دین ِ فطرت ہونے کی وجہ سے اسلامی تعلیمات صرف عبادات پر مرکوز نہیں بلکہ طرزِ زندگی ، شخصی آزادی ، ضروریات کی فراہمی اور پیدائش دولت کے محرکات پر بھی زور دیتی ہیں۔
EPAPER
Updated: August 16, 2024, 2:46 PM IST | Professor Khurshid Ahmed | Mumbai
دین ِ فطرت ہونے کی وجہ سے اسلامی تعلیمات صرف عبادات پر مرکوز نہیں بلکہ طرزِ زندگی ، شخصی آزادی ، ضروریات کی فراہمی اور پیدائش دولت کے محرکات پر بھی زور دیتی ہیں۔
اسلام ایک آفاقی دین ہے اور امت مسلمہ ایک عالمگیربرادری ہے۔ ایمان اس کی بنیاد ہے، اور یہی ایمان مسلم امہ کی عالم گیر حیثیت کا تعین کرتا ہے۔ یہی توحید کائنات کی، انسانیت کی اور زندگی کی وحدت (Unity) اور قانون کے آفاقی ہونے پر دلیل ہے۔ اسلام کسی خاص قوم، لسانی یا علاقائی نسلی گروہ یا کسی خاص سماجی و معاشی طبقے کا دین نہیں ہے۔ اسی طرح اسلام ایک نیا دین پیش کرنے کا دعوے دار نہیں ہے، بلکہ اس کے مطابق یہ رہنمائی ہے جو خالق نے اپنے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے تخلیق انسان کے اول روز سے بہم پہنچائی ہے۔ تمام انبیاء علیہم السلام اور ان کے ماننے والوں کا مذہب (دین) اسلام ہی تھا۔
مسلمان حضرت آدمؑ سے لے کرحضرت نوحؑ، حضرت ابراہیم ؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسٰی ؑ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاءؑ پر ایمان رکھتے ہیں۔ اسلام کے لغوی معنی ’امن‘اور ’سلامتی‘ کے ہیں۔ یہ اللہ کے واحد معبود ہونے اور اس کی بندگی کرنے اور اس کے انبیاء ؑپر ایمان لانے کا داعی ہے، جن کی زندگی اعلیٰ ترین نمونہ اور ہدایت کا سرچشمہ ہے، اور اللہ تعالیٰ کے احکام اور ہدایت کے مطابق انسان کی مکمل سپردگی اور پیروی کا نام ہے۔ اسی طرح شریعت کچھ اقدار، اخلاقیات اور قوانین کے مجموعے کا نام ہے جو اسلامی طرزِ زندگی کی تشکیل کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: تعلیم اور تربیت، دو الگ الگ مگریکساں اہمیت کے حامل الفاظ ہیں
اسلام، ہر فرد کے اختیار کی آزادی پر یقین رکھتا ہے۔ عقیدہ و مذہب کے معاملے میں کسی زورزبردستی کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ انسانیت کے لئے ثقافتی لحاظ سے اورحقیقی طور پر تکثیریت کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ اختلاف رائے کے باوجود ایک دوسرے کو برداشت کرنااسلام کابنیادی اصول ہے۔ اسلام، انسان کی زندگی کے تمام پہلوئوں : ایمان، عبادت، شخصیت اور کردار، فرد اور معاشرہ، معیشت اور معاشرت، قومی اور بین الاقوامی معاملات سے متعلق ہے۔ پھر اسلام غیرمذہبی معاملات کو بھی روحانیت کی مقدس چھتری تلے جمع کرتا ہے۔ یہ دوسرے مذاہب کے مقابلے میں لادینی اور دنیاوی پہلوئوں کو نظر انداز نہیں کرتابلکہ زندگی کے تمام پہلوئوں کواخلاقی و روحانی طور پر باہم مربوط کرتا ہے۔ اسلام بنیادی طور پر اخلاقی اور نظریاتی فکر ہے، جو عقیدے، رنگ، نسل، زبان اور علاقے سے بالاتر ہوکر انسان کو مخاطب کرتی ہے۔ یہ تکثیریت کو حقیقی اور قابل تکریم سمجھتا ہے۔ امت مسلمہ کے اندر بھی تنوع موجود ہے۔ یہ کسی مصنوعی اتحاد اور زبردستی کی ہم آہنگی کا قائل نہیں ، بقائے باہمی اور تعاون کے لئے ٹھوس بنیاد فراہم کرتا ہے۔
اسلامی طرزِ زندگی اور تمدن کا ایک اور پہلو، اس کا: مطلق، کائناتی اور عالم گیر اقدار پر زور دینا ہے۔ یہ کچھ ایسے اداروں کا تعین کرتا ہے، جو اسلام کے مستقل ستون کی حیثیت سے کام کرتے ہیں، اور بدلے ہوئے حالات کی ضرورتوں کے مطابق لچک کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اقدار کا تانا بانا انسانی فطرت اور کائنات کے حقائق کے مطابق بنتا ہے اور انسان کو وہ مواقع فراہم کرتا ہے کہ انسان بدلتے حالات کے تناظر میں اپنی اقدار اور اصولوں کا اطلاق کرے۔ اس کے لئے اسلام ایک خودکار نظامِ عمل فراہم کرتا ہے، تاہم انسانی حالات کی جزئی تفصیلات کے ضمن میں جامد قواعد و ضوابط سے احتراز کرتا ہے۔ یہ فرد کو معاشرے کی بنیادی اکائی تصور کرتا ہے جو تمام مخلوقات میں اعلیٰ ترین مقام رکھتا ہے۔ ہرفرد اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ انسان صرف سماجی مشین کا اہم پُرزہ ہی نہیں ہے بلکہ اس کے نزدیک معاشرہ، ریاست، قوم اور انسانیت تمام ہی اہم ہیں اور ہرایک اپنا خصوصی کردار ادا کرتا ہے۔ تاہم، آخرت میں ہر فرد کی جواب دہی انفرادی سطح پر ہی ہوگی۔ اس سے اسلامی نظام کے اندر فرد کی مرکزیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہر فرد کو معاشرے اور اس کے اداروں سے وابستہ کرتا ہے اور ان کے درمیان ایک متوازن تعلق قائم کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:فتاوے: قبضے کی جگہ اور مسجد،تجارت کے لئے لون،عقیقے کا وقت
اسلامی اخلاقیات، زندگی سے فرار کا راستہ نہیں دکھاتیں بلکہ بھرپور زندگی گزارنے کے نظریے پر قائم ہیں۔ انسانی زندگی کے تمام پہلو اور سرگرمیاں اخلاقی نظم و ضبط کے ذریعے پاکیزہ زندگی گزارنے کا وسیلہ بن جاتی ہیں۔ انفرادی تقویٰ اور اجتماعی اخلاقیات مل کر بھرپور زندگی کو فروغ دیتی ہیں، انفرادی اور معاشرتی بہبود میں اضافہ کرتی ہیں اور تمام لوگوں کے لئے فلاح کا باعث بنتی ہیں۔ اسلام میں ’دولت‘ ایک گالی نہیں۔ اگر اخلاقی اقدار اور امکانات کو پیش نظر رکھا جائے تو پیدائش دولت دراصل ایک پسندیدہ قدر ہے۔ ایک اچھی زندگی انسانی جستجو کابڑا ہدف ہے، فلاحِ دنیا اور فلاحِ آخرت کا ایک دوسرے پر انحصار ہے، اور یہ ایک ہی مسئلے کے دو رخ ہیں۔ یہی وہ روحانیت ہے جو دنیاوی زندگی کے تمام پہلوئوں اور سرگرمیوں کو اخلاقی دائرہ کار میں لاکر اس طرح چھا جاتی ہے، کہ وہ انسان کو بیک وقت نہ صرف اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے قابل بنادیتی ہےبلکہ ایک ایسامعاشرہ تشکیل دیتی ہے جس میں تمام لوگوں کی خواہشات عادلانہ طریقے پر پوری ہوتی ہیں۔
شخصی آزادی، حقوقِ ملکیت، کاروبار، بازار کی میکانیت اور دولت کی منصفانہ تقسیم، اسلامی معاشی نظام کے اہم حصے ہیں، تاہم مختلف سطحوں پر بہت سی اخلاقی بندشیں ہیں، مثلاً: انفرادی تحرک، ذاتی رجحان، سماجی طور طریقے، آجر اور اجیر کے رویے اور فرد اور ریاست کے باہمی تعلقات۔ اس نظام میں خاص طورپر نگرانی، رہنمائی اور ضروری قانون سازی کے دائرے میں ریاست اپنا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس کے ساتھ آزادی، معاشی مواقع کی فراہمی اور ملکیت کے حقوق کو یقینی بنانا بھی اس کے فرائض میں شامل ہے۔
اسلام ضروریات کی فراہمی کو اہمیت دیتا ہے اور ایسا معاشرہ تشکیل دیناچاہتا ہے، جس میں معاشرے کے ہر فرد کے لئے ضروریات زندگی کی فراہمی یقینی ہو۔ اوّلین طور پر ذاتی جدوجہد کے ذریعے اور محنت کا پھل ملنے کے رجحان کی بنیاد پر۔ لیکن ایک ایسے دوستانہ ماحول میں کہ جو لوگ پیچھے رہ جائیں یا ان کا تعلق محروم طبقات سے ہو، ان کی اس طرح سے مدد کی جائے کہ وہ ایک باعزت زندگی گزار سکیں اور معاشرے کے فعال شریک بن جائیں۔ اسلام پیدائش دولت کی ایسی سرگرمیوں پر زور دیتا ہے۔ اس کا ہدف ایسا عادلانہ اور مساویانہ معاشرہ تشکیل دینا ہے جہاں ہر فرد کو مساوی مواقع حاصل ہوں۔ اسی صورت میں ایسا کیا جانا ممکن ہے کہ جب معاشرہ ایسا طریق کار وضع کرے کہ معاشرے کے محروم طبقات کو مؤثر مدد حاصل ہوسکے۔ یہ خاندان کے ادارے، معاشرے کے دوسرے اداروں اور ریاست کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اسلام معاشی طرز عمل میں آزادی کوذمہ داری کے ساتھ اور استعداد کار کو عدل کے ساتھ مربوط کرتا ہے۔ ’عدل‘ بنیادی اسلامی اقدار میں سے ایک سب سے اہم قدر ہے اور انبیاعلیہم السلام کی بعثت کے مقاصد میں بھی ایک مقصد عدل کا قیام ہے۔ (الحدید :۲۵) ہدایت کا تعلق صرف انسان کے اللہ کے ساتھ تعلق تک محدود نہیں ہے بلکہ دوسرے انسانوں او رکائنات کے ساتھ عدل پر مبنی تعلق تک وسیع ہے۔