Inquilab Logo

اصحاب الاخدود : قرآنی دعوت کا ایک عظیم واقعہ

Updated: April 19, 2024, 5:06 PM IST | Dr. Ismatullah | Mumbai

قرآن مجید میں انبیاء کرام ؑ اور ان کی اقوام، نیک و بد لوگوں اور ان کے انجام کے قصے بیان کئے گئے ہیں۔ قرآنی قصوں، حکایات اور واقعات کے کچھ مخصوص اور متعین اغراض ومقاصد ہیں۔ زیرنظر سطور میں اصحاب الاخدود کا واقعہ پیش کیا جارہا ہے۔

It is said that the area where Ashab al-Akhdud lived is located on the banks of the Najran Valley in the Kingdom of Saudi Arabia. Photo: INN
بتایا جاتا ہے کہ اصحاب الاخدود جس علاقے میں آباد تھے وہ مملکت سعودی عرب کے علاقے میں وادیٔ نجران کے کنارے پر واقع ہے۔ تصویر : آئی این این

قرآن مجید، تواریخ یا کہانیوں کی کتاب نہیں، لیکن اس میں تاریخ کے ان حقائق کا تذکرہ ہے، جن کے معلوم کرنے کا دوسرا کوئی ذریعہ انسانوں کو دستیاب نہیں ہے۔ قرآن مجید میں مذکور تاریخی واقعات اور ماضی کی تاریخ، سب سے زیادہ قابل اعتماد اور ثابت شدہ تاریخی حقائق ہیں۔ قرآن مجید کا تاریخی واقعات وحقائق اور قوموں نیز شخصیات کے احوال بیان کرنے کا ایک منفرد اور خاص انداز ہے۔ یہ حقائق و واقعات زمان ومکان اور غیر متعلقہ تفصیلات کے حوالے سے بالعموم خاموش ہیں۔ ’اصحاب الاخدود‘کے واقعے کی تربیتی اور دعوتی اہمیت اور دیگر کئی مقاصد کے پیشِ نظر اس کو قرآن مجید اور حدیث دونوں میں بیان کیا گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کے راوی، صحابہ کرامؓ میں سے وہ لوگ ہیں، جو خود مکہ مکرمہ میں مشرکین مکہ کے شدید ظلم وستم اور تشدد کا شکار بنتے رہے۔ 
پہلے اور اصل راوی حضرت صہیب رومیؓ ہیں، جن کو قریش بہت ستاتے تھے، جسمانی اذیت کے علاوہ، ہجرت مدینہ کے وقت ان کے مال وجایداد پر قبضہ کرلیا۔ بے سروسامانی کی حالت میں آپ کی آمد قبا میں ہوئی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشخبری دی: رَبِحَ الْبَیْعْ أَبَایَحْیٰی۔ ابویحییٰ! { FR 651 }کامیاب تجارت کرکے آئے ہو۔ 
اس قصے کا ایک حصہ حضرت خبابؓ بن الارتّ سے روایت ہواہے۔ یہ ایک قریشی عورت کے غلام تھے، جو لوہے کی گرم سلاخوں پر ان کو لٹاتی تھی یہاں تک کہ ان کے جسم، پشت کی چربی سے وہ سلاخیں بجھ جاتی تھیں۔ ایک مرتبہ کعبہ کے سائےمیں بیٹھے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:’’یارسولؐ اللہ! آپؐ ہماری مدد ونصرت کے لئے دعا کیوں نہیں کرتے؟‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم سے پہلی امتوں میں گڑھا کھود کر ایک مسلمان فرد کو اس میں ڈال دیا جاتا پھر لوہے کی کنگھیو ں سے ہڈیوں تک اس کا گوشت نوچ لیا جاتا تھا۔ اس کے سر پر آرا رکھ کر اس کے جسم کو دو حصوں میں چیر ڈالا جاتا، اور وہ اپنے دین سے نہیں پھرتا تھا۔ ‘‘ (بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، حدیث: ۳۴۳۶)
اسی طرح یہ ابتدا سے آخر تک مجسم ِ دعوت قصہ ہے، جس میں دعوتی ترجیحات واوّلیات کی وضاحت اور مراحلِ دعوت میں فطری ارتقا ہے۔ ابتدا میں صرف ایک شخص، رازداری، خفیہ دعوت، پھر علانیہ دعوت کے عمل سے گزرتا ہے، اور پھر بڑے پیمانے پر لوگ دعوت قبول کرلیتے ہیں، دعوت کے کارکنان وتنظیمات کے لئے ایک کامیاب تجربہ بطور نمونہ ومثال پیش کردیا گیا ہے، جس سےفکری وعملی تبدیلی پر مشتمل مکمل دعوت، اس کی اہمیت، ترجیحات، انفرادی واجتماعی دعوت کے مختلف مراحل میں واضح اور بہترین رہنمائی ملتی ہے۔ ہمیشہ دعوت کے نتیجے میں افرادبتدریج تبدیل ہوتے ہیں۔ قلیل تعداد آہستہ آہستہ مرور زمانہ سے کثیر تعداد میں تبدیل ہوتی ہے اوربالآخر تبدیلی مکمل ہوجاتی ہے، جب کہ اس قصے میں ابتدا سے آخر تک انقلاب اورتبدیلی کے صرف تین کردار ہیں۔ 
 قرآن مجید نے اس قصہ کا ذکر مکہ مکرمہ میں مسلمانوں پر ظلم وستم کے دور میں نازل ہونے والی سورۂ بروج میں کیا:
ۭ ’’ قسم ہے برجوں والے آسمان کی، اور اس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے (یعنی قیامت)، اور دیکھنے والے کی اور دیکھی جانے والی چیز کی۔ مارے گئے ایندھن بھری آگ کی خندق والے، جب کہ وہ اس پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اور جو کچھ وہ اہل ایمان کے ساتھ کررہے تھے اسے دیکھ رہے تھے۔ اور ان اہل ایمان سے ان کی دشمنی صرف اس وجہ سے تھی کہ وہ اس خدا پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے، جس کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے، اور اللہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔ بے شک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومنہ عورتوں پر ظلم و ستم توڑا، پھر اس سے تائب نہ ہوئے، یقینا ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور جلائے جانے کی سزا ہے۔ ‘‘ (البروج:۱-۱۰)

یہ بھی پڑھئے: فتاوے: ادھار میں نفع کا تناسب، زیورات میں وراثت، پیشگی کرایہ وصولی، دلالی کی رقم سے عمرہ

اصحاب الاخدود کا واقعہ
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے: 
تم سے پہلے ایک بادشاہ تھا جس کے پاس ایک جادوگر تھا۔ جب وہ جادوگر بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور مجھے خدشہ ہے کہ کہیں میرا علم میرے ساتھ ہی دفن نہ ہوجائے، اسلئے آپ میرے پاس ایک ذہین، علم کے شوقین لڑکے کو بھیجیں تاکہ میں اسے اپنا علم/ جادو سکھا سکوں۔ اس پر بادشاہ نے ایک لڑکا جادو سیکھنے کیلئے اس کے پاس بھیج دیا۔ جب اس لڑکے نے اس کے پاس جانا شروع کیا تو راستے میں ایک عیسائی عبادت گاہ (صومعہ) میں ایک راہب تھا۔ – ان عبادت گاہوں والے اس وقت کے مسلمان تھے۔ وہ لڑکا اس راہب کے پاس بیٹھا اور اس کی باتیں سننے لگا، جو اسے پسند آئیں۔ پھر جب بھی وہ جادوگر کے پاس آتا اور راہب کے پاس سے گزرتا تو اس کے پاس بیٹھتا اور اس کی باتیں سنتااور مختلف سوالات کرتا رہتا۔ ایک عرصے تک اس کا یہی معمول رہا اور بالآخر راہب نے یہ کہہ کر اسے بتادیاکہ میں تو اللہ کا بندہ ہوں۔ اسی کی عبادت کرتا ہوں۔ اب وہ لڑکا جادوگر کے پاس جاتے ہوئے، راستے میں راہب کے پاس بیٹھ جانے کی وجہ سے جادوگر کے پاس تاخیر سے پہنچتا۔ دیر سے آنے کی وجہ سے وہ اس کو مارتا اور لڑکے کے گھر والوں کو بھی بتا دیا کہ یہ تو میرے پاس بہت کم حاضر ہوتا ہے۔ اس لڑکے نے اس کی شکایت راہب سے کی تو راہب نے کہا کہ اگر تجھے جادوگر مارنے لگے تو کہہ دیا کر کہ مجھے میرے گھر والوں نے روک لیا تھا اور جب تجھے گھر والوں سے پٹائی کا ڈر ہو تو کہہ دیا کر کہ مجھے جادوگر نے روک لیا تھا۔ 
اسی دوران ایک مرتبہ ایک درندے نے لوگوں کا راستہ روک لیا کہ ان کا گزرنا مشکل ہورہاتھا۔ جب لڑکا اس طرف آیا تو اس نے کہا کہ میں آج جاننا چاہوں گا کہ جادوگر افضل ہے یا راہب اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے؟ اور پھر ایک پتھر پکڑا اور کہنے لگا: ’’اے اللہ، اگر تجھے جادوگر کے معاملے سے راہب کا معاملہ زیادہ پسند یدہ ہے تو اس درندے کو مار دے تاکہ لوگوں کا آنا جانا ہو۔ ‘‘ اور پھر پتھر سے درندے کو مار دیا اور لوگ گزرنے لگے۔ پھر وہ لڑکا راہب کے پاس آیا اور اسے یہ خبر دی تو راہب نے اس لڑکے سے کہا: اے میرے بیٹے! آج تو مجھ سے افضل ہے کیونکہ تیرا معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ جس کی وجہ سے تو عنقریب ایک مصیبت میں مبتلا کردیا جائے گا۔ پھر اگر تو کسی مصیبت میں مبتلا کردیا جائے تو کسی کو میرا نہ بتانا۔ 
وہ لڑکا مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو صحیح کردیتا تھا بلکہ لوگوں کا بیماری سے علاج بھی کردیتا تھا۔ اسی دوران بادشاہ کا ایک ہم نشین اندھا ہوگیا۔ اس نے لڑکے کے بارے میں سنا تو وہ بہت سے تحفے لے کر اس کے پاس آیا اور اسے کہنے لگا: اگر تم مجھے شفا دے دو تو یہ سارے تحفے جو میں یہاں لے کر آیا ہوں وہ سارے تمہارے لئے ہیں۔ اس لڑکے نے کہا ’’میں تو کسی کو شفا نہیں دے سکتا، شفا تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔ اگر تو اللہ پر ایمان لے آئے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ وہ تجھے شفا دے دے۔ ‘‘ لڑکے نے اس کے لئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے شفا عطا فرما دی۔ نتیجے میں وہ شخص اللہ پر ایمان لے آیا۔ 
 وہ آدمی اپنے معمول کے مطابق بادشاہ کے پاس آیا اور اس کے پاس بیٹھ گیا۔ بادشاہ نے اس سے کہا کہ کس نے تجھے تیری بینائی واپس لوٹا دی؟ اس نے کہا: میرے ربّ نے۔ بادشاہ نے کہا: کیا میں نے؟اس نے کہا: نہیں، اللہ نے جو میرا اور تیرا دونوں کا رب ہے۔ بادشاہ نے کہا: کیا میرے علاوہ تیرا اور کوئی ربّ بھی ہے؟ اس نے کہا : ہاں۔ اب بادشاہ اس کو پکڑ کر عذاب دینے لگا تو اس نے بادشاہ کو اس لڑکے کے بارے میں بتادیا۔ اس لڑکے کولایا گیا تو بادشاہ نے اس سے کہا: ’’اے بیٹے ! کیا تیرا جادو اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ اب تو مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو بھی شفا دینے لگ گیا ہے اور ایسے ایسے کرتا ہے ؟‘‘ لڑکے نے کہا: ’’میں تو کسی کو شفا نہیں دیتا، شفا تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔ ‘‘
بادشاہ نے اسے پکڑ کر سخت تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہاں تک کہ اس نے راہب کے بارے میں بادشاہ کو بتادیا۔ راہب کو پکڑ کر لایاگیا، تو اس سے کہا گیا: ’’تو اپنے اس دین سے پھر جا۔ ‘‘ راہب نے انکار کردیا۔ پھر بادشاہ نے آرا منگوایا اور اس راہب کے سر پر رکھ کر اس کا سر چیر کر اس کے دو ٹکڑے کر دئیے۔ پھر بادشاہ کے ہم نشین کو لایا گیا اور اس سے بھی کہا گیا کہ ’’تو اپنے دین سے پھر جا‘‘۔ اس نے بھی انکار کردیا۔ بادشاہ نے اس کے سر پر بھی آرا رکھ کر سر کو چیر کر اس کے دوٹکڑے کروا دئیے۔ 
 پھر اس لڑکے کو بلوایا گیا۔ وہ آیا تو اس سے بھی یہی کہا گیا کہ اپنے دین سے پھر جا۔ اس نے بھی انکار کردیا تو بادشاہ نے اس لڑکے کو اپنے کچھ لوگوں کے حوالے کرکے کہا: ’’اسے فلاں پہاڑ پر لے جاؤ اور پہاڑ کی چوٹی پر چڑھاؤ۔ اگر یہ اپنے دین سے پھر جائے تو اسے چھوڑ دینا اور اگر انکار کر دے تو اسے پہاڑ کی چوٹی سے نیچے پھینک دینا۔ ‘‘
چنانچہ بادشاہ کے ساتھی اس لڑکے کو پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے تو اس لڑکے نے دعا کرتے ہوئےکہا: ’’اے اللہ تو مجھے ان سے بچانے کے لئے کافی ہے جس طرح تو چاہے مجھے ان سے بچا لے۔ ‘‘ اس پہاڑ پر فوراً ایک زلزلہ آیا، جس سے بادشاہ کے وہ سارے کارندے گرگئے اور وہ لڑکاچلتے ہوئے واپس بادشاہ کی طرف آگیا۔ بادشاہ نے اس لڑکے سے پوچھا کہ ’’تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا؟‘‘ لڑکے نے کہا: ’’اللہ پاک نے مجھے ان سے بچا لیا ہے۔ ‘‘
بادشاہ نے پھر اس لڑکے کو اپنے کچھ دیگر لوگوں کے حوالے کر کے کہا: ’’اگر یہ اپنے دین سے نہ پھرے تو اسے ایک چھوٹی کشتی میں لے جا کر سمندر کے درمیان میں پھینک دینا۔ ‘‘ بادشاہ کے ساتھی اس لڑکے کو لے گئے تو اس لڑکے نے پھر دعا کی اورکہا :’’اے اللہ تو جس طرح چاہے مجھے ان سے بچا لے۔ ‘‘ پھر وہ کشتی بادشاہ کے ان کارندوں سمیت الٹ گئی اور وہ سارے کے سارے غرق ہوگئے اور وہ لڑکا چلتے ہوئے بادشاہ کی طرف واپس آگیا۔ بادشاہ نے اس لڑکے سے کہا: ’’تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا ؟‘‘ اس نے کہا: ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے بچا لیا ہے۔ ‘‘
پھر اس لڑکے نے بادشاہ سے کہا: ’’تو مجھے قتل نہیں کرسکتا، جب تک کہ اس طرح نہ کر جس طرح کہ میں تجھے حکم دوں ‘‘۔ بادشاہ نے کہا: ’’وہ کیا؟‘‘ اس لڑکے نے کہا: ’’سارے لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کرو اور مجھے سولی کے تختے پر لٹکاؤ۔ پھر میرے ترکش سے ایک تیر کو پکڑو پھر اس تیر کو کمان کے حلہ میں رکھ کر یہ کہو: ’’اس اللہ کے نام سے، جو اس لڑکے کا ربّ ہے۔ پھر مجھے تیر مارو۔ اگر تم اس طرح کرو، تو مجھے قتل کرسکتے ہو۔ ‘‘
پھر بادشاہ نے لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کیا اور اس لڑکے کو سولی کے تختے پر لٹکا دیا۔ پھر اس کے ترکش میں سے ایک تیر لیا۔ پھر اس تیر کو کمان میں رکھ کر کہا: ’’اس اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا ربّ ہے‘‘۔ پھر وہ تیر اس لڑکے کو مارا تو وہ تیر اس لڑکے کی کنپٹی میں جا گھسا۔ لڑکے نے اپنا ہاتھ تیر لگنے والی جگہ پر رکھا اور مرگیا۔ اس پر سب لوگوں نے بیک آوازکہا: ’’ہم اس لڑکے کے ربّ پر ایمان لائے، ہم اس لڑکے کے ربّ پر ایمان لائے، ہم اس لڑکے کے ربّ پر ایمان لائے۔ ‘‘ بادشاہ کو اس کی خبر دی گئی اور اس سے کہا گیا: ’’تجھے جس بات کا ڈر تھا، اب وہی بات آن پہنچی کہ سب لوگ لڑکے کے ربّ، اللہ پر ایمان لے آئے۔ ‘‘
 تو پھر بادشاہ نے گلیوں کے دھانوں پر خندقیں کھودنے کا حکم دیا۔ خندقیں کھودی گئیں، تو ان خندقوں میں آگ جلا دی گئی۔ بادشاہ نے کہا: ’’جو آدمی اپنے دین سے پھر جائے گا تو میں اس کو چھوڑ دوں گا، اور جو اپنے قدیم دین پر واپس نہیں آئے گا اس کو میں اس آگ کی خندق میں ڈلوا دوں گا۔ ‘‘ چنانچہ تیزی کے ساتھ مسلمانوں کو دہکتی ہوئی آگ میں دھکیل دیا گیا۔ اسی دوران ایک عورت آئی اور اس کے ساتھ ایک دودھ پیتا بچہ بھی تھا۔ وہ عورت خندق میں گرنے سے گھبرائی تو اس کے بچے نے کہا: ’’اے امی، صبر کر، کیونکہ تو حق پر ہے۔ ‘‘
اس نوجوان کو شہادت کے بعد دفن کیاگیا۔ کہتے ہیں کہ حضرت عمرفاروقؓ کے عہدخلافت میں اس کی قبر کشائی کی گئی، تو اس کی انگلی کنپٹی کی اسی جگہ پر تھی جہاں اس کو تیرلگاتھا۔ 

یہ بھی پڑھئے: تجوید اور مخارج کے ساتھ تلاوت کرنا قرآن کا حق ہے

اصحاب الاخدود کے قصے کی خوبصورتی، کثرتِ دروس اور شدتِ تاثیر کو نظر میں رکھیں تو کہاجا سکتاہے کہ دنیا کا کوئی عظیم ادیب بھی اتنے خوب صورت انداز میں اس کو نہیں لکھ سکتا تھا جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو امت کی رہنمائی کے لئے بیان فرمایا۔ 
ہمارے عوام بالعموم اور نوجوان نسل بالخصوص آج کل سوشل اور پرنٹ میڈیا کے لچر اور بیہودہ ڈراموں، افسانوں، کہانیوں اور ناولوں میں اپنے قیمتی اوقات ہی نہیں صحت و مال اور اخلاق و کردار بھی برباد کر رہی ہے۔ ایسے میں شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ صاحب ایمان باغیرت مسلمان افراد، عوام الناس اورنوجوان نسل کی تربیت کے لئے ان قرآنی ونبوی قصوں کو کام میں لائیں۔ 
اس قصّے میں نوجوان کے لئے ’غلام‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، جو عربی میں دودھ چھڑانے کے بعد سے سن تمیز تک کی عمر کے بچوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ آج بھی ہم اس بچے سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔ 
اس واقعے کے زمانے کے متعلق حدیث میں تین الفاظ ’قبلکم‘، ’راھب‘ اور ’صومعۃ‘ اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ واقعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد کا ہے۔ البتہ اس کی عبرتیں، حکمتیں اور رہنمائی زمان ومکان اور قومیتوں کی حدود وقیود سے ماورااور قیامت تک کیلئے ہے:
۱- جابربادشاہوں اور ظالم حکمرانوں کی اولین ترجیح عوام کی خیر خواہی اور خدمت نہیں بلکہ عوام کواپنا غلام اور ماتحت سمجھ کر، اقتدار وسلطنت کا تحفظ سب سرگرمیوں کا مرکز و محور ہوتاہے، جس کیلئے وہ ہر حربہ آزماتے ہیں حتیٰ کہ جادو ٹونا بھی اختیار کرتے ہیں۔ 
۲- عالم یا کسی فن کے ماہر کو اگر ہونہار اور ذہین شاگرد میسر نہ ہوسکیں تو اس کا علم وفن اس کے ساتھ ہی دفن ہوجاتاہے۔ 
۳- حصول علم کا بہترین زمانہ بچپن کاعرصہ ہے۔ 
– ۴- یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تدبیر تھی کہ عالم دین کی مجلس کا مقام، اس بچے اور جادوگر کے راستے میں تھا کہ جب ہونہار بچہ وہاں سے گزرے تو بیٹھ کر عالم دین سے سیکھے۔ 
– ۵-کوئی زمانہ اور ملک، ایمان اور علم نافع رکھنے والے علمائے ربانیین سے خالیٰ نہیں رہا۔ 
–۶- حُسن اخلاق اور شیریں کلامی بہت اہم ہے۔ داعی اہل ایمان، صالحین اورعلماء بالعموم حسن اخلاق اور شیریں کلامی سے عامۃ الناس کا دل ودماغ فتح کرلیتے ہیں۔ 
–۷- فہم سلیم اور علم نافع میں اللہ تعالیٰ نے یہ تاثیر رکھی ہے کہ انسان کوایک حلاوت و استقامت بخشتا ہے۔ عالمِ دین کی علم و معرفت پر مبنی گفتگو کا اثر تھا کہ نوجوان نے گھر والوں اور جادوگر کے ذریعہ شدید پٹائی کے باوجود عالم دین کی مجلس نہیں چھوڑی۔ 
 ۸- عالم دین نے اس نوجوان کو رازداری کی غرض سے جادوگر اور اپنے والدین کے سامنے غلط بیانی کا مشورہ دیا۔ یہ اضطرار کی کیفیت تھی کہ اہل ایمان بہت کم اور مظلوم تھے۔ اس کا مشورہ ’توریہ‘ اور ’معاریض‘ کی قسم سے تھا، جس کی شریعت نے گنجائش دی ہے۔ 
۹- یہ نوجوان عالم دین کے پاس بیٹھتا، مگر شاہی فرمان کی وجہ سے جادوگر کے پاس بیٹھنے پر بھی مجبور تھا۔ لیکن اس نے درندے کے واقعے کو اپنے دلی اطمینان اور مستقبل کی راہ متعین کرنے کے لئے ایک کسوٹی کے طور پر استعمال کیا۔ 
۱۰- اللہ جلّ جلالہ، اپنے نیک اور صالح بندوں کی دُعا قبول کرتا ہے اور ان کے ہاتھ پر ایسی کرامات کا ظہور ہوتا ہے جس سے حق کے مخالفین پر واضح ہوتا ہے کہ وہ حق پر ہیں۔ 
۱۱- درندہ جانور کے واقعے اور موقعے پر موجود لوگوں کو اس نوجوان کی کرامت واضح نظر آئی، اور ان کو یقین ہوگیا کہ وہ ایک ممتاز مقام کا مالک ہے۔ 
۱۲- شاگرد مشکل امور میں رہنمائی کے لئے اپنے شیخ کے علم، حکمت اور تجربہ سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔ نوجوان نے درندے کا راستہ روکنے کا واقعہ شیخ کو بتاکر دراصل ہدایت و رہنمائی طلب کی۔ 
۱۳- کبھی شاگرد، اپنے شیخ سے زیادہ ممتاز مقام حاصل کرلیتاہے: ’’یہ اس کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔ ‘‘ (الجمعة:۴) عالمِ دین نے نوجوان کی زبان سے جانور کا واقعہ سن کر اعتراف کیا کہ وہ شیخ سے زیادہ بہتر وافضل ہے حالانکہ وہ اسی کا سکھا یا پڑھایا تھا۔ 
 ۱۴- اہلِ صدق واخلاص کی دلچسپی شہرت اور ریاست میں نہیں بلکہ خیر وحق کی نشرواشاعت میں ہوتی ہے۔ وہ ان کے ذریعے سے ہو یا کسی دوسرے کے ہاتھ سے۔ 
–۱۵- عالم دین نے اپنے علم وحکمت کی بنا پر اس کو بتادیا کہ عوام الناس جب گمراہی میں مبتلا ہوں تو ایسے میں سچے اور مخلص داعی آزمائشوں کا شکار ہوتے ہیں۔ 
۱۶- مومن جان بوجھ کر کبھی اپنے آپ کو آزمائش اور امتحان میں نہیں ڈالتا۔ اسی لئے اس عالم ِ دین نے رازداری کی تاکید کی۔ اس احتیاط کے باوجود اگر مسلمان آزمائشوں میں گھر جائے تو اُسے اللہ تعالیٰ سے صبر وثبات کی توفیق طلب کرنا چاہئے۔ 
۱۷-نوجوان کوئی نذرانہ، ہدیہ قبول نہیں کرتا تھا۔ اس کی اوّلین ترجیح لوگوں کی ہدایت ہوتی تھی۔ 
۱۸- نوجوان لوگو ں کے لئے شفا کی دعا کرتے وقت ہی بڑی وضاحت سے ان کو بتادیتا کہ وہ شفا کا مالک نہیں ہے بلکہ شفا صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، وہی شفا دیتا ہے۔ اس طرح جس دروازہ سے شیاطین جِن و انس داخل ہوکر سادہ لوح لوگوں کے ایمان وعقائد پر ڈاکہ ڈالتے اور غلط عقائد کی ترویج کرتے ہیں، اس کو ابتدا ہی میں مضبوطی کے ساتھ بند کردیتا۔ 
۱۹- اللہ تعالیٰ نے نوجوان داعی کو دو مرتبہ یقینی موت سے بچایا کہ زندگی اور موت کےفیصلے ہی نہیں بلکہ نفع و نقصان کے اموربھی صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ایمان کی اس پختگی کے نتیجے میں اعتماد اور ثابت قدمی پیدا ہوتی ہے۔ دُنیا کے سب امکانات اور دروازے بند نظر آئیں تو ہر در اور مشکل کی شاہ کلید صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ (مسنداحمد بن حنبل، الحدیث: ۲۶۶۹، عن عبداللہ بن عباسؓ)
۲۰- نوجوان کو یقین ہوگیا کہ ظالم بادشاہ اس کو لازماً سزائے موت دیگا تو کیوں نہ موت کو بھی دعوت الیٰ اللہ اور اس کی سچائی کا ذریعہ بنایا جائے! ’’کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ ربّ العالمین کے لئے ہے۔ ‘‘(الانعام:۱۶۲) 
۲۱- تب ظالم بادشاہ نے ظلم و تشدد اور نسل کشی کے ایسےحربے اختیار کئے جن سے اب تک کوئی واقف نہ تھا۔ 
۲۲- جب لوگوں کو نوجوان کے ایمان اور دین کی سچائی کا یقین ہوگیا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ایمان کے ساتھ ایسی ثابت قدمی نصیب فرمائی کہ موت کو گلے لگا لیا اور ہدایت الٰہی کا راستہ نہیں چھوڑا۔ 
۲۳- آخر میں اللہ تعالیٰ نے ایک خاتون کو ثابت قدمی بخشی اور اس کے دودھ پیتے نومولود کی گفتگو کے ذریعے اس کو معجزہ دکھایا۔ 
۲۴- اس قصے کا اصل ہیرو ایک نوجوان تھا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کے دین میں اصل اہمیت علم نافع اور عمل صالح کو ہے، نہ کہ عمر وتجربے کو۔ اللہ تعالیٰ نے دعوت کی تاریخ میں نوجوانوں میں خیر و برکت کی بے شمار مثالیں رکھی ہیں : ابراہیم و عیسیٰ ویحییٰ علیہم السلام، اصحابِ کہف اور صحابہ کرامؓ۔ 
۲۵- اس دنیا میں اللہ تعالیٰ اپنی حکمت و مشیت سے اہل ایمان کو فتح و نصرت اور غلبہ عطا فرماتا ہے، تاکہ اللہ کی زمین میں خیروصلاح اور نیکی وتقویٰ عام ہو، اور اہل ایمان کو اقتدار وغلبہ دے کرآزمائیں کہ وہ کیسے کام کرتے ہیں ؟ لیکن یہ غلبہ ہمیشہ کے لئے اور دائمی نہیں ہوتا، اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وقتی غلبہ اور فتح، اسلام دشمنوں، کفار ومشرکین کو ملتی ہے جس میں کئی حکمتیں ہیں۔ 
 اہل ایمان کو اگر کبھی کسی زمانے میں اس قسم کی صورت حال سے سابقہ پیش آئے تو یہ ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام فیصلے علم، حکمت، مصالح اور مقاصد پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس بات کو دل و دماغ پر نقش کرلینا چاہئے۔
یہ قصّہ اہل علم کو مزید غور وفکر کی دعوت دیتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK