Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسرائیل سعودی تعلقات معمول پر آنے والے ہیں؟

Updated: October 04, 2023, 1:20 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

سعودی ولی عہد نے امریکی ٹی وی کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں یہ تسلیم کیا کہ ’’ مسئلہ فلسطین ہمارے لئے بے حد اہم ہے اور ہمیں اسے حل کرنےکی ضرورت ہے۔‘‘

Benjamin Netanyahu and Mohammed bin Salman Al Saud. Photo. INN
بنجمن نیتن یاہو اور محمد بن سلمان آل سعود۔ تصویر:آئی این این

مشرق وسطیٰ کے دو پرانے دشمن سعودی عرب اور اسرائیل اپنے دیرینہ اختلافات بھلاکر ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملانے کو کیا واقعی تیار ہوگئے ہیں ؟گزشتہ پندرہ دنوں میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہواور بائیڈن انتظامیہ کے اہم اہلکاروں کے بیانات سے یہ گمان ہورہا ہے کہ ریاض اور تل ابیب سفارتی تعلقات قائم کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔محمد بن سلمان نے فاکس ٹی وی کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں تسلیم کیا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب کا امن معاہدے کا امکان روشن تر ہوتا جارہا ہے۔ سعودی ولی عہد کے بقول یہ مجوزہ معاہدہ’’ سرد جنگ کے بعد کاسب سے بڑا تاریخی معاہدہ ہوگا۔‘‘ 
نیتن یاہو نے تو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پلیٹ فارم سے ساری دنیا کو مجوزہ معاہدے کی نوید سنادی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس معاہدے کے ذریعہ نہ صرف عرب۔ اسرائیل قضیہ ختم ہوگا اور مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہوگا بلکہ ایک نیا مڈل ایسٹ معرض وجود میں آئے گا۔۲۰۲۰ء میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی پیش رفت پر جب پہلے متحدہ عرب امارات اور بحرین اور بعد میں مراقش اور سوڈان نے اسرائیل کے ساتھ ابراہیمی معاہدے پر دستخط کئے اس وقت ہی یہ قیاس آرائیاں ہونے لگی تھیں کہ سعودی عرب بھی جلد ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرلے گا۔
سعودی ولی عہد نے دو سخت شرائط امریکی صدر کے سامنے رکھی ہیں۔ اول، سعودی عرب امریکہ کے ساتھ نیٹو ٹائپ کا دفاعی معاہدہ چاہتا ہے یعنی امریکہ اسے اپنا اسٹریٹیجک اتحادی تسلیم کرلے اور اگر کبھی سعودی عرب پر کوئی بیرونی حملہ ہو تو وہ اس کی دفاع کیلئے فوج بھیجے۔محمد بن سلمان کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ امریکہ سعودی عرب کے شہری جوہری پروگرام کیلئے جس میں یورینیم کی افزودگی بھی شامل ہے نیوکلیئر پاور ٹکنالوجی اور مہارت فراہم کرے۔
بائیڈن کیلئے اس مطالبے کو تسلیم کرنا بھی مشکل ہوگا۔ امریکہ کے جوہری ماہرین اور سائنسدانوں نے صدر کو ایک خط لکھ کر کہا ہے کہ وہ سعودی عرب کو صاف انکار کردیں ۔ امریکہ اور اسرائیل دونوں نہیں چاہیں گے کہ مشرق وسطیٰ میں جوہری ہتھیاروں کی مقابلہ آرائی شروع ہو جائے۔ویسے اندر کی خبر یہ ہے کہ ایٹمی پلانٹ لگانے کیلئےچین، روس اور فرانس جیسے ممالک کے ساتھ سعودی حکومت پہلے سے ہی بات چیت کررہی ہے۔
بائیڈن سے بھی زیادہ اگر نیتن یاہو سعودی عرب کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کیلئےبے قرار ہیں تو اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔نیتن یاہو کی قیادت والی مخلوط حکومت پچھلے نو ماہ سے بے پناہ عوامی احتجاج کا سامنا کررہی ہے۔ سپریم کورٹ کو اپنے قدموں میں سرنگوں کرانے کی خاطر بنائے گئے نیتن یاہو حکومت کے کالے قانون کے خلاف اسرائیل کے لاکھوں جمہوریت نواز اور انصاف پسند شہری ہر ہفتے سڑکوں پر مظاہرے کررہے ہیں ۔ سعودی عرب جو دنیا کا اہم ترین مسلم ملک، خطے کاسب سے زیادہ دولتمند ملک اور تیل کا سب سے بڑا ایکسپوٹر ہے،کے ساتھ دوستی کرکے نیتن یاہو عدلیہ کی آزادی سلب کئے جانے کی اپنی کوششوں پر بھڑکے عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنا چاہتے ہیں ۔نیتن یاہو کا یہ موقف رہا ہے کہ فلسطینیوں کو ان کا حق دیئے بغیر ہی اسرائیل کیلئے عرب دنیا کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا اور خطے میں امن قائم کرنا ممکن ہے۔وہ اپنے سخت گیر موقف کی کامیابی کی بنیاد پر قومی ہیرو بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ اس وقت ان کی مخلوط حکومت میں بیزالیل اسموٹرچ اور ایتامار بن گویرجیسے وزرا ءشامل ہیں جو فلسطینیوں کو کسی قسم کی رعایت دینے کے بجائے ان کی زندگی مزید اجیرن کرنے کے منصوبے بنارہے ہیں ۔ نیتن یاہو نے ایک ماہ قبل مقبوضہ مغربی کنارے کا مکمل کنٹرول اسموٹرچ کو سونپ دیا ہے جو اعلان کرچکے ہیں کہ وہ مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر موجودہ ناجائز یہودی آباد کاری کو قانونی حیثیت فراہم کریں گے بلکہ وہاں مستقبل میں یہودیوں کو بسانے کیلئے ہزاروں نئی رہائشی کالونیاں بھی تعمیر کروائیں گے۔ 
 اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نیتن یاہو کی حالیہ تقریر سے یہ واضح ہوگیا کہ وہ اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے اسرائیل اور سعودی عرب کے مجوزہ امن معاہدے کی افادیت بیان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ خطے میں وسیع تر امن کے قیام سے فلسطینیوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ لیکن انہوں نے یہ بھی واضح کردیا کہ اسرائیل عرب ممالک کے ساتھ جو امن معاہدے کررہا ہے اس میں فلسطینیوں کو ویٹوکا اختیار کسی قیمت پر نہیں دیا جاسکتا ہے۔
 سعودی ولی عہد نے امریکی ٹی وی کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں یہ تسلیم کیا کہ ’’ مسئلہ فلسطین ہمارے لئے بے حد اہم ہے اور ہمیں اسے حل کرنے کی ضرورت ہے‘‘تاہم اس مسئلہ پر انہوں نے تفصیل سے اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیا۔۲۰۰۲ءمیں سعودی عرب نے مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنے کیلئے ایک عمدہ تجویز پیش کی تھی جس کی عرب لیگ نے توثیق اور یورپی یونین اور امریکہ سمیت ساری دنیا نے حمایت کی تھی۔اس تجویز کے تحت تمام عرب ممالک ایک ساتھ اسرائیل کو تسلیم کرکے سفارتی تعلقات قائم کرنے پر تیار ہوگئے تھے اور بدلے میں وہ یہ چاہتے تھے کہ اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو مکمل طور پر خالی کردے، فلسطینی رفیوجیوں کو گھر واپسی کا حق دے دے اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام (جس کا دارلحکومت مشرقی یروشلم ہو) قبول کرلے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ نیتن یاہو کی تقریر کے دو دن بعد جب سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے جنرل اسمبلی میں تقریر کی تو انہوں نے یہ واضح کردیا کہ مشرق وسطیٰ میں امن اور علاقائی سلامتی کا قیام فلسطینی ایشوکے منصفانہ اور جامع حل کے بغیر ممکن نہیں ہے۔انہوں نے واشگاف الفاظ میں عالمی برادری کو یہ پیغام بھی دیا کہ مسئلہ فلسطین کا حل مقبوضہ علاقوں میں آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔
ایسے آثار نظر نہیں آرہے ہیں کہ نیتن یاہو حکومت فلسطینی ریاست کے قیام کے مطالبہ کو تسلیم کرنے والی ہے۔ نیتن یاہو نے اقوام متحدہ میں اپنی طویل تقریر کے دوران گریٹر اسرائیل کا ایک نقشہ بھی لہرایا جس میں مغربی کنارہ اور غزہ کو اسرائیل کی سرحدوں کے اندر دکھایا گیا۔ مطلب یہ کہ وہ ان علاقوں کو خالی کرنے یا ان پر فلسطینی ریاست کے قیام کو منظور کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں ۔ زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے مجھے لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں اگر سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات معمول پر آتے ہیں تو یہ بات کسی معجزے سے کم نہیں ہوگی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK