Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسلام میں فلاح کا دروازہ ہر ایک کے لئے کھلا ہوا ہے

Updated: May 30, 2025, 3:35 PM IST | Tauqeer Rahmani | Mumbai

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی بصیرت کسی عام حکمت عملی کا نام نہ تھی، بلکہ یہ ربانی تنویر سے معمور ایک ایسی حکمت تھی جو انسانی شعور کے نشیب و فراز، نفسیاتی میلانات، سماجی پرتوں کی ذہنی ساخت اور قبولِ حق کے امکانات کو حیرت انگیز گہرائی کے ساتھ محیط تھی۔

Crowds of pilgrims outside the Al-Abbas Mosque in Taif. Photo: INN
طائف کی العباس مسجد کے باہر زائرین کا ہجوم۔ تصویر: آئی این این

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی بصیرت کسی عام حکمت عملی کا نام نہ تھی، بلکہ یہ ربانی تنویر سے معمور ایک ایسی حکمت تھی جو انسانی شعور کے نشیب و فراز، نفسیاتی میلانات، سماجی پرتوں کی ذہنی ساخت اور قبولِ حق کے امکانات کو حیرت انگیز گہرائی کے ساتھ محیط تھی۔ اس دعوتی حکمت کی سب سے پہلی اور روشن مثال خود مرکز ِ نزولِ وحی یعنی حجاز مقدس کا انتخاب ہے۔ حکمتِ نبویؐ کا پہلا مظہر حجاز کا انتخاب تھا، جو جغرافیائی، تہذیبی اور قبائلی لحاظ سے ایک مثالی مرکز ثابت ہوا۔ یہ انتخاب محض جغرافیائی نہیں، ایک الہامی پیش بندی تھی جسے ایک مستقل موضوع کے طور پر گہرے غور و فکر کا حق حاصل ہے۔ 
اس ربانی دعوت میں جہاں انسانی فطرت کی نزاکتوں کو ملحوظ رکھا گیا، وہیں اگر کسی لمحے انسانی اندازہ تھوڑا سا بھی حقیقت سے ہٹتا محسوس ہوا تو فوراً وحی الٰہی کی صورت میں تصحیح نازل ہوتی، جو اس دعوت کی الہامی حیثیت کا زندہ ثبوت ہے۔ مکی زندگی کے ایک نازک لمحے میں، جب اشرافِ قریش نے ایک علیحدہ مجلس کا مطالبہ کیا اور عین اس مجلس میں ایک نابینا صحابی، حضرت عبداللہ ابنِ اُم مکتوم رضی اللہ عنہ، اخلاص کے ساتھ دین کی طلب میں حاضر ہوئے تو رسول اکرمؐ نے محض ایک لمحاتی تاخیر سے انہیں نظرانداز فرمایا، غالباً اس گمان کے تحت کہ ان سے بعد میں تفصیل سے گفتگو کرلیں گے۔ مگر وہ رب جو علیم بذات الصدور ہے، اس نے فوراً سورۂ عبس کے ذریعے نہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی فرمائی بلکہ ایک ابدی پیغام بھی رقم فرمایا کہ دینِ اسلام میں اصل شرف و برتری حسب و نسب میں نہیں، بلکہ صرف اور صرف تقویٰ میں ہے۔ 
مکہ کی سرزمین پر جب دعوتِ حق کو سرد مہری اور تکذیب کا سامنا ہوا، تو نگاہِ نبوت کی امید بھری کرنیں طائف کی جانب متوجہ ہوئیں۔ طائف بھی ایک تمدنی مرکز تھاتجارت، زراعت اور اشرافیہ کے اعتبار سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کی جانب رُخ کیا، جہاں ایک مختلف سماجی ساخت موجود تھی جس سے دعوت کو نئی جہت مل سکتی تھی۔ مگر یہاں کا ردعمل نہ صرف مایوس کن تھا بلکہ درندگی و سفاکی کی ایسی مثال قائم ہوئی کہ مجبوراً محبوبِ خدا کو اہلِ طائف کی سنگ زنی سے بچ کر پناہ کی تلاش میں ایک درخت کے سائے تلے رکنا پڑا۔ اگرچہ اس اقدام کا مقصد اشراف کے ذریعے عوام تک پیغام رسانی تھا، لیکن تاریخ نے گواہی دی کہ نبوی دعوت کسی مخصوص طبقے کی مرہونِ منت نہیں، بلکہ پتھروں سے لہو لہان وجود بھی افقِ انسانیت پر آفتابِ رحمۃ للعالمین بن کر چمکتا رہا۔ 

یہ بھی پڑھئے:شریعت محض قانونی احکام نہیں

یہ وہ لمحہ ہے جہاں تاریخ، نفسیات، فلسفہ، اور وحی ایک نکتے پر جمع ہوتے ہیں۔ یہاں ایک جلیل القدر نبی، جسے ملائکہ نصرت کی پیشکش دے رہے ہوں، وہ طائف کی گلیوں میں بے بسی کی تصویر بنا کھڑا ہے، مگر اس کے ہونٹوں پر بددعا نہیں، بلکہ ہدایت کی دعا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسانی تاریخ کو سب سے عظیم اخلاقی پیغام ملتا ہےکہ دعوت، حکمت اور صبر کا امتزاج نبوت کا جوہر ہے، اور اسلام کی فتح، اشرافیہ کی منظوری سے نہیں، عوام کی بےلوث قبولیت سے عبارت ہے۔ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طائف کی جانب پیش قدمی صرف ایک جغرافیائی حکمت عملی نہ تھی، بلکہ یہ ایک گہری سماجی بصیرت اور انسانی نفسیات کو سمجھنے کی مکمل تجزیہ کاری تھی۔ طائف، مکہ کی طرح ایک تجارتی اور زراعتی مرکز تھا، لیکن یہاں کا سماجی ڈھانچہ کچھ مختلف تھا۔ طائف میں غالباً وہ طبقہ زیادہ تھا جو کمزور، مظلوم، اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں بڑی باریکی سے مشاہدہ کیا تھا کہ اشرافیہ، مالدار، اور صاحبانِ حیثیت افراد نہ صرف اسلام کے پیغام کو رد کر رہے تھے بلکہ اپنی تکبر اور دنیاوی مفادات کی بنیاد پر اس کی مخالفت میں شدت پیدا کر رہے تھے۔ اس کے مقابلے میں، مکہ کے غلام اور مظلوم طبقات جیسے حضرت بلال، حضرت خباب، حضرت صہیب اور حضرت عمار رضی اللہ عنہم اسلام کے پیغام کو فوراً قبول کر رہے تھے اور اسلام کی روشنی میں اپنا ایمان پختہ کر رہے تھے۔ 
یہ حقیقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی حکمت کی بنیاد بن گئی۔ آپؐ نے دیکھا کہ غربت اور تنگدستی انسانی دلوں کو نرم اور تواضع کو بڑھاتی ہے، اور یہی وہ حالت ہے جو انسان کو حق کو قبول کرنے کے لئے زیادہ آمادہ کرتی ہے۔ اس لئے طائف کی طرف آپ کی دعوتی پیش قدمی میں یہ حکمت بھی پوشیدہ تھی کہ اگر طائف کے اشرافیہ اسلام کے پیغام کو قبول نہیں کرتے، تو وہاں کے عوام، مزدور، کسان، اور کمزور طبقات، جنہیں سماج نے اکثر نظرانداز کیا تھا، وہ شاید اس پیغام کو قبول کر لیں گے اور ایک نئی دعوتی فضا کی تخلیق ہو گی۔ 
یہی الہامی منہاج تھا کہ ظاہری حیثیت سے قطع نظر، باطنی طلب کو فوقیت دی جائے۔ اس آیت کی روشنی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حکمت عملی واضح ہوتی ہے کہ اسلام میں فلاح کا دروازہ صرف اشرافیہ کے لئے نہیں بلکہ ہر فرد، خواہ وہ مظلوم ہو یا غریب، کے لئے کھلا ہے۔ چنانچہ، اگر طائف کے سردار ابتدا میں دعوتِ اسلام کو رد کرتے ہیں، تو ممکن تھا کہ وہاں کے عوام، جو ابھی تک پس منظر میں تھے، وہ اس دینِ حق کو قبول کر لیں اور اس کی ترویج کا ذریعہ بنیں۔ 
یہ واقعہ ایک تاریخی سبق بھی دیتا ہے کہ دعوت کو صرف طاقتور طبقے تک محدود نہ رکھا جائے، بلکہ اس کا دائرہ ہر گوشے تک پھیلایا جائے، خاص طور پر مظلوم اور محروم طبقات تک۔ یہ وہ طبقے ہیں جو اکثر تاریخ کے دھارے کو بدلنے والے ثابت ہوتے ہیں اور یہی لوگ جنہیں کبھی نظرانداز کیا گیا بعد میں اسلام کی علامت بن کر ابھرتے ہیں۔ 
وہی طائف، جہاں ابتدا میں تاریک مایوسی نے سایہ کیا تھا، وقت کے ساتھ ایسی روشنی کا مرکز بن گیا کہ حق کے پروانے اسی شہر سے پروان چڑھنے لگے۔ وہ چہرے جو ابتدا میں گمنامی کی دھند میں چھپے ہوئے تھے، بعد کے دور میں حق کی ترجمانی کرنے والے بن گئے۔ طائف جیسے شہر کو نورِ اسلام کی قلعہ گاہ میں ڈھلنے میں دیر نہ لگی۔ اس تبدیلی میں انسانی معاشرت کو سمجھنے کا وہ شعور کارفرما تھا جو دلوں کی گہرائی تک اترتا اور جذبات و حالات کی نزاکتوں کو پہچانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اسی شعور کا مظہر تھی ایسی دوربین بصیرت کا آئینہ جو محض الفاظ پر نہیں، بلکہ انسان کی روح پر اثر کرتی ہے اور دل کی زمین کو زرخیز بنا دیتی ہے۔ 
یہ وہ اندازِ دعوت تھا جو صدیاں گزرنے کے بعد بھی فکر کو ہلانے اور احساس کو بیدار کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ جو صرف ظاہری حیثیتوں کو نہیں، بلکہ باطن کی استعداد کو مخاطب کرتا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو اپنے فہم وادراک میں پیوست کرنا ہوگا کہ تاریخ کی روانی محض طاقتوروں سے نہیں، بلکہ اُن دلوں سے بدلتی ہے جو صداقت کی روشنی کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہی وہ دعوت ہے جو کسی طبقے تک محدود نہیں، بلکہ پوری انسانیت کو برابری، محبت اور دائمی فلاح کا پیغام دیتی ہےایک ایسا پیغام جو انسان کو اس کے اصل مقام سے روشناس کراتا ہے، اور ظلمت سے نکال کر اُسے روشنی کی طرف لے آتا ہے۔ 

islam muslim Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK