Inquilab Logo Happiest Places to Work

اخلاقی انحطاط: وجوہات اور نتائج

Updated: February 16, 2024, 2:30 PM IST | Dr. Shafaqat Ali Sheikh | Mumbai

اسلام کے نزدیک علم سے مراد کسی مخصوص شعبے کا علم نہیں ہے جس سے انسان کا روزگار وابستہ ہو بلکہ وہ علم جو کائنات کے حقائق کو اُس پر آشکار کردے اور زندگی کے قوانین سے آگاہ کردے۔ اس میں قرآن و حدیث تو بدرجہ اولیٰ شامل ہیں تا ہم جدید علوم کی بھی نفی نہیں ہے بلکہ اُن میں مہارت حاصل کرنا بھی مطلوب اور مستحسن ہے۔

A lot of wealth also makes a person fond of luxury. Photo: INN
بہت زیادہ مال و دولت بھی انسان کو عیش و عشرت کا دلدادہ بنادیتے ہیں۔ تصویر : آئی این این

عصرِ حاضرمیں ہمہ گیر نوعیت کا اخلاقی انحطاط جو ہر سمت میں دکھائی دے رہا ہے اُس کے کئی اسباب ہیں اُن میں سے چند اسباب کو سطورِ ذیل میں اختصار کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے:
(۱) جہالت: قرآنِ مجید میں ہے : ’’اور کون ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) کے دین سے رُوگرداں ہو سوائے اس کے جس نے خود کو مبتلائے حماقت کر رکھا ہو۔ ‘‘(البقرة:۱۳۰)
یہاں ملت ِ ابراہیمی، جو کہ فطرتِ سلیمہ کا تقاضا ہے، سے اعراض کی وجہ جہالت کو قرار دیا گیا ہے۔ یہ جہالت ہی ہے جو حقیقت کے چہرے پر پردہ ڈال دیتی ہے اور انسان کو گمراہی اور بے راہ روی کی وادیوں میں بھٹکنے کیلئے چھوڑ دیتی ہے۔ جس طرح رات کی تاریکی میں انسان کو کچھ دکھائی نہیں دیتا اور وہ ادھر اُدھر ٹامک ٹوئیاں مارتا پھرتا ہے، ایسے ہی جاہل آدمی فکری انتشار میں مبتلا ہوتا ہے اور ظن و تخمین اور ھوائے نفس کا شکار ہو کر راست روی سے دور ہٹتا چلا جاتا ہے۔ 
اسلام کے نزدیک علم سے مراد کسی مخصوص شعبے کا علم نہیں ہے جس سے انسان کا روزگار وابستہ ہو بلکہ وہ علم جو کائنات کے حقائق کو اُس پر آشکار کردے اور زندگی کے قوانین سے آگاہ کردے۔ اس میں قرآن و حدیث تو بدرجہ اولیٰ شامل ہیں تا ہم جدید علوم کی بھی نفی نہیں ہے بلکہ اُن میں مہارت حاصل کرنا بھی مطلوب اور مستحسن ہے۔ قرآ ن و حدیث اور اسلامی لٹریچر میں اس حوالے سے دو الفاظ استعمال ہوتے ہیں ایک تعلیم اور دوسرا تربیت۔ یہ دونوں الفاظ اگرچہ ایک دوسرے کے مترادف ہیں اور ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں پھر بھی ان دونوں میں فرق ہے۔ تعلیم کے ذریعہ صرف عقلی قوتوں کو اُجاگر کیا جاتا ہے جب کہ تربیت کے ذریعہ انسان کی جملہ فطری قوتوں کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آج تعلیم سے تربیت کو جدا کر دیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں انسان سازی کا کام رُک گیا ہے۔ 
 غربت: اخلاقی بگاڑ کا دوسرا اہم سبب غربت ہے جس کی وجہ سے انسان بعض اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی کئی قسم کی اخلاقی قباحتوں کا مرتکب ہو رہا ہوتا ہے۔ حضور ؐنے غربت کے اس پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: كاد الفقر أن يكون كفرا (كنز العمال) مطلب یہ ہے کہ فقرو فاقہ اور تنگدستی کی حالت انسان کو اس حد تک مجبور کر سکتی ہے کہ وہ کُفر کی طرف جانے پر آمادہ ہو جائے۔ 

یہ بھی پڑھئےؒ: دُنیا کا رُخ بدلنے والی قرآن مجید کی اساسی تعلیمات

عیش و عشرت: جس طرح بہت زیادہ غربت اخلاقی مسائل کا باعث بنتی ہے اسی طرح حد سے زیادہ امارت بھی انسان کو اخلاقی اعتبار سے ناکارہ کر دیتی ہے۔ مال و دولت اور وسائلِ حیات کی فراوانی سے انسان میں بے فکری پیدا ہوتی ہے اور وہ انواع و ا قسام کی لذتوں، راحتوں، آسائشوں، تن آسانیوں اور عیش و عشرت کا دلدادہ بنتا چلا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں اخلاقی زوال اور انحطاط کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسلام میں بہت زیادہ عیش و عشرت کو اسی لئے ناپسند کیا گیا ہے۔ حضورؐ کا فرمان ہے: ’’اپنے آپ کو لذت طلبی سے بچاؤ۔ اللہ کے بندے لذتوں کے عادی نہیں ہوتے۔ ‘‘(هیثمی، مجمع الزوائد) 
آقائے نامدار محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعاؤں میں سے ایک دُعا ہے جس میں غربت اور امارت دونوں کے فتنہ سے پناہ مانگی گئی ہے: ومن شر فتنة الغنى وأعوذ بك من فتنة الفقر. ’’اور میں امارت اور غربت کے فتنہ سے (اے اللہ) تیری پناہ چاہتا ہوں۔ ‘‘(بخاری)
 سماجی عدل کا فقدان: اسلام نے جن اخلاقی اور معاشرتی اُمور پر سب سے زیادہ زور دیا ہے اُن میں سے ایک عدل ہے۔ اسلامی اخلاق کی رو سے عدل و انصاف کا معنی یہ ہے کہ ہر شخص کے ساتھ بلا رو‘ رعایت وہ معاملہ کرنا جس کا وہ حق دار ہے۔ انبیاء کی بعثت کا اہم ترین مقصد عدل و انصاف پر مبنی انسانی معاشرہ کا قیام ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’بےشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ہم نے اُن کے ساتھ کتاب اور میزانِ عدل نازل فرمائی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو سکیں۔ ‘‘ (الحدید: ۲۵) چنانچہ کسی معاشرہ میں عدلِ اجتماعی کا ماحول نہ ہونا اُس میں کئی طرح کی خرابیاں پیدا کرتا ہے۔ نہ مظلوم کی داد رسی ہوتی ہے اور نہ ظالموں کو اُن کے کیے کی سزا ملتی ہے۔ 
 تاریخ کے ہر دور میں جب اور جہاں بھی کسی فرد یا قوم نے اخلاقی اُصولوں کی پاسداری کی، اللہ نے اُسے عزت و آبرو اور امن و عافیت والی زندگی عطا کی اور جہاں ان اُصولوں سے روگردانی کی گئی وہاں بالا خر قانونِ مکافاتِ عمل حرکت میں آیا اور خلاف ورزی کرنے والے فرد یا قوم کو دوسروں کیلئے نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ عصرِ حاضر کا انسان اخلاقی اُصولوں کو پامال کرنے کی سزا بھگت رہا ہے اور روبہ زوال ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK