Inquilab Logo

’جشن تعلیم‘ ہے دراصل پیام تعلیم

Updated: February 26, 2024, 6:14 PM IST | Mohammad Rafi Ansari | Bhiwandi

بھیونڈی کے ایم ایل اے رئیس شیخ کی تنظیم ’احتساب‘ کی جانب سے منعقدہ ’جشن تعلیم‘ پر محمد رفیع انصاری کا ایک رپورتاژ۔

A scene from `Jashn e taleem`. Photo: INN
’جشن تعلیم‘ کا ایک منظر۔ تصویر: آئی این این

گزشتہ دنوں ہمارے خلافِ معمول جلد گھر سے نکلنے کا واحد مقصد ’جشن ِتعلیم ‘ میں بروقت حاضر ہونا تھا۔ چنانچہ ہم ٹھیک ساڑھے گیارہ بجے ’جشن کے علاقے‘ میں پہنچ گئے تھے۔ حالانکہ یہ علاقہ ہمارا نہ تھامگر آج یہ ہر علم دوست کا علاقہ معلوم ہورہا تھا۔ کشادہ سڑکوں پرعلم والوں کے قافلے جانبِ منزل رواں دواں تھے۔ بڑوں کے چہرے کھلے اور بچے اپنے دل میں امنگ لئے ہوئے تھے۔ وہ سب ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی دھن میں ’نیاز نیشنل اسکول‘ میں پہلے پہنچ کر اپنی جگہ مختص کرنا چاہتے تھے۔ جشن کی دو جولان گاہیں نظروں کے سامنے تھیں۔ ایک طرف ’انصاری میرج ہال‘تھا اور دوسری طرف ’نیاز نیشنل اسکول‘کی شاندار عمارت۔ انصاری میرج ہال یوں تو عام دنوں میں بھی اپنی وسعت اور محل وقوع کی بدولت دل کو موہتا ہے مگر آج اس کی کشش اور دنوں سے مختلف معلوم ہورہی تھی۔ شرکائے جشن کے لئے سرخ قالین بچھائے گئے تھے۔ سبز رنگ کے پردے اور دورنگی شامیانے موسم کو پُر کیف بنا رہے تھے۔ نیاز اسکول جس کا انتظامیہ اپنی نیازمندی کے لئے ممبئی تک مشہور ہے، اس وقت مرجع خلائق تھا۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے نیاز اسکول کے صدر دروازے پر قدم رکھا۔ اندر پہنچے تو ایک نظر میں یسا لگا کہ جیسے کسی ’امتحان گاہ‘ میں آگئے ہیں۔ پہلے آئیے، پہلے پائیے جیسا منظر پیش تھا۔ مقابلے شروع ہو چکے تھے۔ ایک ہال میں بچوں کا تقریری مقابلہ منعقد تھا۔ دوسری جگہ مضمون نویسی مقابلہ کی تیاری ہو رہی تھی۔ مجید سر ہر مشکل کو آسان کئے جارہے تھے۔ اساتذہ کی غزل سرائی سننے کی تمنا تھی۔ کوئزکمپٹیشن کو دیکھنے کی تڑپ تھی۔ ڈرائنگ، پوسٹر ڈیزائننگ اور خطاطی میں حصّہ لینے والوں نے اسکول کے چپہ چپہ پر قبضہ کر رکھا تھا۔ ہماہمی کم گہما گہمی زیادہ نظر آئی۔ منتظمین بڑے فعال تھے۔ شکایت کا موقع آنے سے پہلے ہی موقعہ واردات پر پہنچ کر معاملہ کو خوش اسلوبی سے حل کررہے تھے۔ 
ہم راہداری میں بیٹھے مجید سر کی راہ دیکھ رہے تھے۔ فیاض سر نے ہمیں دیکھ لیا اور تقریری مقابلہ میں لے گئے۔ ’ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا‘ موضوع پر ایک طالبہ کی تقریر ہو رہی تھی۔ تقریرکی اچھی باتیں سن کر خوشی ہوئی۔ مقررہ پر رشک ہوا۔ مضمون نگاری مقابلہ کے لئے ایک گھنٹہ کا وقت مختص تھا۔ ہر مضمون نگار کی پذیرائی اتنی ہوئی کہ بیشترخوشی سے دہرے ہوگئے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ مضمون لکھنے کے دوران امیدواروں کے حصّہ کے گفٹ تقسیم نہ ہوئے وگرنہ آدھے لڑکے تو اسی کو غنیمت سمجھ کر (بامراد) لوٹ جاتے۔ مقابلۂ مضمون نویسی کے اختتام پر ہم جشن کے مناظر دیکھنے کے لئے باہر آئے۔ زمینی منزلے پر اساتذہ کی غزل سرائی کا مقابلہ ہورہا تھا۔ کیا خوب منظر تھاغزل پڑھانے والے غزل سرا تھے۔ ان میں نو عمر بھی تھے اوربچوں کے والدین بھی۔ منتظمین مقابلۂ غزل سرائی کا انتظام شبیرفاروقی کے محفوظ ہاتھوں میں دے کر مطمئن ہو گئے تھے۔ فاروقی سر نے اس مقابلہ کو خوب سے خوب تر بنانے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ مقابلہ کا سارا بوجھ (اپنے لحیم شحیم ساتھی شفیع پٹیل کے ساتھ) اُٹھا رکھا تھا۔ اس مقابلہ میں پرائمری سے لے کر جونیئر کالج کے اساتذہ نے حصّہ لیا تھا۔ غزل سرا اساتذہ کی تعداد ۸۴؍ بتلائی گئی۔ اس کے سامعین خاصے بالغ نظر معلوم ہوئے۔ ایک استانی جو آئندہ برس ریٹائر ہونے والی ہیں وہ بھی پورے جو ش وجذبے کے ساتھ شریک تھیں۔ جشن میں شامل باذوق بچوں نے یاد گار کے طور پر ان کی تصویر بھی اتاری۔ استانی نے اسے اپنی زندگی کا پہلا مقابلہ قرار دیا اوراسے اپنے لئے ’جشنِ تعلیم ‘ کا تحفہ قرار دیا۔ 
’تمہارے جلوؤں کی روشنی سے غریب خانہ سجا رہا ہوں ‘گنگناتے ہوئے ہم شمیم سر کے ہمراہ جشن کی آماجگاہ میریج ہال میں پہنچے تو دیکھا کہ ہال کے ایک گوشے میں جونیئر کالج کے اسٹوڈنٹس کا ’مباحثہ‘ منعقد ہے۔ شرکاء ’اظہارِ خیال کی آزادی ‘ کے موضوع پر اس کی حمایت اور مخالفت میں بول رہے تھے۔ بولنے والوں میں لڑکیاں آگے تھیں اور تین میں سے دو جج بھی خاتون تھیں۔ پلڑہ ایک طرف کو جھکتا نظر آیا۔ سجاد سر اس مباحثہ کی نظامت کررہے تھے اور حسیب جامعی ان کا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔ ہم ان کی جرأتِ رندانہ کی داد دیتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ ہال کی دوسری جانب ’کوئز کمپٹیشن‘ہورہا تھا۔ اس مقابلہ کا نظم ’بزمِ ریختہ‘ نے سنبھال رکھا تھا۔ ریختہ پر فریفتہ ہونے والوں کا جم غفیر نظر آیا۔ مخلص مومن اور ضیاء شیخ دونوں ایک جان دو قالب ہیں، مصروفِ کار تھے۔ انھیں علم دوست ریختہ کے شیفتہ کہتے ہیں۔ 
جشن کی شام ’جلسۂ تقسیم انعامات ‘ کی الگ شان نظر آئی۔ مقابلوں کے فاتحین کو انعام و اکرام سے نوازا گیا۔ انعامات کے وزن نے انعام یافتگان کا وقار اور بانیانِ جشن کا اعتبار بڑھایا۔ بیشتر انعامات کو اٹھانے کے لئے رضا کاروں کی مدد بھی لینی پڑی۔ انعام کی تقسیم کے وقت تالیوں کا شور لڑکوں کی طرف سے زیادہ سنائی دے رہا تھا جبکہ مقابلہ جیتنے والوں میں لڑکیاں پیش پیش تھیں۔ ۹؍ مختلف مقابلوں میں بھیونڈی کے ۱۵۰؍اسکولوں کے ۶۳۷؍طلبہ و طالبات شریک تھے۔ مقابلے میں لڑکیوں کا حصّہ ۸۰؍ فیصدتھا اور حصولِ انعام میں ۹۵؍ فیصد۔ ہنر مند خواتین کی پذیرائی کا انداز بھی منفردتھا۔ وہ منظر علم وہنر والوں کے ذہنوں میں ہمیشہ تازہ رہے گا جب لائیوووٹنگ کے ذریعے ’خاتونِ اول‘ کا انتخاب کیا گیا۔ 
پروگرام کے آغاز سے قبل ہی جلسہ گاہ کی ساری کرسیاں بھر گئی تھیں۔ باہر اندھیرا جوں جوں بڑھتا جارہا تھا یہاں روشنی فروزاں ہو رہی تھی۔ ’شمعیں گل ہوتی گئیں اور روشنی بڑھتی گئی ‘ والا منظر تھا۔ شامیانے سے آگے شامیانے سجے اور اسکرین کے آگے اسکرین لگے۔ بعد از آں صوفیہ میڈم نمودار ہوئیں اور انھوں نے اپنے دوننھے ساتھیوں کی مدد سے اس جشن کے سفر کی روداد کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا۔ پھر اس جشن کے مرکزی کردار ایم ایل اے رئیس شیخ جو مرکزِ قلب ونگاہ بنے تھے، افتتاحی تقریر کے لئے بلائے گئے۔ اس جشن کو آب و تاب بخشنے میں رئیس شیخ نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا تھا۔ آنجناب نے دیارِ علم کے آفتاب و ماہتاب (یعنی شہر کے نامور اساتذہ کو) تعلیم کے نام پر جمع کیا اور ان سے وہ کام لیاجو بے مثال ثابت ہوا۔ باخبر اساتذہ نے اپنی محنت شاقہ اور کوششِ پیہم سے تعلیم کے نام پرایک ایسا انقلاب برپاکیا جسے بہت دنوں تک یاد رکھاجائے گا۔ 
ہم نے اس جشن میں اپنے اساتذہ کو اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے جس قدر مصروف و مشغول دیکھا، وہ کبھی دیکھا نہ تھا(کاش یہ سلسلہ دراز ہو)۔ سارے اساتذہ تن من سے اور کچھ تو باقاعدہ’ دھن ‘سے لگے ہوئے تھے۔ رابطہ کار ابوذر خان نے اپنے حسنِ انتظام سے سب کو ایک لڑی میں پروئے رکھا تھا۔ کنوینر ضیاء الرحمن انصاری نے اپنی تنظیمی اور علمی ضیا باریوں کا سلسلہ اخیر تک تھمنے نہ دیا۔ ڈاکٹر روش انصاری نے اپنی روش کو معتبر ثابت کیا۔ فہیم سر کی فہم و فراست میں ہر درد کی دوا نظر آئی۔ 
عبدالعزیزانصاری نے اپنے رفیقِ کارعامر قریشی اور عبدالحسیب جامعی کے ساتھ امیدواروں کے بڑھتے سیلاب کا خوش دلی سے استقبال کیا۔ عبدالمجیدسر اپنے قدو قامت سے بھی بلند تر نظر آئے۔ فیاض مومن کی فیاضی نے گُل کھلائے۔ مصوری، خطاطی اور پوسٹر ڈیزائننگ کے تین سوسے زائد امیدواروں کی فنکاری کا امتحان لینے کے لئے سیماب انور نے پورے جشن میں دھوم مچارکھی تھی۔ دیپک سنگھ نے منتظمین کی راہوں میں گاہے گاہے دیپ جلائے۔ عمران مومن، مطیع اللہ خان، شمیم احمد، سجاد اختر، ظفر جامعی، آصف جامعی جیسے فعال اساتذہ کے ساتھ صوفیہ مومن نے ’مہندی ڈیزائن کا محاذ سنبھالنے کے ساتھ جشن میں نئے رنگ بھرے۔ جو شخصیتیں اساتذہ کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے خود بھی مسرور ہورہی تھیں ان میں قطب الدین شاہد، ڈاکٹر حفیظ انصاری اور اکرم انجینئر بھی شامل تھے۔ 
اس موقع پرڈاکٹر روشن جہاں (ایم ڈی) نے بھی حاضرین سے خطاب کیا۔ طلبہ و طالبات سے اپنے کامیابی کے سفر کے نشیب و فراز بتاتے ہوئے ان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھائی کہ ’راہیں بند نہیں ہیں، بس ایک کوشش درکار ہے۔ اس یادگار محفل میں این ڈی ٹی وی کے سابق اینکر سوہت مشرا بھی جلوہ دکھارہے تھے(مگر کسی وجہ سے ان کا حصّہ دور کا جلوہ ہی رہا)۔ جلسہ کی نظامت مشہور اسٹینڈ اپ آرٹسٹ اور ایکٹر رحمان خان نے اپنے مخصوص انداز میں کی۔ شب دس بجے پولس کی مودبانہ مداخلت پر رئیس شیخ صاحب نے سرِ تسلیم خم کیا اور نیک خواہشات کے ساتھ جشنِ تعلیم کے اختتام کا اعلان کیا تو اگر اچھا نہ لگا توبُرا بھی نہ لگا۔ واپسی کے وقت کانوں میں رئیس شیخ کے الفاظ گونج رہے تھے ’’میں آج وعدہ کرتا ہوں کہ حصولِ تعلیم کی راہ میں بھیونڈی کے ہر بچّے کوہر وہ موقع ملے گا جو امیر سے امیر علاقوں کے بچوں کو میسر ہے۔ ‘‘جشنِ تعلیم کی یہ سوغات لئے ہم گھر لوٹ رہے تھے، یقین جانئے شیخ صاحب کی باتوں نے طویل اور اوبڑ کھابڑ راستوں کو آسان کردیا تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK