Inquilab Logo

نیکیاں ضائع کرنے والے کام

Updated: April 19, 2024, 4:21 PM IST | Dr. Aisha Yusuf | Mumbai

ہماری زندگی میں ایسے بہت سے کاموں کی مثالیں ہیں کہ جنھیں کرنے یا انجام دینے والے کو گمان ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی رضا اور آخرت کے اجر کیلئے کررہا ہے، لیکن درحقیقت اس کی نیت کچھ اور ہوتی ہے۔ 

Photo: INN
تصویر : آئی این این

ہماری زندگی میں ایسے بہت سے کاموں کی مثالیں ہیں کہ جنھیں کرنے یا انجام دینے والے کو گمان ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی رضا اور آخرت کے اجر کیلئے کررہا ہے، لیکن درحقیقت اس کی نیت کچھ اور ہوتی ہے۔ 
 ایسی نیکیاں جن کو صحیح طریقے سے ادا نہ کیا گیا ہو،قبول نہ ہوں گی، خواہ ظاہری طریقے میں نقص ہو یا دل کی کیفیت میں کمی ہو۔ظاہری طریقے میں نقص کی ایک مثال یہ ہے کہ بنیادی شرائط پوری نہ کی گئی ہوں،مثلاً طہارت کے بغیر نماز ادا کی جائے، یا روزہ، حج اور دیگر عبادات جن کے ارکان و شرائط علماء نے الگ سے جمع بھی کردیئے ہیں، وہ ان کا خیال رکھے بغیر کئے جائیں۔ یہ علم کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں جو ایک مومن کے لئے صحیح نہیں۔ علم کی کمی میں معذور ہونے کو شاید اللہ تعالیٰ معاف کردے،لیکن بلاعذر علم ہی نہ ہونا، مومن کی شان سے مناسبت نہیں رکھتا۔ 
دل کی کیفیت میں کمی کی صورت یہ ہے کہ نیکیوں کو بے دلی یا سُستی سے کیا جائے،یا زبردستی سمجھ کر کیا جائے، یا نیکیوں کے دوران کوئی کیفیت موجود ہی نہ ہو۔جیساکہ ہم دیکھتے ہیں کہ سورئہ ماعون میں بے نمازیوں کے لئے نہیں، بلکہ بعض نمازیوں کے لئے بھی تباہی کی وعید ہے۔سورئہ نساء (آیت ۱۴۲) میں نماز کے لئے کسمساتے ہوئے اور دکھانے کے لئے اٹھنے کا تذکرہ ہے۔حدیث میں ہے کہ اس نماز کی جزا نہیں جس میں آدمی رکوع و سجود میں پیٹھ سیدھی نہ کرے۔ (ابن ماجہ،ابومسعود)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص ساٹھ سال تک نماز پڑھتا ہے، مگر اس کی ایک نماز بھی قبول نہیں ہوتی۔ پوچھا گیا وہ کیسے ؟انہوں نے کہا: کیوں کہ نہ وہ رکوع پورا کرتا ہے اور نہ سجود،نہ قیام پورا کرتا ہے اور نہ اس کی نماز میں خشوع ہوتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: جنوں نے آپؐ کو تلاوت کرتے ہوئے سنا اور ایمان لے آئے

حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’ایک شخص اسلام میں بوڑھا ہو گیا اور ایک رکعت بھی اس نے اللہ کے لئے مکمل نہیں پڑھی‘‘۔ پوچھا گیا: کیسے یا امیرالمومنین؟‘‘ فرمایا: ’’اس نے اپنا رکوع پورا کیا اور نہ سجود۔ ‘‘
امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا:’’انسانوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہوں گے،لیکن وہ نماز نہیں ہوگی۔ ‘‘
جنید بغدادیؒ کا ایک واقعہ کتب میں لکھا ہے، جس میں وہ ایک واپس آنے والے حاجی سے مناسک ِ حج کے ساتھ کچھ کیفیات کے متعلق پوچھتے ہیں۔جب وہ نفی میں جواب دیتا ہے، تو وہ اسے حج دوبارہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ 
نیکی کرنے کا طریقہ بھی صحیح رکھنا چاہئے اور اس کے لئے علم حاصل کرنا چاہئے۔ 
نیکی کے دوران اس کے آداب اور دل کی کیفیات کا خیال رکھنا چاہئے۔ پوری رضامندی اور خوشی کے ساتھ نیکی کرنا چاہئے۔ 
نیکی کرتے ہوئے ڈرتے رہنا چاہئے، کیوں کہ مومنوں کوعمل قبول نہ ہونے کاڈر رہتا ہے اور خشیت مومنوں کی کیفیت ہے۔سورئہ انبیاء (آیت ۹۰) میں نیکیوں کی دوڑ دھوپ کے ساتھ خوف کا بھی ذکر ہے۔نیکی کے بعد اس کی قبولیت کی دعا کرنی چاہئے،خواہ وہ نماز ہو،کوئی انفاق ہو،دین کے لئے نکلنا اور چلنا ہو،یا کسی بندے سے معاملہ ہو۔ 
 نبی اکرمؐ جب نماز فجر میں سلام پھیرتے تو یہ دعا پڑھتے: اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں پاکیزہ روزی،نفع بخش علم اور قبول ہونے والے عمل کا۔ (ابن ماجہ،اُمِ سلمہؓ) حضرت ابراہیمؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت دُعا کی تھی:’’اے ہمارے رب، ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے۔ ‘‘(البقرہ:۱۲۷)
 حدیث ِ نبویؐ سے معلوم ہوتا ہے کہ شہید،عالم اور سخی کو جہنم میں ڈال دیا گیا کیونکہ یہ دکھاوے کیلئے عمل کرتے تھے۔اس طرح جان کی قربانی،حصولِ علم،صدقہ کیا ہوا مال ضائع ہوسکتے ہیں۔ (نسائی)
 نماز کو ورزش، روزے کو خوراک کنٹرول کرنے کا منصوبہ،اور حج کو سیاحت کی نیت سے کرنے سے یہ عبادتیں بے معنی ہوسکتی ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK