Inquilab Logo Happiest Places to Work

نماز اور قربانی میں وہی مناسبت ہے جو ایمان اور اسلام میں ہے

Updated: May 30, 2025, 4:24 PM IST | Hamiduddin Farahi | Mumbai

اسلام کی روح، خدا کی اطاعت اور اپنی عزیز ترین متاع کو رضائے الٰہی کی خاطر قربان کردینا ہے، یہ بات بغیر کامل ایمان و اخلاص کے پیدا نہیں ہوسکتی۔

After mentioning the donation of the Kaaba, the thing that is the basis for its survival and standing is mentioned, namely prayer and sacrifice. Photo: INN
بیت اللہ کے عطیہ کے ذکر کے بعد اس چیز کا ذکر کیا گیا ہے جو اس کے بقاء قیام کی بنیاد ہے یعنی نماز و قربانی۔ تصویر: آئی این این

’’(اے محمدﷺ) ہم نے تم کو کوثر عطا فرمائی ہے۔ پس آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں ۔ (الکوثر:۱۔ ۲)
اللہ تعالیٰ نے آنحضرتؐ کو کوثر، (یعنی خانۂ کعبہ کے عطیہ) کی بشارت دینے کے بعد دو باتوں کا حکم دیا: نماز اور قربانی۔ 
ہم نے نظم کلام پر غور کیا اور اللہ تعالیٰ کی عنایت سے ربط کے بعض پہلو معلوم ہوئے جو ذیل میں ہم بالترتیب بیان کرتے ہیں :
(۱) اس حکم میں بیت اللہ کی اس بخشش کا اصلی مقصود پنہاں ہے۔ کیونکہ یہ بخشش بہت بڑے مقصد کے لیے تھی۔ چنانچہ فرمایا :
’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو زمین (مکہ) میں دسترس دیں تو نماز پڑھیں اور زکوٰة ادا کریں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور برے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام خدا ہی کے اختیار میں ہے۔ ‘‘ (الحج:۴۱)
ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے فرمایا گیا ہے :
’’اے ہمارے رب! بیشک میں نے اپنی اولاد (اسماعیلؑ) کو (مکہ کی) بے آب و گیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسا دیا ہے، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم رکھیں پس تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ وہ شوق و محبت کے ساتھ ان کی طرف مائل رہیں اور انہیں (ہر طرح کے) پھلوں کا رزق عطا فرما، تاکہ وہ شکر بجا لاتے رہیں۔ ‘‘ (ابراہیم:۷)
اس سے معلوم ہوا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے قدیم وطن سے ہجرت کرکے ایک بے آب و گیاہ سر زمین میں بسنا محض اس لئے تھا کہ اللہ واحد کی عبادت کا ایک مرکز تعمیر ہو جو لوگوں کی عقیدت و انابت، سعی و طواف اور نذرونیاز کا قبلہ بنے اور جس طرح غلام اپنے آقا کی ڈیوڑھی پر گوش بر آواز سرگرم خدمت رہتے ہیں، اسی طرح لوگ اس گھر کی طرف لبیک لبیک لا شریک لک لبیک کہتے ہوئے بڑھیں، اور اپنے امام کی زبان سے گھر والے کے اوامر و نواہی سے آگاہ ہوں۔ اسی لئے فرمایا : ’’ اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو کہ وہ تمہارے پاس آئیں۔ ‘‘(الحج:۲۷)

یہ بھی پڑھئے:جب آپؐ سفر سے لوَٹتے تو فرماتے ’’ہم مدینہ سے اور مدینہ ہم سے محبت کرتا ہے! ‘‘

(یعنی تمہارے پاس حکمت و معرفت کی باتیں سننے آئیں۔ کیونکہ جس طرح مکہ لوگوں کے لئے مرکز اور سرچشمہ برکت و ہدایت تھا، اسی طرح حضرت ابراہیمؑ لوگوں کے امام تھے اس لئے آپ لوگوں کی میزبانی کرتے تھے اور ان کی اصلاح و ہدایت کے لئے ان کے سامنے خطبہ دیتے تھے۔ ابتدائے بعثت میں آنحضرت ؐ نے تبلیغ دین کے ارادہ سے اپنے خاندان کے لوگوں کی جو دعوت کی تھی وہ بھی اسی سنت ِ ابراہیمی کی پیروی تھی۔ حج کے دوسرے مراسم کے ساتھ خطبہ کی یہ سنت بھی حضرت ابراہیم ؑکے بعد باقی رہی۔ ) 
پھر نیاز کے جو جانور ساتھ لائے ہیں ان کا گوشت خود بھی کھائیں اور دوسروں کو بھی کھلائیں۔ اور شکر گزار ہوں کہ آقا نے خود اپنی بارگاہ میں پیش کرنے کے لئے سوغات بخشی اور پھر خود اس کو قبول فرما کر غلاموں کو سرفراز فرمایا۔ 
اس سے معلوم ہوا کہ اس گھر کی تعمیر نہایت عظیم الشان مقاصد کیلئے ہوئی ہے، اور خدا نے انہی مقاصد کی خدمت اور تکمیل کیلئے آنحضرت ﷺ کو اس پر قبضہ دیا ہے۔ ان باتوں کا لب لباب دو چیزیں ہیں : نماز اور قربانی۔ بس اس عطیہ کے ذکر کے بعد ان دونوں چیزوں کا ذکر کر دیا کہ یہ معلوم ہو جائے کہ یہ عطیہ یوں ہی نہیں مل رہا ہے بلکہ اس کے کچھ حقوق و فرائض ہیں جن کا اہتمامِ اصلی مقصود ہے۔ یہ بقائے حقوق کے عام اور معروف قانون کے مطابق ایک مسلمہ حق کا اظہار ہے کیونکہ کوئی عطیہ بغیر کسی فرض کی ذمہ داری کے نہیں ملا کرتا۔ جب ہم کچھ لے رہے ہیں تو لا محالہ ہم کو کچھ نہ کچھ دینے کیلئے بھی آمادہ رہنا چاہئے۔ 
(۲) بیت اللہ کے عطیہ کے ذکر کے بعد اس چیز کا ذکر کیا گیا ہے جو اس کے بقاء قیام کی بنیاد ہے یعنی نماز و قربانی۔ 
چنانچہ نماز اور قربانی کا حکم تمام امت کے لئے عام ہوا کیونکہ (بیت اللہ کی) یہ نعمت بھی پیغمبرؐ اور آپؐ کی امت کیلئے عام تھی۔ پیغمبر، امت کا وکیل ہوتا ہے۔ اس وجہ سے جو کچھ اس کو ملتا ہے، اس میں امت بھی برابر کی شریک ہوتی ہے۔ جب کوئی عبادت کسی عطیہ کے ساتھ مخصوص کردی جائے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کی پابندی ہی اس نعمت کے بقا کی ضامن ہو سکتی ہے۔ 
یہاں ، جیسا کہ سیاق سے ظاہر ہے، ہم کو حج اور اس کے دوسرے آداب و مناسک کا حکم دیا گیا ہے۔ گویا یوں کہا گیا ہے کہ ’’ہم نے تم کو کوثر بخشا‘‘ پس اس کے حقوق ادا کرتے رہو تاکہ یہ نعمت تمہارے لئے ہمیشہ باقی رہے۔ چاہے نماز اور حج کو الگ الگ لو یا دونوں کو ایک ساتھ لو، مراد اس سے حج ہی ہے۔ حدیث سے ثابت ہے کہ حج نماز ہی میں سے ہے۔ حج کے اعمال و مراسم سے بھی اس حقیقت کی تائید ہوتی ہے اور یہ بات اپنی جگہ پر ثابت ہے کہ بیت اللہ کا مقصد نماز ہی ہے اور اس مقصد کے لئے اس کی تعمیر ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس شخص نے استطاعت کے باوجود اس گھر کا حج نہ کیا اس نے اس کا مقصد پورا نہیں کیا۔ 
بعینہ یہی حال قربانی کا ہے۔ جس نے حج کی قربانی کی سعادت حاصل نہ کی، وہ در حقیقت اصلی قربانی سے محروم ہے۔ جو شخص اس قربانی کے علاوہ کوئی قربانی کرتا ہے، وہ حجاج سے صرف ایک گونه مشابہت حاصل کرتا ہے اور یہ قربانی کرکے گویا وہ ایک دن حقیقی قربانی کی سعادت کے حصول کی تمنا ظاہر کر رہا ہے۔ 
بہر حال، جو پہلو بھی اختیار کرو، آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حج امت پر لازم ہے، اور جو شخص حج سے بے پروا ہوا اس نے گویا اپنے آپ کو امت کے حلقہ سے الگ کر لیا۔ 
(۳) اس میں پیغمبر اسلام ؐ اور مسلمانوں کے لئے تسلی [ کا سامان ] ہے۔ گویا ان سے یوں کہا گیا ہے : ’’کفار نے تم کو جوار بیت اللہ سے جلاوطن کیا اور نماز و قربانی سے روکا لیکن اب کہ ہم تم کو کوثر بخشتے ہیں، پورے فراغِ خاطر اور ایک بڑی جماعت کے ساتھ اپنا حوصلہ پورا کرو۔ ‘‘ اس سے ایک طرف تو نماز، حج، قربانی اور دوسرے اعمال صالحہ کیلئے اس بے تابی کا اظہار ہو رہا ہے جو آنحضرتؐ اور آپؐ کے صحابہ کو بے چین کئے ہوئے تھی اور دوسری طرف اس میں بشارت، تسلی اور اظہار محبت کے بھی نہایت جاں نواز پہلو ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:فتاوے: نصاب اور قربانی، حدود منیٰ اور مزدلفہ اور احرام کی حالت میں خوشبو کا حکم

(۴) یہ عہد توحید کا بیان ہے۔ 
قرآن کے دلائل کا عام عنوان یہ ہے کہ وہ پروردگار ہے، اسی نے اپنی نعمتوں سے ہم کو مالا مال کیا ہے، اسی نے ہم کو خلعت ِ وجود سے آراستہ کیا اور بہترین ساخت پر پیدا کیا اور ہمارے لئے رزق طیب کا خوانِ کرم بچھایا۔ اس وجہ سے اس کی عبادت اور اس کی پرستش کرنی چاہئے۔ 
 لیکن یہاں ایک مخصوص عظیم الشان نعمت کا ذکر ہے، اس وجہ سے توحید کا مطالبہ بھی اسی مخصوص پہلو سے کیا گیا ہے۔ یعنی جب خدا ہی نے ہم کو اس گھر کی خدمت و پاسبانی کی عزت بخشی ہے تو نماز و قربانی بھی اسی کے لئے مخصوص ہونی چاہئے۔ یہ حقیقت اِنّا (بلاشبہ ہم نے) اور لِرَبِّک (اپنے خدا وند ہی کیلئے) کے الفاظ پر غور کرنے سے سامنے آتی ہے اور پوری طرح واضح ہوجاتی ہے۔ یعنی ہم ہی نے تم کو بخشا ہے، اس وجہ سے تمہارا فرض ہے کہ مشرکین کے برخلاف صرف ہماری ہی نماز پڑھو اور ہمارے ہی لئے قربانی کرو۔ 
نماز اور قربانی میں مناسبت 
صرف یہ بات کہ خدا نے نماز اور قربانی کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے، ہم کو دعوت دیتی ہے کہ ہم ان دونوں کی باہمی مناسبت پر غور کریں۔ ہم ان کو بیان کرتے ہیں تاکہ ایک طرف آیت کا حسن نظم واضح ہو اور دوسری طرف ان حقائق کی روشنی میں ہم یہ دیکھ سکیں کہ قرآن کی جو سورتیں اپنے الفاظ کے اعتبار سے بہت مختصر ہیں یعنی ایک قطرہ کی حیثیت رکھتی ہیں، وہ اپنے معانی کے اعتبار سے بحر بے کراں ہیں۔ 
 نماز اور قربانی میں وہی مناسبت ہے، جو مناسبت ایمان اور اسلام میں ہے۔ 
 نماز ظاہر ہے کہ قول و اقرار ہے۔ یہ اٹھنا بیٹھنا، جھکنا، سجدہ کرنا، ہاتھ اٹھانا، انگلی سے اشارہ کرنا کیا ہے ؟ یہ سب اداؤں کی زبان سے ہمارا قول و قرار ہے۔ یہ ایمان کے بعد راہِ اطاعت میں ہمارا پہلا قدم ہے۔ یہ اعمال کے دروازہ کی کلید ہے۔ اسی سبب سے یہ تمام شریعت کے دروازہ کا عنوان قرار دی گئی ہے۔ 
حضرت ابراہیمؑ کے قصہ میں بھی اس حقیقت کی پوری تشریح ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو اس کی صفت توحید کے ساتھ پہچان لینے کے بعد فرمایا : ’’بیشک میں نے اپنا رُخ (ہر سمت سے ہٹا کر) یکسوئی سے اس (ذات) کی طرف پھیر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو بے مثال پیدا فرمایا ہے اور (جان لو کہ) میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ ‘‘ (الانعام : ۷۹) 
اس آیت میں جس توجہ الی اللہ کا ذکر ہے نماز اسی توجہ الی اللہ کی عملی تصویر ہے۔ اسی وجہ سے ہماری نمازوں کا عنوان یہی مبارک آیت قرار پائی۔ یہی بات ایک دوسرے مقام پر ابطال شرک کے بعد، آنحضرت ؐ کو مخاطب کرتے ہوئے یوں فرمائی :
’’پس آپ اپنا رخ اﷲ کی اطاعت کے لئے کامل یک سُوئی کے ساتھ قائم رکھیں۔ اﷲ کی (بنائی ہوئی) فطرت (اسلام) ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہے (اسے اختیار کر لو)، اﷲ کی پیدا کردہ (سرشت) میں تبدیلی نہیں ہوگی، یہ دین مستقیم ہے لیکن اکثر لوگ (ان حقیقتوں کو) نہیں جانتے، اسی کی طرف رجوع و اِنابت کا حال رکھو اور اس کا تقویٰ اختیار کرو اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے مت ہو جاؤ۔ ‘‘ (الروم: ۳۰۔ ۳۱)
اس سے معلوم ہوا کہ نماز تمام مخلوقاتِ الٰہی کی فطرت ہے۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا: ’’ساتوں آسمان اور زمین اور وہ سارے موجودات جو اِن میں ہیں اﷲ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، اور (جملہ کائنات میں ) کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو۔ ‘‘(بنی اسرائیل : ۴۴) 
ساتوں آسمان اور زمین اور جو اِن میں ہیں، اس کی تسبیح پڑھتے ہیں اور نہیں ہے کوئی شے مگر اس کی حمد کے ساتھ تسبیح پڑھتی ہے۔ 
معلوم ہوا کہ تمام اعمال میں سے نماز، ایمان سے سب سے زیادہ قریب بلکہ ایمان کا اولین فیضان ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات کی فطرت ہے۔ گویا نماز حقیقت ایمان کی تصویر ہے)۔ 
 اب قربانی کی حقیقت پر غور کرو جو حقیقت ِ اسلام کی تصویر ہے۔ 
جب حضرت ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے ہمارا امام، ان کی مسجد کو ہمارا قبلہ اور ان کے طریقہ کو ہمارے لئے دستور العمل بنایا تو ایک واقعہ بیان کرکے ہمارے لئے قربانی کی حقیقت بھی آشکارا کردی، جس سے ضمناً نماز کی حقیقت پر روشنی پڑتی ہے۔ انہوں نے فرمایا : 
’’میں اپنے پروردگار کی طرف جارہا ہوں، وہ میری رہبری فرمائے گا۔ ‘‘ (الصافات:۹۹)
’’اے میرے رب! صالحین میں سے مجھے ایک (فرزند) عطا فرما۔ ‘‘ (الصافات:۱۰۰) 
’پس ہم نے انہیں بڑے بُرد بار بیٹے (اسماعیل علیہ السلام) کی بشارت دی۔ ‘‘(الصافات:۱۰۱) 
’’پھر جب وہ (اسماعیل ؑ) ان کے ساتھ دوڑ کر چل سکنے (کی عمر) کو پہنچ گیا تو (ابراہیم ؑ نے) فرمایا: اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں سو غور کرو کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ (یہ سوال اسلئے تھا کہ اس اطاعت میں فرمانبردار بیٹے کو بھی برابر کا شریک کرلیا جائے کیونکہ حضرت ابراہیم ؑ ہمیشہ کیلئے تسلیم و اطاعت ِ الٰہی کی ایک راہ کھول رہے تھے، اور چونکہ اطاعت شعار فرزند سحر کی دعاؤں کی قبولیت کے نتیجہ کے طور پر عطا ہوا تھا اس وجہ سے اس کا عاقل اور حلیم ہونا معلوم تھا۔ اسماعیل ؑ نے) کہا: ابّا جان! وہ کام کر ڈالئے جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے۔ اگر اﷲ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ (الصافات:۱۰۲)
’’پھر جب دونوں (رضائے الٰہی کے سامنے) جھک گئے (یعنی دونوں نے مولا کے حکم کو تسلیم کرلیا) اور ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے پیشانی کے بل لِٹا دیا۔ ‘‘ (الصافات:۱۰۳) (یعنی اس طرح دونوں نے اپنے کمالِ اطاعت و اسلام کو آشکارا کردیا کیونکہ باپ نے اس چیز کو قربان کرنے کا عزم کرلیا جو اس کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھی اور بیٹے کی تو کل کائنات صرف اس کی جان ہی تھی)۔ 
’’اور ہم نے اسے ندا دی کہ اے ابراہیم! واقعی تم نے اپنا خواب (کیاخوب) سچا کر دکھایا۔ بے شک ہم محسنوں کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں۔ بے شک یہ بہت بڑی کھلی آزمائش تھی، اور ہم نے ایک بہت بڑی قربانی کے ساتھ اِس کا فدیہ کر دیا۔ ‘‘ 
(الصافات:۱۰۴؍ تا ۱۰۷)
اس سرگزشت میں خدا نے ہمارے سامنے یہ حقیقت کھولی ہے کہ اسلام کی روح، خدا کی اطاعت اور اپنی عزیز سے عزیز متاع حتیٰ کہ جان کو بھی خدا کے حوالہ کردینا ہے۔ اور یہ بات بغیر کامل ایمان و اخلاص کے پیدا نہیں ہوسکتی۔ 
 اللہ سے دُعا ہے کہ ہم سب پر رحم فرمائے اور ہمیں قربانی کی اصل روح کو اور اس کے مقصد حقیقی کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK