھیر ہوگا۔ 
  تلنگانہ کے تعلق سے ایک اور بات سامنے آرہی ہے۔ اس مرتبہ ریاست کے۱۳؍ فیصدمسلمانوں کو بادشاہ گر کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ ریاست کی ۱۱۹؍ سیٹوں میں ۴۰؍ سے ۴۵؍ اسمبلی سیٹوں پرمسلم رائے دہندگان کے واضح اثرات ہیں ۔ اسی وجہ سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ اس بار تلنگانہ کے اقتدار کی کلید ریاستی مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ کیا واقعتاً ایسا ہے؟ کیا مسلم ووٹوں کی اہمیت ایک بار پھر محسوس کی جانے لگی ہے؟ کیا تلنگانہ کے مسلمانوں نے ایسا کوئی اشارہ دیا ہے اور اس اشارے کو سیاسی جماعتوں نے سمجھا ہے؟ اگر ایسا ہے تو قومی سیاست میں سیاسی بیانئے سے پوری طرح باہر کر دیئے گئے مسلمانوں کیلئے یہ بہت بڑی بات ہے۔
 ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے سے قبل آئیے تلنگانہ کی سیاسی صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ۲۰۱۴ء میں تلنگانہ ریاست کی تشکیل یا یوں کہیں کہ متحدہ آندھرا پردیش کی تقسیم کے بعد وہاں پر اسمبلی کے ۲؍ اور لوک سبھا کے ۲؍ انتخابات ہوچکے ہیں ۔ مذکورہ چاروں انتخابات میں ریاستی مسلمانوں نے کھل کر بی آر ایس (پہلے ٹی آر ایس)کی حمایت کی ہے۔مسلمانوں کی اسی حمایت کی بدولت ۱۱۹؍ رکنی اسمبلی کیلئے ۲۰۱۴ء کے الیکشن میں ’کے سی آر‘ کی پارٹی کو ۶۳؍ اور ۲۰۱۸ء میں ۸۸؍ نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔ اسی طرح ۱۷؍ پارلیمانی حلقوں میں ’کے سی آر‘ کو ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخابات میں بالترتیب ۱۱؍ اور ۹؍ سیٹیں ملی تھیں ۔ان چاروں انتخابات میں کانگریس کی کارکردگی بہت زیادہ خراب رہی تھی جبکہ اس سے قبل ریاست اور مرکز میں کانگریس ہی کی حکومت تھی۔۲۰۱۴ء کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو ۲۱؍ اور ۲۰۱۸ء میں محض ۱۹؍ سیٹیں ہی مل سکی تھیں ۔
  یہ اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ متحدہ آندھرا پردیش کی تقسیم کے بعد کانگریس دونوں ریاستوں میں اقتدار سے محروم ہوگئی ہے۔ حال ہی میں تلنگانہ کی تشکیل کا کریڈٹ لیتے ہوئے سونیا گاندھی نے اس بات کااعتراف بھی کیا کہ کانگریس نے اپنے اقتدار کی قیمت پر ریاست کی تقسیم کا فیصلہ کیا۔ اسی کے ساتھ انہوں نے اس تحریک میں اپنی جان گنوانے والوں کے اہل خانہ سے ہمدردی کااظہار کرتے ہوئے ان کیلئے کچھ بڑی مراعات کااعلان بھی کیا۔ یہ ایک بڑا اور جرأت مندانہ فیصلہ تھا ، اتنا بڑا کہ اس کی ہمت بی آر ایس بھی نہیں کرپائی جو خود کو اس تحریک کا چمپئن قرار دیتی ہے اور بی جے پی بھی نہیں جو ریاست کی تشکیل میں تاخیر کیلئے کانگریس کو پانی پی پی کر کوستی ہے۔ اس اعلان نے کانگریس کے حق میں چلنے والی ہوا کی اُس لہر کو تیز کردیا جو کرناٹک میں کانگریس کی جیت سے پیدا ہوئی تھی۔
 کرناٹک میں کانگریس کی واضح کامیابی کے تین بنیادی عوامل بتائے جارہے ہیں ۔ اول : عوام کیلئے کانگریس کی جانب سے دی گئی ضمانتیں ۔ دوم: حکومت مخالف رجحان اور سوم: مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر کانگریس کی طرف جھکاؤ۔ یہی تینوں عوامل تلنگانہ میں بھی کانگریس کیلئے راستہ ہموار کررہے ہیں ۔
کانگریس کی ضمانتیں 
 ۱)کانگریس نے تلنگانہ کے عوام سے وعدہ کیا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد پہلی ہی میٹنگ میں وہ اعلان کئے گئے ضمانتوں کے نفاذ کا راستہ ہموار کردے گی۔ اس کے تحت خواتین کو۲۵۰۰؍ روپےماہانہ وظیفہ دے گی۔ اس کے ساتھ ہی ۵۰۰؍ روپے میں گیس سلنڈر ملیں گے اور سرکاری بسوں میں خواتین کو مفت سفر کی اجازت ہوگی۔
 ۲)ان ضمانتوں میں کسانوں کیلئے بہت کچھ ہے۔ اس کے تحت کسانوں کو سالانہ ۱۵؍ ہزار روپے فی ایکڑ کے حساب سے مالی مدد دی جائے گی جبکہ کسان مزدوروں کو۱۲؍ ہزارروپے دیئے جائیں گے۔ اسی کے ساتھ ’رعیتو بھروسہ‘ اسکیم کے تحت دھان کیلئے فی کوئنٹل ۵۰۰؍ روپے دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
 ۳)کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں اعلان کیا ہے کہ اگر کانگریس اقتدار میں آئی تو ریاستی حکومت ہر خاندان کو ۲۰۰؍ یونٹ بجلی مفت فراہم کرے گی۔
 ۴) اُن لوگوں کو جن کے پاس اپنا گھر نہیں ہے، گھر کیلئے زمین کے ساتھ ۵؍ لاکھ روپوں کی مالی مدد بھی دی جائے گی اور تلنگانہ تحریک میں شامل رضاکاروں کو ۲۵۰؍ مربع گز کا مکان بھی دیا جائے گا۔ 
 ۵)ان ضمانتوں کے تحت طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کیلئے ۵؍ لاکھ روپے دینے کی بات کہی گئی ہے۔ یہ کارڈ کی صورت میں ہوگا جس کی مدد سے وہ اپنی تعلیمی ضروریات پوری کرسکیں گے۔
 ۶) اس کے علاوہ معمر شہریوں ، بیواؤں ، معذوروں ، تنہا رہنے والی خواتین، بنکروں اورگردے کی بیماری سے متاثر مریضوں کو ۴؍ ہزار روپے ماہانہ پنشن دینے کا بھی وعدہ کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ۱۰؍ لاکھ روپوں کا ہیلتھ انشورینش بھی دیا جائے گا۔

حکومت مخالف رجحان
حالانکہ بی آر ایس کی جانب سے جو عوامی اور فلاحی اسکیمیں چل رہی ہیں، وہ بھی بہت اچھی ہیں اور پسند کی جارہی ہیں۔ بالخصوص کسانوں اورلڑکیوں کی شادی کیلئے ان کے اہل خانہ کو دی جانے والی مدد کی تعریف ملک گیر سطح  پر ہورہی ہے.... لیکن۱۰؍ سال تک اقتدار میں رہنے کے بعد حکومت مخالف رجحان کا پیدا ہونا فطری ہے۔ اس کے علاوہ’کے سی آر‘ خاندان پر بدعنوانی کے جو الزامات عائد ہوئے ہیں، اس نے بھی عوام کو  بی آر ایس سے بدظن کیا ہے۔ 
کانگریس کی طرف مسلمانوں کا جھکاؤ
ریاست کی تشکیل کے ساتھ ہی مسلمانوں نے ’کے سی آر‘ کے تئیں اپنے اعتماد کا اظہار کردیا تھا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ اس میں کمی آتی جارہی ہے۔ تلنگانہ کے مسلمانوں کے اعتماد پر پہلی ضرب اُس وقت پڑی تھی جب پارلیمنٹ میں تین طلاق کا مسئلہ سامنے آیا تھا۔ کے سی آر کی پارٹی سے مسلمانوں کو اپنے لئے حمایت کی امید تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اسی طرح کرناٹک میں جب حجاب کا معاملہ سامنے آیا تو اُس وقت بھی ’کے سی آر‘ کی پارٹی نے مسلمانوں  کے جذبات سے ایک فاصلہ بنائے رکھا۔اس درمیان مسلمانوں نے کئی بار محسوس کیا کہ پارلیمنٹ میں بی جے پی کو جب جب ’کے سی آر‘ کی ضرورت پڑی ہے،  ان کے اراکین نے کبھی حاضر رہ کر اور کبھی غیر حاضر رہ کر بی جے پی کی مدد کی ہے۔ 
  اس کی وجہ سے مسلمانوں کا جھکاؤ کانگریس کی جانب ہوا۔ اس جھکاؤ کاآغاز ’بھارت جوڑو یاترا‘سے ہوا تھا جو کرناٹک میں جیت کے ساتھ مستحکم ہوتا گیا۔ کانگریس نے بھی اس بات کو محسوس کیا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس نے اقلیتوں کیلئے باقاعدہ ایک انتخابی منشور جاری کیا ہے۔ 
کانگریس کااقلیتوں کیلئے انتخابی منشور
یہ شاید پہلا موقع ہے کہ مین اسٹریم کی کسی سیاسی جماعت نے اقلیتوں کیلئے باقاعدہ انتخابی منشور (مائناریٹی ڈکلیریشن) جاری کیا ہے۔  اس کے تحت ریاست میں اقلیتوں کی فلاح و بہبود کیلئے مختص بجٹ کو بڑھا کر۴؍ ہزارکروڑ روپے سالانہ کرنے کی بات کہی گئی ہے جبکہ  اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والےبے روزگار نوجوانوں اور خواتین کو رعایتی شرحوں پر قرض فراہم کرنے کیلئے سالانہ ایک ہزار کروڑ روپوں کا فنڈ مختص کرنے کااعلان کیاگیا ہے۔ اسی طرح  ’عبدالکلام تحفۂ تعلیم اسکیم‘ کے تحت ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم مکمل کرنے کیلئے  اقلیتی طلبہ کو۵؍ لاکھ روپوں کی مالی مدد کی فراہمی کا بھی وعدہ کیا گیا ہے۔ اس انتخابی منشور میں امام، مؤذن، خادم، پادری اور گرنتھی سمیت تمام مذاہب کے پجاریوں کو۱۰؍ سے ۱۲؍ ہزارروپے ماہانہ اعزازیہ دینے کی بات بھی کہی گئی ہے۔ اس کے علاوہ  اردو میڈیم اساتذہ کی خصوصی بھرتی کا بھی اعلان کیاگیا ہے۔
 ان اعلانات نے ہوا کا رُخ بدل دیا ہے۔  ایک اندازے کے مطابق ریاست کے۱۳؍ فیصدمسلم ووٹوں  میں سے ڈھائی ڈھائی فیصد ایم آئی ایم اور کانگریس کو ملتے رہے ہیں جبکہ ۸؍ فیصد بی آر ایس کے حصے میں جاتے تھے لیکن اس بار اس میں بڑے اُلٹ پھیرکے آثار بتائے جارہے ہیں۔ خیال کیا جارہا ہے کہ ایم آئی ایم کیلئے مسلمانوں کی حمایت جوں کا توں باقی رہے گی جبکہ بی آر ایس کو ڈھائی سے۳؍ فیصد اور کانگریس کو ۷؍ سے ۸؍ فیصد ووٹ ملنے کی امید ہے۔  اگر ایسا ہوا تو ۲۰۱۸ء میں ’کے سی آر‘ کی پارٹی کو ملنے والے ووٹوں  کی شرح (۴۶ء۸۷؍ فیصد) میں کافی کمی ہوجائے گی اور کانگریس کے  ووٹ بینک (۲۰۱۸ء کے مطابق ۲۸ء۴۳؍ فیصد) میں خاصا اضافہ ہوجائے گا۔ راہل گاندھی  اور پرینکا گاندھی کی ریلیوں میں اُمنڈنے والی بھیڑ بتارہی ہے کہ اس مرتبہ تلنگانہ میں مقابلہ سخت ہوگا۔ اسے وجہ سے مسلمانوں کے ووٹوں کو فیصلہ کن سمجھا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ اس مرتبہ تلنگانہ  کے اقتدار کی کلید مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK